صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
36. بَابُ إِذَا قَالَ أَخْدَمْتُكَ هَذِهِ الْجَارِيَةَ عَلَى مَا يَتَعَارَفُ النَّاسُ. فَهْوَ جَائِزٌ:
باب: عام دستور کے مطابق کسی نے کسی شخص سے کہا کہ یہ لڑکی میں نے تمہاری خدمت کے لیے دے دی تو جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2635
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ بِسَارَةَ، فَأَعْطَوْهَا آجَرَ، فَرَجَعَتْ، فَقَالَتْ: أَشَعَرْتَ أَنَّ اللهَ كَتَبَ الْكَافِرَ، وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً". وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کے ساتھ ہجرت کی تو انہیں بادشاہ نے آجر کو (یعنی ہاجرہ علیہا السلام کو) عطیہ میں دے دیا۔ پھر وہ واپس ہوئیں اور ابراہیم علیہ السلام سے کہا، دیکھا آپ نے اللہ تعالیٰ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ایک لڑکی خدمت کے لیے بھی دے دی۔ ابن سیرین نے کہا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ بادشاہ نے ہاجرہ کو ان کی خدمت کے لیے دے دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2635 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2635
حدیث حاشیہ:
(1)
شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں:
اس میں علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی کہے:
”میں نے یہ لونڈی تجھے خدمت کے لیے دی ہے۔
“ تو اس کا مقصد لونڈی کی خدمت گزاری ہبہ کرنا ہے، اس کی ذات ہبہ کرنا نہیں کیونکہ لفظِ اخدام، اس کے مالک بن جانے کا تقاضا نہیں کرتا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ”میں نے تجھے یہ مکان رہنے کے لیے دیا تو اس کا مقصد مکان سے نفع پہنچانا ہے مکان کا مالک بنانا نہیں۔
“ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کہا:
”میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا۔
“ تو اس سے ہبہ مراد ہو گا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر قرینہ عرف عام پر دلالت کرتا ہے تو معنی عرف عام کے مطابق متعین کیے جائیں، بصورت دیگر دونوں مقام پر لغت کے مفہوم کے مطابق عمل ہو گا۔
اگر کسی قوم میں اخدام کے معنی ہبہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور کوئی شخص مطلق طور پر اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اور اس کا مقصد مالک بنانے کا ہے تو یہی معنی مراد ہوں گے، اور جو شخص ہر حال میں اس سے عاریت مراد لیتا ہے وہ اس متفق علیہ موقف کی مخالفت کرتا ہے۔
(فتح الباري: 303/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2635
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5084
´لونڈیوں کا رکھنا کیسا ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ"، بَيْنَمَا إِبْرَاهِيمُ مَرَّ بِجَبَّارٍ وَمَعَهُ سَارَةُ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَأَعْطَاهَا هَاجَرَ، قَالَتْ: كَفَّ اللَّهُ يَدَ الْكَافِرِ وَأَخْدَمَنِي آجَرَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (دوسری سند) ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے تین مرتبہ کے سوا کبھی دین میں جھوٹ بات نہیں نکلی۔ ایک مرتبہ آپ ایک ظالم بادشاہ کی حکومت سے گزرے آپ کے ساتھ آپ کی بیوی سارہ علیہ السلام تھیں۔ پھر پورا واقعہ بیان کیا (کہ بادشاہ کے سامنے) آپ نے سارہ علیہ السلام کو اپنی بہن (یعنی دینی بہن) کہا۔ پھر اس بادشاہ نے سارہ علیہا السلام کو آجر (ہاجرہ) کو دے دیا۔ (بی بی سارہ علیہا السلام نے ابراہیم علیہ السلام سے) کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے ہاتھ کو روک دیا اور آجر (ہاجرہ) کو میری خدمت کے لیے دلوا دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اے آسمان کے پانی کے بیٹو! یعنی اے عرب والو! یہی ہاجرہ علیہا السلام تمہاری ماں ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5084]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5084 کا باب: «بَابُ اتِّخَاذِ السَّرَارِيِّ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب میں لونڈیوں کے رکھنے کے بارے میں جواز پیش فرمایا اور تحت الباب احادیث کا ذکر فرمایا:
➊ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے
➋ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے
➌ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے
پہلی اور تیسری احادیث کی باب سے مناسبت ظاہر ہے۔
دوسری حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس حدیث کا باپ سے تعلق ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ خدمت کے طور پر حضرت سارا کو بادشاہ نے حضرت ہاجرہ دے دی تھیں، حضرت سارہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اِنہیں ہبہ کر دیا تھا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انہیں اپنے پاس رکھا تو یہاں پر یہ واقعہ ترجمتہ الباب”اتخاذ السراری“ سے مناسبت رکھتا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقه حديث هاجره للترجمه انها كانت امة مملوكة، ثم قد صح ان ابراهيم عليه السلام أولدها بعد ان ملكها فهي سرية.» [المتوري: ص 289]
”ابن المنیر رحمہ اللہ کے بیان سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے، ہے کیونکہ حضرت ہاجرہ ابراہیم علیہ السلام کی لونڈی تھیں، جن کے بطن سے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد بھی پیدا ہوئی۔“
بدرالدین بن جمارعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
«مطابقة الترجمه من حديث ابراهيم عليه السلام لا يظهر من لفظه هذه الطريق بل من لفظه من طريق اٰخر صرح فيه بان ساره ملكته اياها وانه اولدها اسماعيل فاكتفيٰ بالاشارة الي اصل الحديث كعادته فى امثال ذالك.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 98]
”ترجمہ الباب سے حدیث ابراہیم علیہ السلام کی مناسبت اس طریق سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ مناسبت کے لیے دوسرے طریق میں صراحت کے ساتھ الفاظ موجود ہیں کہ حضرت سارہ آپ کی ملکیت میں تھیں اور آپ سے ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، امام بخاری رحمہ اللہ اللہ نے حدیث کے اصل کی طرف اشارے پر اکتفا فرمایا ہے جیسا کہ آپ کی عادت ہے۔“
