سنن نسائي
كتاب الإيمان وشرائعه
کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
28. بَابُ : الدِّينُ يُسْرٌ
باب: دین (اسلام) آسان ہے۔
حدیث نمبر: 5037
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ مَعْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ , وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَيَسِّرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدَّلْجَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دین آسان ہے اور جو دین میں (عملی طور پر) سختی برتے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اسے تھکا دے گا) لہٰذا صحیح راستے پر چلو (اگر مکمل طور سے عمل نہ کر سکو تو کم از کم) دین سے قریب رہو، لوگوں کو دین کے معاملے میں خوش رکھو (نفرت نہ پیدا کرو) انہیں آسانی دو اور صبح و شام اور کچھ رات گئے کی مدد سے اللہ کی عبادت کرو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 29 (39)، الرقاق 18 (6463)، (تحفة الأشراف: 13069)، مسند احمد (2/514) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان اوقات سے مدد طلب کرنے کا مطلب ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5037 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5037
اردو حاشہ:
(1) ”دین آسان ہے“ یعنی جواحکام اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمائے ہیں، وہ انسانی طاقت سےباہر نہیں۔ ان پ ریہ آسانی عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ٰ وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ یہ مطلب نہیں کہ جو کام مشکل نظر آئے وہ دین نہیں ہو سکتا کیونکہ بد نیت آدمی کے لیے تو دین کا ہر کام ہی مشکل ہے۔
(2) ”سخت بنائے گا“ یعنی دین میں طرف اپنی طرف سے سخت احکام و داخل کرے گا یا غلو کرے گا تو ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اپنی پیدا کردہ سختی پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ اور اس کا غلو اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔
(3) ”میانہ روی“ نوافل کے بارے میں ورنہ فرائض کی ادائیگی تو ہمیشہ ضرور ی ہے۔ نوافل اتنے ہی اختیار کرنے چاہییں جن پر آسانی اور ہمیشہ عمل ہو سکے۔
(4) ”خوش رہو“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ثواب ورحمت پر یقین رکھواور پر امید رہو۔
(5) ”کچھ سفر“ عمل کو سفر سے تشبیہ دی گئی ہے۔سفر مناسب طریق سے کیا جائے تو مسافر اور سواری دونوں سہولت میں رہتے ہیں اور سفر بھی اچھا کٹتا ہے لیکن اگر سفر کو مسلسل جاری رکھا جائے اور سواری کو تھکا دیا جائے تو سفر منقطع ہوجاتا ہے۔ مسافر بھی بیمار پڑجاتا ہے۔ اسی طرح عمل بھی اختیار کیا جائے جس پر سہولت سےعمل ہوسکے، دیگر فرائض بھی ادا ہوسکیں اور جسم بھی کمزور نہ پڑے۔ عرب معاشرے میں یہ تین اوقات سفر کےلیے بہترین تھے۔ باقی اوقات آرام اور کھانے پینے کے لیے ہوتےتھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5037