Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
48. بَابُ : مَا جَاءَ فِي كِتَابِ الْقِصَاصِ مِنَ الْمُجْتَبَى مِمَّا لَيْسَ فِي السُّنَنِ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا }
باب: قصاص سے متعلق مجتبیٰ (سنن صغریٰ) کی بعض وہ احادیث جو ”سنن کبریٰ“ میں نہیں ہیں آیت کریمہ: ”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے“ (النساء: ۹۳) کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4873
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا , وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرتا، نہ مومن رہتے ہوئے شراب پیتا ہے، نہ مومن رہتے ہوئے چوری کرتا ہے، اور نہ ہی مومن رہتے ہوئے قتل کرتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحدود 6 (6782)، 20 (6809)، (تحفة الأشراف: 6186) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ اور اس طرح کی احادیث سے ان برے کاموں کی شناعت کا پتہ چلتا ہے، اور یہ وعید والی احادیث ہیں، جس میں اس طرح کے اعمال سے دور رہنے کی دعوت دی گئی ہے، اور یہ کہ اس طرح کا کام کرنے والا ایمانی کیفیت سے دور رہتا ہے، جس کی بنا پر اس طرح کے برے کام میں ملوث ہو جاتا ہے، گویا حدیث میں مومن سے اس طرح کے کاموں میں ملوث ہونے کے حالت میں ایمان چھین لیا جاتا ہے، اور وہ مومن کامل نہیں رہ پاتا، یا یہاں پر ایمان سے مراد شرم و حیاء ہے کہ اس صفت سے نکل جانے کے بعد آدمی یہ برے کام کرتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ حیاء ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مومن سے مراد وہ مومن ہے جو عذاب سے کلی طور پر مامون ہو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن سے اس حالت میں ایمان کی نفی کا معنی نہی اور ممانعت ہے، یعنی کسی شخص کا حالت ایمان میں زنا کرنا مناسب نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4873 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4873  
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ زنا اور بدکاری کی حرمت پر صریح دلالت کرتی ہے، نیز ان امور کی حرمت پر بھی دلالت کرتی ہے جو ایمان کے منافی ہیں اور یہ اس لیے کہ زنا فواحش میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَلا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً﴾ (بني إسرائیل: 32)
(2) اس حدیث مبارکہ سے شراب کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ شراب خبائث کی جڑ ہے۔ یہ رذیل اور گھٹیا حرکات پر ابھارتی ہے، نیز چوری اور قابل احترام جان کو قتل کرنے کی حرمت بھی واضح ہوتی ہے۔
(3) مومن نہیں رہتا مقصد یہ ہے کہ یہ کام ایمان کے منافی ہیں۔ ایمان ان سے روکتا ہے۔ تو جو شخص یہ کام کرتا ہے، وہ ایمان کے تقاضے پر عمل نہیں کرتا۔ گویا مومن نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافر بن جاتا ہے کیونکہ اہل سنت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی گناہ، خواہ وہ کبیرہ ہی ہو، کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں بنتا۔ اور یہ اصول بہت سی آیات واحادیث سے قطعاً ثابت ہے، مثلاً: رسول اللہﷺ نے فرمایا: [مَن ماتَ وهو يَعْلَمُ أنَّه لا إلَهَ إلّا اللَّهُ، دَخَلَ الجَنَّةَ] جو شخص اس حالت میں مرا کہ اسے لا إلَهَ إلّا اللَّهُ کا علم (اس پر یقین) ہے تو وہ جنت میں داخل ہو چکا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنة قطعا، حدیث: 26) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: [ما من عبدٍ قال: لا إلهَ إلّا اللهُ، ثُمَّ ماتَ على ذلِكَ، إلّا دخل الجنةَ] جو بندہ کہہ دے: لا إلَهَ إلّا اللَّهُ پھر اسی (عقیدے) پر مر جائے تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (صحیح البخاري، اللباس، باب الثیاب البیض، حدیث: 5827) یہ اور اس جیسی دوسری بہت سی احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ جو شخص لا إلَهَ إلّا اللَّهُ  یعنی کلمہ اخلاص وتوحید کی شہادت پر فوت ہو جائے اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اللہ چاہے تو اپنی مشیت کے تحت اسے معاف فرما کر ابتداء ً جنت میں داخل فرما دے اور اگر چاہے تو کچھ مواخذے اور سزا کے بعد جنت میں داخل فرمائے۔ ایسا شخص ابدی جہنمی قطعاً نہیں جیسا کہ کافر و مشرک ہمیشہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْه۔ یا اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب وہ یہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس وقت مومن نہیں ہرتا۔ جب وہ باز آتا ہے، پھر ایمان لوٹ آتا ہے۔ یہ مطلب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث سے منقول ہے۔ گویا وقتی طور پر مومن نہیں رہتا۔ یا وہ عذاب سے امن میں نہیں رہتا یا مقصود یہ ہے کہ مومن کو یہ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ گویا مقصد نہی ہے۔
(4) ان تین روایات 4871 تا 4873 میں چونکہ قتل کو کبیرہ گناہوں میں ذکر کیا گیا ہے اور قصاص بھی قتل میں ہی ہوتا ہے، لہٰذا یہ احادیث کتاب القصاص میں آسکتی ہیں۔
(5) قتل کا گناہ قصاص ہی سے معاف ہو سکتا ہے۔ ورثائے مقتول کی معافی سے قتل کا گناہ معاف نہیں ہوتا۔ صرف یہ ہے کہ دنیا میں قتل سے بچ جائے گا۔ آخرت میں قتل کی سزا بھگتنا ہوگی۔ الا یہ کہ مقتول کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے راضی فرما دے اور وہ آخرت میں معاف کر دے۔ وَمَا ذٰلِك عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیزٍ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4873