فائدہ:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین کذبات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس حدیث کو مختلف طریقوں اور زاویوں سے منکرین حدیث نشانہ بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور وہ اس حدیث کو من گھڑت ثابت کرنے کے لئے قرآن پاک کی آیات مبارکہ پیش کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا» [19-مريم:41]
قرآن مجید کی اس آیت نے ابراہیم علیہ السلام کو سچا نبی قرار دیا ہے اور صحیح بخاری کی حدیث انہیں جھوٹا ثابت کر رہی ہے، یہ وہ تعارض اور اعتراض ہے جس کی وجہ سے امت میں کئی نامور شخصیات اس حدیث کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ حدیث کسی بھی طریقے سے قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی آیت مبارکہ حدیث کے خلاف ہے، حقیقت میں اصل مغالطہ اس سے ہوا کہ عرف عام میں جھوٹ اور کذب کو ہم معنی سمجھ لیا گیا، اسی طرح صدق اور سچ کو مترادف سمجھا گیا، اگر تحقیق سے ان الفاظ پر غور کیا جائے تو ہمارے خیال سے ان دونوں ہی الفاظ کی صحیح چھان بین کے بعد خود بخود حدیث پر مغالطہ اپنی موت آپ مر جائے گا، ان شاءاللہ! ہمیں اپنی گفتگو سے قبل دو الفاظ کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہو گا، اول: معنی کذب، دوم: معنی صدق۔ اس کے بعد ان شاءاللہ ہم اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھائیں گے۔
سب سے پہلے اس کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ کذب سے مراد مطلق جھوٹ بولنا ہی نہیں ہوتا، بلکہ اسے تعریضاً استعمال کرنے کو بھی عربی میں کذب ہی کہا جاتا ہے، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر ہجرت میں پیدل جا رہے تھے، لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، یہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا، ”یہ میرے رستے کے رہبر ہیں۔“ حالانکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مراد دنیاوی رستے کی رہبری نہ تھی، بلکہ آخرت کے سفر کی رہبری تھی، جسے لوگوں کے سامنے تعریضاً پیش کیا، حالانکہ یہ ظاہری طور پر جھوٹ تھا۔ [مشكلات الاحاديث النبوية للقصيمي: ص 122]
تعریض کی دوسری دلیل:
عبداللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک میں بصرہ کو جلا نہ ڈالوں گا اور وہاں کے رہنے والوں کو مصر نہ دھکیل دوں گا، اپنے سر کو صابن سے صاف نہیں کروں گا، عبداللہ بن سلمہ یہ سن کر انتہائی پریشان ہوئے۔
سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرہ بیان کیا، یہ سن کر سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اللہ کی قسم! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نہ بصرہ کو نذرآتش کریں گے اور نہ ہی وہاں کے لوگوں کو مصر پہنچائیں گے، کیونکہ ان کے سر پر بال ہی نہیں ہیں جو اسے دھونے کی صابن سے نوبت آئے گی۔
اس واقعہ کی طرف غور کیجئے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ میں اپنا سر نہیں دھووں گا؟، لہٰذا ممکن ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ معنی کچھ اور اخذ فرما رہے ہو اور سامعین اس سے مراد کچھ اور لے رہے ہوں، لہٰذا یہ بھی ایک تعریض ہی کی شکل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان «لم يكذب ابراهيم الا ثلاث كذبات» سے مراد یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں صرف تین تعریضات فرمائی ہیں، کیوں کہ بظاہر سمجھنے والا کچھ اور سمجھتا ہے، مگر کہنے والے کی نیت کچھ اور ہوا کرتی ہے، پس یہی تعریض ہے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والتعريض كلام له وجهان من صدق وكذب أو ظاهر وباطن قل عزوجل (فيم عرضتم من خطبة النساء)» [مفردات القرآن: 85/2]
”تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں من وجہ صدق اور من وجہ کذب جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ «فيما عرضتم...... النساء» [البقرة: 230/2]
سے واضح ہوتا ہے۔“
علامہ قصیمی رحمہ اللہ «كذب ابراهيم عليه السلام» والی حدیث پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کذب اور صدق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
«أما الاولي، وهى أنه كان صديقاً نبيا، فلا ريب أن مغذي الاٰية هو الثناء على ابراهيم بفضيلة الصدق......» [مشكلات الاحاديث النبوية للقصيمي: ص 120]
”پہلی بات یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام «صديقاً نبياً» ہیں اور اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے (یہ ابراہیم علیہ السلام کے حق میں تعریف اور ان کی فضیلت آیت میں بیان ہوئی ہے)۔“
صدق (سچائی) کی دو قسمیں ہیں، ایک صدق ممدوح اور دوسری قسم صدق مذموم، جیسا کہ جھوٹ (کذب) کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک کذب ممدوح اور دوسرا کذب مذموم۔۔۔۔۔۔
بس ممدوح کذب وہ ہو گا، جس میں کوئی دینی مصلحت ہو یا پھر فساد کو دور کرنا مقصود ہو۔
علامہ قصیمی کے بیان کے مطابق کذب ممدوح ظلم، فساد اور دینی مصلحت کے تحت بیان کرنا واضح ہے مزید آپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو ایذا پہنچانے کے درپے ہو، یا پھر انہیں قتل کرنے کے تو ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی خبر (قاتل کو) نہ دیں، لہٰذا یہاں پر کذب بیان کرنا فضیلت کے ساتھ ہو گا اور سچ بولنا جرم ہو گا۔
اس بات کو بھی دامن گیر فرما لیں کہ کسی مصلحت کے تحت تعریضاً اگر جھوٹ بول دیا جائے تو وہ شخص ہرگز جھوٹا نہ ہو گا، اگر وہ سچ بولنے والا ہے تو وہ ہمیشہ سچ بولنے والا ہی قرار پائے گا اس کی مثال پیش خدمت ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ:
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا، پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے کھجوریں سمٹنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا، (جو صدقہ فطر میں آیا تھا) اس نے کہا، جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لئے جاو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس نہ آ سکے گا، (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمائی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صدقك وهو كذوب ذاك شيطان.» [صحيح بخاري: رقم الحديث 5009]
”اس نے تمہیں سچی بات بتائی ہے، اگرچہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔“
مذکورہ حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جھوٹا شخص اگر سچی بات کہے تو اس سچی بات کی وجہ سے وہ کذاب سے صادق ہرگز نہیں ہو گا اور اگر کوئی صادق شخص تعریضاً کوئی بات کہے، جو جھوٹ محسوس ہو رہی ہو اور وہ جھوٹ بھی نہ ہو تو وہ سچا شخص ہرگز کا ذب نہ ہو گا۔ فأفھم!
