سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
25. بَابُ : الْمُوتَشِمَاتِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ وَالشَّعْبِيِّ فِي هَذَا
باب: گودوانے والی عورتوں کا بیان اور اس حدیث کی روایت میں عبداللہ بن مرہ اور شعبی کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 5109
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ بِامْرَأَةٍ تَشِمُ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ سَمِعَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُمْتُ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , أَنَا سَمِعْتُهُ , قَالَ: فَمَا سَمِعْتَهُ؟ قُلْتُ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" لَا تَشِمْنَ وَلَا تَسْتَوْشِمْنَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو گودنا گودتی تھی تو انہوں نے کہا: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، اس سلسلے میں تم میں سے کسی نے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر کہا: امیر المؤمنین! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ”(اے عورتو!) نہ گودو اور نہ گودواؤ“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 87 (5946)، (تحفة الأشراف: 14909) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5109 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5109
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ امیرالمؤمنین خلیفۂ ثانی سیدنا عمرفاروق اگرچہ خصائص نبوت کے حامل اور خلیفۂ راشدین ہیں لیکن دینی مسائل میں وہ بھی اپنے اجتہاد سے کچھ کہنے کے بجائے پیش آمدہ مسئلے کی بابت نصوص(قرآن وسنت کے دلائل) تلاش کرتے تھے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے۔
(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو قصہ بیان فرمایا ہے اس کا ایک مقصد یہ بات بتلانا بھی ہے کہ انہیں نصوص، یعنی فرامین رسول ضبط تھے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے موقع پر خاموش نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی تصدیق کرتے اور پوچھتے۔ لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کا انکار کرتے تو اس کا یقیناً ذکر ہوتا۔ بلاشبہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حافظ الحدیث اور فقیہ صحابئ رسول ہیں۔
(3) یہ حدیث ”خبر واحد“ کے حجت ہونے کی بھی دلیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5109
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5946
5946. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو سرمہ بھرنے کا کام کرتی تھی حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ (تم میں سے) کس نے نبی ﷺ سے سرمہ بھرنے کے متعلق کچھ سنا ہے؟ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے امیر المومنین! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا سنا ہے؟ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”نہ سرمہ بھرو اور نہ بھراؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5946]
حدیث حاشیہ:
وشم کا عمل یہ ہے کہ ہاتھ، پیشانی، چہرے یا کسی بھی عضو میں سوئی کے ذریعے سے سرمہ یا نیل بھرا جائے تاکہ وہ سیاہ یا سبز ہو جائے۔
یہ عمل باعث لعنت ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو عورت کسی بیماری کے بغیر سرمہ بھرے یا بھروائے وہ لعنت زدہ ہے۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے متاثرہ جگہ پر بغرض علاج سرمہ بھرا، پھر جب زخم مندمل ہو گیا اور سرمے کے نشانات باقی رہ گئے تو ایسا عمل باعث لعنت نہیں ہے کیونکہ اس میں سرمہ بھرنے یا بھروانے کا قطعاً ارادہ نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 461/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5946