Note: Copy Text and to word file

سنن نسائي
كتاب قطع السارق
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
11. بَابُ : الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ يُسْرَقُ
باب: درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کی چوری کا بیان۔
حدیث نمبر: 4960
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي كَمْ تُقْطَعُ الْيَدُ؟ قَالَ:" لَا تُقْطَعُ الْيَدُ فِي ثَمَرٍ مُعَلَّقٍ، فَإِذَا ضَمَّهُ الْجَرِينُ قُطِعَتْ فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ، وَلَا تُقْطَعُ فِي حَرِيسَةِ الْجَبَلِ، فَإِذَا آوَى الْمُرَاحَ قُطِعَتْ فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ہاتھ کتنے میں کاٹا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: درخت پر لگے پھل میں نہیں کاٹا جائے گا، لیکن جب وہ کھلیان میں پہنچا دیا جائے تو ڈھال کی قیمت میں ہاتھ کاٹا جائے گا، اور نہ پہاڑ پر چرنے والے جانوروں میں کاٹا جائے گا البتہ جب وہ اپنے رہنے کی جگہ میں آ جائیں تو ڈھال کی قیمت میں کاٹا جائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللقطة 1 (1712)، (تحفة الأشراف: 8755) مسند احمد (2/186) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: درخت پر لگے پھلوں اور میدان میں چرتے جانوروں کی چوری پر ہاتھ اس لیے نہیں کاٹا جائے گا کہ یہ سب حرز (محفوظ مقام) میں نہیں ہوتے، کھلیان اور باڑہ حرز (محفوظ مقام) ہوتے ہیں، یہاں سے چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

وضاحت: ۱؎: درخت پر لگے پھلوں اور میدان میں چرتے جانوروں کی چوری پر ہاتھ اس لیے نہیں کاٹا جائے گا کہ یہ سب حرز (محفوظ مقام) میں نہیں ہوتے، کھلیان اور باڑہ حرز (محفوظ مقام) ہوتے ہیں، یہاں سے چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4960 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4960  
اردو حاشہ:
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ غیر محفوظ چیز چرانے پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی، البتہ کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے جو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے۔ درخت پر لگا ہوا پھل محفوظ تصور نہیں کیا جاتا، اسی طرح چرتا ہوا جانور، خواہ مملوکہ زمین میں ہی چر رہا ہو۔ ہاں، پھل توڑنے کے بعد کھلیان میں لگا دیا جائے تو وہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب اس کو چرانے پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ ضابطہ ہے قطع ید کا کہ کسی غیر محفوظ چیز کو چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا، البتہ مالک پاس ہو تو چیز کو محفوظ تصور کیا جائے گا، خواہ وہ کھلے میدان یا کھیتوں میں پڑی ہو۔ (مزید دیکھیے حدیث: 4885)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4960