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص ابن القیم رحمہ اللہ اسی مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وقد فتح الله الكريم بالجواب عنه فنقول الكلام له نسبتان نسبة الى المتكلم وقصده وارادته، ونسبة الى السامع، وافهام المتكلم اياه مضمونه فاذا اخبر المتكلم بخبر مطابق للواقع وقصد افهام المخاطب فهو صدق من الجهتين....» [مفتح السعادة: 29/2]
اللہ تعالیٰ نے (ابراہیم علیہ السلام کے کذب ثلاثہ کی حدیث کے بارے میں) جو مجھ پر انکشاف فرمایا ہے وہ حاضر خدمت ہے۔
ہر کلام کی نسبتیں دو ہوتی ہیں ایک متکلم کے قصد اور ارادے سے اور ایک سامع اور متکلم کو اسے سمجھانے سے تعلق رکھتی ہے، جب گفتگو کرنے والا ایسی خبر دے جو واقع کے مطابق ہو اور مخاطب کو وہ یہ واقع سمجھانا چاہے، یہ دونوں اعتبار سے صدق ہو گا اور اگر خلاف واقع خبر دے اور مخاطب کو خلاف واقع تیسری چیز بتانا چاہے، جو فی الحقیقت واقع نہیں تو یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہے، اگر متکلم صحیح بات حسب واقع بیان کرے لیکن مخاطب کو اس سے نا آشنا رکھنا چاہے تاکہ وہ متکلم کے مقصد کو نہ سمجھ سکے تو وہ متکلم کے قصد کے لحاظ سے صدقہ ہے اور اس کے افہام کے اعتبار سے کذب ہے، اسے ہی تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے، اسی لئے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کذب سے تعبیر فرمایا، حالانکہ بات صحیح ہے اور واقع کے مطابق بھی، اس سے ظاہر ہے کہ کذب بہرحال قبیح ہے، اس کی مستحسن صورت تعریض اور توریہ ہے، جو حقیقت کے اعتبار سے صدق ہے، گو افہام کے لحاظ سے اسے کذب کہا جاسکتا ہے۔
کذب اور صدق پر بحث کرتے ہوئے علامہ قصیمی بھی بڑی عمدہ بات تحریر فرماتے ہیں، چنانچہ آپ رقمطراز ہیں:
«وفي الحديث الذى رواه البخاري و مسلم عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه عن رسول الله عليه السلام انه قال: لا يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقاً ولا يزال يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا. فهل معناه ان يكون معصوماً من الكذب؟ او من صدق وامثال ذالك فى اللساني العرب فمثلا ”الطيع“ هو کثير اطاعة مبالغة في ”طائع“ وليس معناه ”الذي لا يعصي أبدا“ وكذا ”الكذاب“ وهو كثير الكذب وليس هو الذى لا يصدق» [مشكلات الاحاديث النبوية للقصيمي: ص 143]
”صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ ”آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے، یہاں تک کہ اس کا نام اللہ کے ہاں ”صدیق“ لکھ لیا جاتا ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے، حتیٰ کہ اس کا نام اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا اس حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ سچ بولنے والا کذب سے معصوم ہو گا؟ اس کی مثالیں ”لسان العرب“ میں موجود ہیں، مثلًا ”الطیع“ یہ اطاعت گزر کے مبالغے کا صیغہ ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ اطاعت گزار کبھی بھی نافرمانی نہ کرے اور اسی طرح سے کذاب کا مطلب ہے کہ وہ کبھی سہچ ہی نہ بولے:۔“
لہٰذا ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے کذبات سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ صفت قرآن مجید کی بیان کردہ صرف «صديقاً نبيياً» کے خلاف ہے، بلکہ کذب سے مراد تعریض ہی ہے، جسے ہم نے تفصیلاً ذکر کیا ہے، جو کہ قرآن مجید سے کسی بھی طرح متصادم نہیں ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 80
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6950
´جب عورت سے زبردستی زنا کیا گیا ہو تو اس پر حد نہیں ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ بِسَارَةَ، دَخَلَ بِهَا قَرْيَةً فِيهَا مَلِكٌ مِنَ الْمُلُوكِ، أَوْ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ أَنْ أَرْسِلْ إِلَيَّ بِهَا، فَأَرْسَلَ بِهَا، فَقَامَ إِلَيْهَا، فَقَامَتْ تَوَضَّأُ وَتُصَلِّي، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ، فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ الْكَافِرَ، فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ یا ظالموں میں سے ایک ظالم رہتا تھا اس ظالم نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سارہ علیہا السلام کو اس کے پاس بھیجیں آپ نے سارہ کو بھیج دیا وہ ظالم ان کے پاس آیا تو وہ (سارہ علیہا السلام) وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو تو مجھ پر کافر کو نہ مسلط کر پھر ایسا ہوا کہ وہ کم بخت بادشاہ اچانک خراٹے لینے اور گر کر پاؤں ہلانے لگا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ: 6950]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6950 کا باب: «بَابُ إِذَا اسْتُكْرِهَتِ الْمَرْأَةُ عَلَى الزِّنَا، فَلاَ حَدَّ عَلَيْهَا:»
باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اس مسئلے پر قائم فرمایا کہ اگر عورت کے ساتھ زبردستی زنا کرایا گیا تو اس عورت پر کوئی حد نہ ہو گی، کیونکہ وہ عورت مجبور کی گئی ہے، جبکہ حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔
