صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
35. بَابُ فَضْلِ الْمَنِيحَةِ:
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2629
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" نِعْمَ الْمَنِيحَةُ اللِّقْحَةُ الصَّفِيُّ مِنْحَةً، وَالشَّاةُ الصَّفِيُّ تَغْدُو بِإِنَاءٍ وَتَرُوحُ بِإِنَاءٍ". حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، وَإِسْمَاعِيلُ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: نِعْمَ الصَّدَقَةُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا ہی عمدہ ہے ہدیہ اس دودھ دینے والی اونٹنی کا جس نے ابھی حال ہی میں بچہ جنا ہو اور دودھ دینے والی بکری کا جو صبح و شام اپنے دودھ سے برتن بھر دیتی ہے۔ ہم سے عبداللہ بن یوسف اور اسماعیل نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا کہ (دودھ دینے والی اونٹنی کا) صدقہ کیا ہی عمدہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2629 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2629
حدیث حاشیہ:
منیحہ عربوں کی اصطلاح میں دودھ دینے والی اونٹنی یا کسی بھی ایسے جانوروں کو کہتے تھے جو کسی دوسرے کو کوئی تحفہ کے طور پر دودھ پینے کے واسطے دے دے۔
منیحہ اور صدقہ میں فرق ہے۔
منیحہ حسن معاملت اور صلہ رحمی کے باب سے تعلق رکھتا ہے اور صدقہ کا مفہوم بہت عام ہے۔
ہر میٹھی بات کو بھی صدقہ کہاگیا ہے اور ہر مناسب اور اچھے طرز عمل کو بھی۔
اس لحاظ سے منیحہ اور صدقہ میں عموم خصوص مطلق کا فرق ہے۔
ہر منیحہ صدقہ بھی ہے مگر ہر صدقہ منیحہ نہیں ہے۔
فافھم۔
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں:
قَالَ فِي الْقَامُوسِ مَنَحَهُ كَمَنَعَهُ وَضَرَبَهُ أَعْطَاهُ وَالِاسْمُ الْمِنْحَةُ بِالْكَسْرِ وَمَنَحَهُ النَّاقَةَ جَعَلَ له وَبَرَهَا وَلَبَنَهَا وَوَلَدَهَا وَهِيَ الْمِنْحَةُ وَالْمَنِيحَةُ انْتَهَى وَقَالَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ الْمَنِيحَةُ بِالنُّونِ وَالْمُهْمَلَةِ وَزْنُ عَظِيمَةٍ هِيَ فِي الْأَصْلِ الْعَطِيَّةُ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ الْمَنِيحَةُ عِنْدَ الْعَرَبِ عَلَى وَجْهَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنْ يُعْطِيَ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ صِلَةً فَتَكُونَ لَهُ وَالْآخَرُ أَنْ يُعْطِيَهُ نَاقَةً أَوْ شَاةً يَنْتَفِعُ بِحَلْبِهَا وَوَبَرِهَا زَمَنًا ثُمَّ يَرُدَّهَا وَقَالَ الْقَزَّازُ قِيلَ لَا تَكُونُ الْمَنِيحَةُ إِلَّا نَاقَةً أَوْ شَاةً وَالْأَوَّلُ أَعْرَفُ انْتَهَى (تحفة الأحوذي، ج: 3، ص: 133)
خلاصہ یہ کہ لفظ منحہ اور منیحہ اصل میں عطیہ بخشش پر بولا جاتا ہے۔
ابوعبیدہ نے کہا کہ منیحہ عرب کے نزدیک دو طریق پر ہے۔
اول تو یہ کہ کوئی اپنے ساتھی کو بطور صلہ رحمی بخش دے، وہ اسکا ہوجائے گا۔
دوسرے یہ کہ کوئی کسی کو اونٹنی یا بکری اس شرط پر دے کہ وہ اس کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے اور ایک عرصہ بعد اسے واپس کردے۔
قزاز نے کہا کہ لفظ منیحہ صرف اونٹنی یا بکری کے عطیہ پر بولا جاتا ہے۔
مگر اول معنی ہی زیادہ مشہور و معروف ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2629
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2629
حدیث حاشیہ:
(1)
منيحة، اس دودھ والے جانور کو کہتے ہیں جو صرف دودھ کے لیے دوسرے کو ادھار دیا جاتا ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں اقتصادی مسئلے کا ایک حل یہ بھی تھا کہ دودھ دینے والا جانور کسی ضرورت مند کو ادھار دے دیا جاتا۔
وہ جانور بدستور اصل مالک کی ملکیت ہوتا۔
(2)
مسنون طریقہ یہ ہے کہ ادھار لیے ہوئے جانور سے جب نفع حاصل کر لیا جائے تو اسے اصل مالک کو واپس کر دیا جائے۔
بہرحال یہ بھی عطیہ کی ایک صورت ہے کہ اصل کے بجائے کسی چیز کا نفع دوسرے کو ہبہ کر دیا جائے، چنانچہ دوسری روایت کے مطابق اس طرح کے عطیے کو صدقہ کہا گیا ہے جو اس عمل کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2629
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 284
´صدقہ کرنے کی فضیلت`
«. . . 370- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نعم الصدقة اللقحة الصفي منحة، والشاة الصفي منحة، تغدو بإناء وتروح بآخر.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین صدقہ بہت زیادہ دودھ دینے والی منتخب اونٹنی ہے جو بچہ جننے کے قریب ہو اور وہ کسی کو تحفہ دے دی جائے اور اس خاص بکری کا تحفہ ہے جو صبح کو (دودھ سے) ایک برتن بھرتی ہے اور شام کو دوسرا برتن بھرتی ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 284]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2629، من حديث مالك به نحو المعنيٰ]
تفقه:
➊ صدقے میں اچھی اور پسندیدہ چیز دینا بڑے ثواب کا کام ہے جیسا کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا پسندیدہ باغ اللہ کے راستے میں دے دیا تھا۔ دیکھئے: الموطأ حدیث: 116
➋ ایک دوسرے کو حسبِ استطاعت تحفے تحائف دینا اچھا کام ہے اور اس سے محبت بڑھتی ہے۔
➌ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینے پر صدقے کا لفظ مجازی طور پر استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس عمل سے بھی ثواب ملتا ہے اور اسے قبول کرنا ہر شخص کے لئے جائز ہے۔
➍ اونٹنی اور بکری کا دودھ مفید غذا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 370
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1092
1092- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”سب سے افضل صدقہ دودھ دینے والا جانور کسی کو دینا ہے، جو ایک برتن صبح دودھ دیتا ہے اور ایک برتن شام کو دیتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1092]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دودھ دینے والے جانوروں کو صدقہ کرنا سب سے افضل صدقہ ہے، تا کہ لوگ اس کے دودھ سے فائدہ اٹھائیں، صدقہ کرتے وقت ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ زیادہ نفع مند چیز صدقہ کی جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1091