سنن نسائي
كتاب الزاينة (من المجتبى)
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
58. بَابُ : ذِكْرِ النَّهْىِ عَنْ أَنْ يُحْلَقَ بَعْضُ شَعْرِ الصَّبِيِّ وَيُتْرَكَ بَعْضُهُ
باب: بچے کے سر کے کچھ بال مونڈنے اور کچھ چھوڑنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5230
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْقَزَعِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» (کچھ بال مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے) سے منع فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔزشراف: 8034) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «قزع» یہ ہے کہ بچوں کے سر کے کچھ بال مونڈ دئیے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5230 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5230
اردو حاشہ:
قزع سے مراد یہی ہے کہ کچھ بال مونڈ دیے جائیں، کچھ چھوڑ دیے جائیں۔ (تفصیل کےلیے دیکھیں حدیث:5051)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5230
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4192
´سر منڈانا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر کے گھر والوں کو تین دن کی مہلت دی پھر آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آج کے بعد میرے بھائی پر تم نہ رونا ۱؎“ پھر فرمایا: ”میرے پاس میرے بھتیجوں کو بلاؤ“ تو ہمیں آپ کی خدمت میں لایا گیا، ایسا لگ رہا تھا گویا ہم چوزے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حجام کو بلاؤ“ اور آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے ہمارے سر مونڈے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4192]
فوائد ومسائل:
بچوں کے بال مونڈ دینے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح مردوں کو بھی جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4192