ابن بطال رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وجه إدخال هذا الحديث فى هذا الباب مع أن سارة عليها السلام كانت معصومة من كل سوء أنها لا ملامة عليها فى الخلوة مكرهة فكذا غيرها لوزني بها مكرهة لا حد عليها.» [فتح الباري لابن حجر: 26/13]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث کو اس باب میں لانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سارۃ علیہا السلام ہر برائی سے معصوم تھیں، ان کے خلوت میں زبردستی کی تو اس خلوت کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں تو بعین اسی طرح سے اگر کسی اور عورت کے ساتھ زبردستی کی جائے اور زنا کیا جائے تو اس عورت پر کوئی حد نافذ نہ ہو گی۔“
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«إدخال حديث سارة فى الترجمة غير حسن ولا مطابق إلا من جهة سقوط الملامة عنها فى خلوته بها لأنها مكرهة.» [المتواري: ص 338]
”یعنی حدیث سارۃ سے باب کی مطابق نہیں ہے، مگر حضرت سارۃ علیہا السلام ان کے خلوت میں کر دیئے جانے کی وجہ سے سقوط ملامت ٹھہریں کیوں کہ وہ اس پر مجبور کی گئی تھیں۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة لترجمة ظاهرة من حيث إنه كما لا ملامة فى الخلوة معه إكراهًا، فكذالك المستكرهة فى الزنا لا حد عليها.» [عمدة القاري للعيني: 152/23]
”حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کیونکہ حضرت سارۃ علیہا السلام سے خلوت کے لیے زبردستی کی گئی، جس کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں ٹھہری، پس اسی طرح سے اگر کسی پر زنا کرنے پر زبردستی کی جائے تو اس پر کوئی حد نہ ہو گی۔“
ابن الملقن رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”یعنی حدیث ابراہیم علیہ السلام اور سارۃ علیہا السلام میں (باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ) حضرت سارۃ علیہا السلام کافر کے ساتھ خلوت میں تھیں، (جو کہ زبردستی کا معاملہ تھا) اسی طرح سے ان پر زبردستی کی وجہ سے کوئی ملامت نہ تھی، پس اسی طرح سے «مستكرهة» (جس سے زبردستی کی جائے) پر اس کی خلوت کی وجہ سے ملامت نہ ہو گی۔“ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 26/32]
ان تمام اقتباسات اور شارحین کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سارۃ علیہا السلام نے ظالم بادشاہ سے خلوت کی، اس خلوت کی وجہ سے وہ ملامت کے لائق نہ ٹھہریں کیونکہ وہ مجبور تھیں، تو جب جبر و اکراہ کی وجہ سے خلوت قابل ملامت نہ ٹھہری (جو زنا کی ابتدا کا سبب بنتی ہے) تو اسی طرح زنا بالجبر میں بھی قابل ملامت نہ ٹھہرے گی تو پھر حد بھی جاری نہ ہو گی، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 263
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5084
5084. سیدنا ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سیدنا ابراہیم ؑ نے بظاہر تین خلاف باتیں کی ہیں: ایک یہ کہ آپ کا گزر ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے ہوا جبکہ آپ کے ہمراہ آپ کی بیوی سیدہ سارہ تھیں۔ اسکے بعد مکمل حدیث بیان کی، (اس میں ہے کہ) اس (بادشاہ) نے بی بی ہاجرہ دے کر ان کو رخصت کیا۔ سیدہ سارہ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کافر کا ہاتھ مجھ سے روکے رکھا اور مجھے خدمت کے لیے ہاجرہ بھی عنایت کر دی۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: اے آسمان کے پانی سے گزر اوقات کرنے والو! یہی ہاجرہ تمہاری والدہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5084]
حدیث حاشیہ:
حضرت ہاجرہ اس بادشاہ کی لڑکی تھی اس نے حضرت سارہ علیہا السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کرامات کو دیکھا اور ایک معزز روحانی گھرانہ دیکھ کر اپنی اور بیٹی کی سعادت مندی تصور کرتے ہوئے اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو اس گھرانہ کی عزت کے پیش نظر حضرت ابرہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کر دیا۔
حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو لونڈی کہا گیا ہے یہ شاہی خاندان کی بیٹی تھیں جس کی قسمت میں ام اسمٰعیل بننے کی سعادت ازل سے مرقوم تھی۔
جن تین باتوں کو جھوٹ کہا گیا ہے وہ حقیقت میں جھوٹ نہ تھیں اور یہی حضرت سارہ علیہا السلام کو بہن کہنایہ دین توحید کی بنا پر آپ نے کہا تھا کیونکہ دین کی بنا پر ہر مرد اور عورت بھائی بھائی ہیں۔
دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جبکہ کفار آپ کو بھی اپنے ساتھ اپنے تہوار میں شامل کرنا چاہتے تھے۔
آپ نے فرمایا تھا کہ میں بیمار ہوں۔
یہ بھی جھوٹ نہ تھا اس لئے کہ ان کافروں کی حرکات بد دیکھ دیکھ کر آپ بہت دکھی تھے اس لئے آپ نے اپنے کو بیمار کہا۔
تیسرا موقع آپ کی بت شکنی کے وقت تھا جبکہ آپ نے بطور استفہام اس فعل کوبڑے بت کی طرف منسوب کیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5084
