صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
3. بَابُ الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ:
باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 253
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَيْمُونَةَ كَانَا يَغْتَسِلَانِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: كَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَخِيرًا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى أَبُو نُعَيْمٍ.
ہم سے ابونعیم نے روایت کی، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو کے واسطہ سے بیان کیا، وہ جابر بن زید سے، وہ عبداللہ بن عباس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور میمونہ رضی اللہ عنہا ایک برتن میں غسل کر لیتے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ اخیر عمر میں اس حدیث کو یوں روایت کرتے تھے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے اور صحیح وہی روایت ہے جو ابونعیم نے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 253 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:253
حدیث حاشیہ:
1۔
بعض شارحین نے لکھا ہے کہ حدیث میمونہ ؓ کو عنوان سے کوئی مناسبت نہیں، کیونکہ اس حدیث میں برتن کی مقدار نہیں بتائی گئی جبکہ عنوان میں اس کی مقدار ذکر ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ مناسبت کا لحاظ ایک اور مقدمہ ملانے سے ہو گا، وہ یہ کہ ان لوگوں کے برتن چھوٹے تھے۔
جیسا کہ امام شافعی ؒ نے کئی ایک مقام پر اس کی وضاحت کی ہے۔
لہٰذا یہ حدیث نحوہ کے تحت آجاتی ہے۔
دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ حدیث میمونہ ؓ میں بیان شدہ مطلق لفظ (اِناَء) (برتن)
کو حدیث عائشہ ؓ کے مقید لفظ (فَرَق)
پر محمول کریں گے، کیونکہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی زوجات ہیں اور ہر ایک نے آپ کے ساتھ غسل کیا ہے، لہٰذا ہر ایک کے حصے میں ایک صاع سے زیادہ پانی آیا ہو گا، اس لیے وہ برتن جس کا حدیث میمونہ میں ذکر ہے، تقریبی طور پر تحت الترجمہ ہو جائے گا۔
(فتح الباري: 476/1)
2۔
امام بخاری ؒ نے حدیث ابن عباس ؓ بروایت ابی نعیم کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دی ہے، یعنی اپنی روایت کو مسانید ابن عباس ؓ سے قراردیا ہے اور دوسرے حضرات اسے مسانید میمونہ کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ مسانید میمونہ قرار دینا حضرت ابن عیینہ ؒ کی آخری عمر سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ مسند ابن عباس کا معاملہ ان کی پہلی عمر سے تعلق رکھتا ہے، اس عمر میں حافظہ قوی ہوتا ہے، لیکن دوسرے لوگوں کی روایت کو بھی حافظ ابن حجر نے قابل ترجیح کہا ہے۔
اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
* آخری عمر میں ان سے روایت کرنے والے تعداد میں زیادہ ہیں اور انھیں اپنے شیخ کے ساتھ زیادہ مدت تک رہنے کا موقع ملا ہے۔
* حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما خود تو رسول اللہ ﷺ کے حضرت میمونہ ؓ کے ساتھ غسل کرنے کی کیفیت پر مطلع نہیں ہو سکتے تھے لہٰذا انھوں نے اس کا علم حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بتانے سے ہی حاصل کیا ہو گا۔
(فتح الباري: 476/1)
ایک تیسری وجہ علامہ عینی نے بیان کی ہے کہ مسلم نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ چاروں نے اس حدیث کو عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما میمونہ ہی بیان کیا ہے یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ روایت مسانید میمونہ سے ہے۔
(عمدة القاري: 17/3)
مسند حمیدی میں بھی اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ سے بیان کیا گیا ہے۔
(مسندالحمیدي، رقم: 309)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 253
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 62
´مرد اور عورت دونوں کے ایک ہی برتن سے وضو کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے میمونہ رضی الله عنہا نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 62]
اردو حاشہ:
1؎:
اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولی جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 62