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2217
2217. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی اور انھیں لے کر ایک شہر پہنچے جہاں ایک سخت گیر ظالم حکمران تھا۔ اسے اطلاع دی گئی کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک خوبروعورت کو لے کر آئے ہیں۔ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ تمہارے ساتھ یہ عورت کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ میری بہن ہے، پھر حضرت سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم نے میری بات کو جھٹلانا نہیں کیونکہ میں نے ان لوگوں کو بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے۔ اللہ کی قسم!اس سرزمین پر میرے اورتیرے علاوہ کوئی دوسرا مومن نہیں ہے۔ پھر انھوں نے حضرت سارہ کو اس ظالم کے پاس بھیج دیا۔ وہ بادشاہ حضرت سارہ کی طرف بڑھنے کے لیے اٹھا تو انہوں نے کھڑے ہوکر وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگیں، پھر دعا کی: اے اللہ!اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2217]
حدیث حاشیہ:
زمین کنعان سے مصر کا یہ سفر اس لیے ہوا کہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں آگیاتھا۔
حضرت ابراہیم ؑ مجبور ہو کر اپنی بیوی حضرت سارہ ؓ اور بھتیجے لوط ؑ اور بھیڑ بکریوں سمیت مصر میں پہنچ گئے۔
ان دنوں مصر میں فرعون رقیون نامی حکمرانی کر رہا تھا۔
ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ ؓ بے حد حسین تھیں۔
اور وہ بادشاہ ایسی حسین عورتوں کی جستجومیں رہا کرتا تھا۔
اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ ؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو ابراہیم ؑ کی بہن ظاہر کریں۔
جب فرعون مصر نے حضرت سارہ ؓ کے حسن کا چرچا سنا تب اس نے ان کو بلوابھیجا اور فعل بد کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ ؓ کی بد دعا سے وہ برائی پر قادر نہ ہوسکا۔
بلکہ زمین میں غرق ہونے لگا۔
آخر اس کے دل پر ان کی عظمت نقش ہو گئی اور حضرت ابراہیم ؑ سے معافی مانگی اور حضرت سارہ ؓ کو واپس کر دیا اور اپنے خلوص اور عقیدت کے اظہار میں اپنی بیٹی ہاجرہ ؓ کو ان کی نذر کر دیا تاکہ وہ سارہ ؓ جیسا خدا رسیدہ خاتون کی خدمت میں رہ کر تعلیم اور تربیت حاصل کرے اور کسی وقت اس کو حضرت ابراہیم ؑ جیسے نبی کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہو۔
یہودیوں کی کتاب برشیث لیامیں ذکر ہے کہ ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔
ایسا ہی طبری، خمیس اور قسطلانی نے ذکر کیا ہے مگر یہ نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض بد باطن یہود کی حاسدانہ تحریرات میں ان کو لونڈی کہا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر اس حدیث میں وارد لفظ ''ولیدۃ'' کا ترجمہ لونڈی کر دیا ہے حالانکہ قرآن و حدیث کی اصطلاح عام میں غلام اور لونڈی کے لیے ملک یمین کا لفظ ہے جیسا کہ آیت قرآن وما ملکت أیمانکم سے ظاہر ہے۔
لغت عرب میں جاریہ اور ولیدہ کے الفاظ عام لڑکی کے معنوں میں آتے ہیں۔
عربی کی بائیبل میں سب جگہ حضرت ہاجرہ کے واسطے جاریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے انگریزی بائیبل میں سب مقامات میں میڈ کا لفظ ہے جس کے معنی وہی ہیں جو ''جاریہ'' اور ''ولیدۃ'' کے ہیں یعنی لڑکی۔
ابی سلومر اسحاق جو ایک یہودی عالم ہیں وہ پیدائش1-16 میں لکھتے ہیں کہ جب فرعون مصری نے نبی کی کرامتوں کو جو سارہ کی وجہ سے ظاہر ہوئیں، دیکھا تو اس نے کہا کہ بہتر ہے میری بیٹی اس کے گھر میں خادمہ ہو کر رہے وہ اس سے بہتر ہوگی کہ کسی دوسرے گھر میں وہ ملکہ بن کر رہے۔
چنانچہ حضرت ہاجرہ نے ابراہیمی گھرانہ میں پوری تربیت حاصل کی اور پچاسی سال کی عمر میں جب کہ آپ اولاد سے مایوس ہو رہے تھے حضرت سارہ نے ان سے خود کہا کہ ہاجرہ سے شای کر لو شاید اللہ پاک ان ہی کے ذریعہ تم کو اولاد عطا کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شادی کے بعد حضرت ہاجرہ حاملہ ہو گئیں اور ان کو خواب میں فرشتہ نے بشارت دی کہ تو ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا دکھ سن لیا۔
وہ عربی ہوگا ا س کا ہاتھ سب کے خلاف ہوگا اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔
(تورات پیدائش 12-11-16)
خداوند نے یہ بھی فرمایا کہ دیکھ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے اسماعیل کے حق میں میں نے تیری دعا سن لی دیکھو میں اس کو برکت دوں گا اور اسے آبرو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔
(تورات پیدائش 20-15-17)
حضرت ابراہیم ؑ کی چھیاسی سال کی عمر تھی کہ ان کے بیٹے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔
حضرت اسماعیل کے حق میں یہ بشارت توراۃ سفر تکوین باب 17درس 20 میں موجود ہے۔
یہودیوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے لونڈی ہونے پر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے دلیل لی ہے جو توراۃ میں مذکور ہے کہ جب حضرت سارہ ؓ حضرت ہاجرہ ؓ سے ناراض ہو گئیں تو انہوں نے اس ڈر سے کہ کہیں حضرت ہاجرہ کا فرزند اسماعیل ؑ ان کے فرزند اسحاق ؑ کے ساتھ ابراہیمی ترکہ کا وارث بن جائے یہ کہا کہ اس لونڈی کو اور اس کے بچے کو یہاں سے نکال دے۔
یہ لفظ حضرت سارہ ؓ نے خفگی کے طور پر استعمال کیا تھا ورنہ ان کو معلوم تھا کہ شریعت ابراہیمی میں لونڈی غلام مالک کے ترکہ میں وارث نہیں ہوا کرتے ہیں۔
اگر حضرت ہاجرہ ؓ واقعی لونڈی ہوتی تو حضرت سارہ ؓ ایسا غلط بیانی کیوں کرتی جب کہ وہ ابراہیمی شریعت کے احکامات سے پورے طور پر واقف تھیں۔
پس خود توراۃ کے اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہ تھی بلکہ آزاد تھی۔
اسی لیے حضرت سارہ کو ان کے لڑکے کے وارث ہونے کا خطرہ ہوا اور ان کو دور کرنے کا مطالبہ کیا۔
خلاصہ یہی ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھی جسے بطور خادمہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے حرم نبوت میں بیوی بنانے کے لیے حضرت سارہ ؓ کے حوالہ کیا گیا تھا۔
حضرت امام بخاری ؒ کے منعقدہ باب میں جس کے تحت یہ حدیث آئی ہے کئی باتیں ملحوظ کی گئی ہیں جس کی تشریح علامہ قسطلانی یوں فرماتے ہیں:
آجر بهمزة ممدودة بدل الهاء و جیم مفتوحة فراء و کان أبو آجر من ملوك القبط یعنی آجر ہمزہ ممدوہ کے ساتھ ہا کے بدلہ میں ہے اور جیم مفتوحہ کے بعد را ہے۔
اور آجر کا باپ فرعون مصر قبطی بادشاہوں میں سے تھا۔
یہاں علامہ قسطلانی نے صاف لفظوں میں بتلایا ہے کہ حضرت ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔
ولیدہ کی تحقیق میں آپ فرماتے ہیں:
و الولیدة الجاریة للخدمة سواء کانت کبیرة أو صغیرة و في الأصل الولید لطفل و الأنثی ولیدة و الجمع و لائد و المراد بها آجر المذکورہ۔
یعنی لفظ ولیدہ لڑکی پر بولا جاتا ہے جو بطور خادمہ ہو عمر میں وہ صغیر ہو یا کبیر اور دراصل ولید لڑکے کو اور ولیدہ لڑکی کو کہتے ہیں۔
اس کی جمع ولائد آتی ہے اور یہاں اس لڑکی سے مراد آجر مذکور ہیں جو ہاجرہ ؑ سے مشہور ہیں۔
آگے علامہ فرماتے ہیں:
و موضع الترجمة أعطوها آجر و قبول سارة منه و أمضاء إبراهیم ذلك ففیه صحة هبة الکافر و قبول هدیة السلطان الظالم و ابتلاء الصالحین لرفع درجاتهم و فیه إباحة المعاربض و إنها مندوحة عن الکذب و هذا الحدیث أخرجه أیضا في الهبة و الإکراہ و أحادیث الأنبیاء۔
(قسطلانی)
یعنی یہاں ترجمۃ الباب الفاظ اعطوھاآجر سے نکلتا ہے کہ ا س کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ علیہا السلام کو بطور عطیہ پیش کرنے کا حکم دیا اور سارہ علیہا السلام نے اسے قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس معاملہ کو منظور فرمایا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ کافر کسی چیز کو بطور ہبہ کسی کو دے تو اس کا یہ ہبہ کرنا صحیح مانا جائے گا اور ظالم بادشاہ کا ہدیہ قبول کرنا بھی ثابت ہوا۔
اور نیک لوگوں کا ظالم بادشاہوں کی طرف سے ابتلا میں ڈالا جانا بھی ثابت ہوا۔
اس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسے آزمائشی مواقع پر بعض غیر مباح کنایات و تعریضات کا استعمال مباح ہوجاتا ہے اور ان کو جھوٹ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
سید المحدثین حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی جامع الصحیح میں اور بھی کئی مقامات پر نقل فرمایا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔
خلاصۃ المرام یہ کہ حدیث ہذا میں وارد لفظ ولیدہ لونڈی کے معنی میں نہیں، بلکہ لڑکی کے معنی میں ہے۔
حضرت ہاجرہ ؑ شاہ مصر کی بیٹی تھیں جسے اس نے حضرت سارہ ؓ کو برکت کے لیے دے دیا تھا، لہٰذا یہود کا حضرت اسماعیلؑ کو لونڈی کا بچہ کہنا محض جھوٹ اور الزام ہے۔
یہاں سر سید نے خطبات احمدیہ میں کلکتہ کے ایک مناظرہ کا ذکر کیا ہے جو اسی موضوع پر ہوا جس میں علماءیہود نے بالاتفاق تسلیم کیا تھا کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہ تھیں بلکہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے یہاں لفظ ولیدہ کا ترجمہ لونڈی کیا ہے جو لڑکی ہی کے معنوں میں ہے، ہندوستان کے بعض مقامات پر لڑکی کو لونڈیاں اور لڑکے کو لونڈا بولتے ہیں۔
ترجمۃ الباب میں چوں کہ لفظ ہبہ آیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ ہبہ لغوی طور پر مطلق بخشش کو کہتے ہیں۔
اللہ پاک کا ایک صفاتی نام وہاب بھی ہے۔
یعنی بے حساب بخشش کرنے والا۔
شرع محمدی میں ہبہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کو برضا و رغبت اور بلا معاوضہ منتقل کردینا، منتقل کرنے والے کو واہب اور جس کے نام منتقل کیا جائے اسے موہوب لہ کہتے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس انتقال کو خود موہوب لہ یا اس کی طرف سے کوئی اس کا ذمہ دار آدمی واہب کی زندگی ہی میں قبول کرلے۔
نیز ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا عاقل بالغ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ شئے موہوب اس شخص کے قبضہ میں دی جائے جس کے نام پر ہبہ کیا جارہا ہے۔
ہبہ کے بارے میں بہت سی شرعی تفصیلات ہیں جو کتب فقہ میں تفصیل سے موجود ہیں۔
اردو زبان میں آنریبل مولوی سید امیر علی صاحب ایم، اے بیرسٹرایٹ لاءنے جامع الأحکام في فقه الإسلام کے نام سے ایک مفصل کتاب مسلمانوں کے قوانین مذہبی پر لکھی ہے اس میں ہبہ کے متعلق پوری تفصیلات حوالہ قلم کی گئی ہیں اور عدالت ہندیہ میں جو پرسنل لاءآف دی محمڈنس مسلمانوں کے لیے منظور شدہ ہے ہر ہر جزئی میں پوری وضاحت سے احکام ہبہ کو بتلایا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2217
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6950
6950. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں ظالم بادشاہوں میں سے ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس ظالم نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس سارہ کو بھیج دو۔ جب وہ ان کے پاس گیا تو وہ وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے دعا کی: ”اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔“ پھر ایسا ہوا کہ اس ظالم کا دم گھٹنے لگا اور گر کر زمین پر پاؤں مارنے (ایڑیاں رگڑنے) لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6950]
حدیث حاشیہ:
جیسے کسی کا گلا گھونٹو تو وہ زور زور سے سانس کی آواز نکالنے لگتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اس ظالم بادشاہ پر نازل ہوا۔
مناسبت باب سے یہ ہے کہ ایسے اکراہ کے وقت جب خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایسی حالت میں ایسی خلوت قابل ملامت نہ ہوگی نہ حد وابجب ہوگی یہی ترجمہ باب ہے۔
بعد میں اس بادشاہ کا دل اتنا موم ہوا کہ اپنی بیٹی ہاجرہ نامی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کر دیا۔
یہی ہاجرہ ہیں جن کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔
حضرت ابراہیم کے خاندان کا کیا کہنا ہے، حج اور مکہ مکرمہ اور کعبہ مقدس یہ سب آپ ہی کے خاندان کی یادگاریں ہیں۔
صلی اللہ علیهم أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6950
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2217
2217. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی اور انھیں لے کر ایک شہر پہنچے جہاں ایک سخت گیر ظالم حکمران تھا۔ اسے اطلاع دی گئی کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک خوبروعورت کو لے کر آئے ہیں۔ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ تمہارے ساتھ یہ عورت کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ میری بہن ہے، پھر حضرت سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم نے میری بات کو جھٹلانا نہیں کیونکہ میں نے ان لوگوں کو بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے۔ اللہ کی قسم!اس سرزمین پر میرے اورتیرے علاوہ کوئی دوسرا مومن نہیں ہے۔ پھر انھوں نے حضرت سارہ کو اس ظالم کے پاس بھیج دیا۔ وہ بادشاہ حضرت سارہ کی طرف بڑھنے کے لیے اٹھا تو انہوں نے کھڑے ہوکر وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگیں، پھر دعا کی: اے اللہ!اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2217]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابراہیم ؑ نے سر زمین کنعان سے مصر جانے کے لیے رخت سفر باندھا تھا کیونکہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں تھا۔
حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں ایک ظالم حکمران تھا اور وہ انتہائی عاشق مزاج تھا،اس لیے وہ حسین وجمیل عورتوں کی تلاش میں رہتا تھا۔
جب اس نے حضرت سارہ ؓ کے حسن کا چرچا سنا تو انھیں بلایا اور ان سے بدکاری کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ کی بدعا سے برائی پر قادر نہ ہوسکا۔
بالآخر اس کے دل میں، اس خاندان کی عظمت نقش ہوگئی اور حضرت سارہ کو واپس کردیا، نیز اپنے خلوص وعقیدت کے پیش نظر اپنی بیٹی ہاجرہ کو ان کی نذر کردیا تاکہ وہ حضرت سارہ کی خدمت میں رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کرے۔
(2)
کتب یہود میں اس امر کی وضاحت ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھی۔
(3)
امام بخاری ؒ کا استدلال یہ ہے کہ اس کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ بطور عطیہ پیش کی۔
حضرت سارہ نے اسے قبول فرمایا اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
اس سے ثابت ہواکہ کافر کے ہدیے کا اعتبار کیا جائے گا۔
امین احسن اصلاحی نے حسب عادت لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ قصہ یہودیوں کا گھڑا ہوا ہے جسے امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ٹھونس دیا ہے۔
(تدبرحدیث: 503/1)
ہم قارئین کرام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ فراہی فکر کے حاملین کی کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی زبان کا یہ ادنیٰ سانمونہ ہے۔
واضح رہے کہ مصلحین کے حلقۂ ارادت میں اصلاحی صاحب کو "الإمام" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ علمیت کا یہ حال ہے۔
لکھتے ہیں:
یہ روایت صحیح بخاری کے علاوہ، جہاں تک مجھے یاد ہے، اور کہیں نہیں ہے۔
(تدبرحدیث: 503/1)
حالانکہ یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے:
٭ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6145 (2371)
.٭ سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2212.٭ جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3166.٭مسند أحمد: 403/2. اس مقام پر اصلاحی صاحب نے ایک اعتراض بایں الفاظ اٹھایا ہے:
اس قصے میں حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ایسا جھوٹ بولنے کا مرتکب گردانا گیا ہے جس کا زمین وآسمان میں کوئی فائدہ نہیں، حالانکہ محدثین کرام نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اگر اس کافر کو پتہ چل جاتا کہ یہ ان کی بیوی ہے تو وہ اس کے حصول کے لیے طلاق کی ناپاک کوشش کرتا یا آپ کو قتل کرنے کی گندی جسارت کرتا، اس لیے آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہا،چنانچہ علامہ قسطلانی نے لکھا ہے:
اس جابر ظالم کی یہ عادت تھی کہ وہ خاوند والی عورت پر ہاتھ ڈالتا اور خاوند کو قتل کرکے اس کی بیوی پر قبضہ جمالیتا تھا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے یہ ذو معنی لفظ استعمال فرمایا اور اس طرح اس ظالم کی ناپاک اور مذموم جسارت سے محفوظ رہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2217
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5084
5084. سیدنا ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سیدنا ابراہیم ؑ نے بظاہر تین خلاف باتیں کی ہیں: ایک یہ کہ آپ کا گزر ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے ہوا جبکہ آپ کے ہمراہ آپ کی بیوی سیدہ سارہ تھیں۔ اسکے بعد مکمل حدیث بیان کی، (اس میں ہے کہ) اس (بادشاہ) نے بی بی ہاجرہ دے کر ان کو رخصت کیا۔ سیدہ سارہ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کافر کا ہاتھ مجھ سے روکے رکھا اور مجھے خدمت کے لیے ہاجرہ بھی عنایت کر دی۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: اے آسمان کے پانی سے گزر اوقات کرنے والو! یہی ہاجرہ تمہاری والدہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5084]
حدیث حاشیہ:
(1)
آسمان کے پانی سے مراد آب زمزم ہے۔
اہل عرب کو طہارت نسب کی وجہ سے بني ماء السماء کہا جاتا ہے۔
(2)
حضرت ہاجرہ اس ظالم بادشاہ کی بیٹی تھیں، اس نے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ علیہا السلام کی کرامات کو دیکھا تو اپنی اور بیٹی کی سعادت مندی خیال کی کہ اپنی بیٹی حضرت سارہ کی خدمت گزاری کے لیے انھیں ہبہ کر دی، پھر حضرت سارہ نے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہبہ کر دی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے کہا کہ ہاجرہ مجھے ہبہ کر دو تو انھوں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی۔
جب ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کو غیرت دامن گیر ہوئی، آخر کار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وہاں سے لا کر وادئ غیر ذی زرع میں آباد کر دیا۔
(مسند أبي يعلي الموصلي: 428/10، رقم: 6039، و فتح الباري: 161/9)
بہر حال حضرت ہاجرہ ایک شاہی خاندان کی بیٹی تھیں جن کی قسمت میں ام اسماعیل بننے کی سعادت ازل سے لکھی ہوئی تھی۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5084
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6950
6950. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں ظالم بادشاہوں میں سے ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس ظالم نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس سارہ کو بھیج دو۔ جب وہ ان کے پاس گیا تو وہ وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے دعا کی: ”اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔“ پھر ایسا ہوا کہ اس ظالم کا دم گھٹنے لگا اور گر کر زمین پر پاؤں مارنے (ایڑیاں رگڑنے) لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6950]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس ظالم کے پاس بھیجے۔
جب ایسے اکراہ کے وقت خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایسی خلوت قابل ملامت نہ ہوگی۔
ایسے حالات میں اگر زبردستی زنا کر لیا جائے تو حد جاری نہ ہوگی۔
2۔
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ مرد کو اگرزنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر حد ہے کیونکہ اختیاری حالت کے بغیر آلہ تناسل منتشر نہیں ہوتا لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ آج کل تو ایسے ٹیکے وغیرہ ایجاد ہو چکے ہیں کہ لذت اور اختیاری حالت کے بغیر آلہ تناسل میں تناؤ پیدا کیا جا سکتا ہے جس سے عورت اپنی شہوت پوری کر سکتی ہے۔
اس حالت میں مرد بے چارہ مجبور محض ہوتا ہے لہذا اس پر حد جاری نہیں ہونی چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6950