Note: Copy Text and to word file

سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
13. بَابُ : سُقُوطِ الْقَوَدِ مِنَ الْمُسْلِمِ لِلْكَافِرِ
باب: کافر کے بدلے مسلمان کے قتل نہ کیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4747
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا يَحِلُّ قَتْلُ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مُحْصَنٌ فَيُرْجَمُ، وَرَجُلٌ يَقْتُلُ مُسْلِمًا مُتَعَمِّدًا، وَرَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ فَيُحَارِبُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصَلَّبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے مگر جب تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہو ۱؎: شادی شدہ ہو کر زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا، کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے، کوئی اسلام سے نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ جنگ بناتا پھرے، تو اسے قتل کیا جائے گا، یا سولی پر چڑھایا جائے گا، یا پھر جلا وطن کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4053 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اور ان تین صورتوں میں کافر کے بدلے مسلم کو قتل کرنے کی بات نہیں ہے اسی سے مؤلف کا باب پر استدلال ہے، جو بہرحال مبہم ہے، لیکن اگلی حدیث اس باب میں بالکل واضح ہے۔ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی، یہی جمہور علماء امت کا قول ہے۔ البتہ ذمی کے قتل کا گناہ بہت ہی زیادہ ہے، دیکھئیے اگلی حدیث۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

وضاحت: ۱؎: اور ان تین صورتوں میں کافر کے بدلے مسلم کو قتل کرنے کی بات نہیں ہے اسی سے مؤلف کا باب پر استدلال ہے، جو بہرحال مبہم ہے، لیکن اگلی حدیث اس باب میں بالکل واضح ہے۔ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی، یہی جمہور علماء امت کا قول ہے۔ البتہ ذمی کے قتل کا گناہ بہت ہی زیادہ ہے، دیکھئیے اگلی حدیث۔
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4747 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4747  
اردو حاشہ:
مصنف رحمہ اللہ کا استدلال ظاہر الفاظ سے ہے کہ ان تین جرائم کے علاوہ کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اور ان میں دوسرا جرم کسی مسلمان کو قتل کرنے کا ہے نہ کہ کافر کو۔ اس استدلال کی تائید آئندہ احادیث سے بھی ہو رہی ہے جن میں صراحتاً فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ باقی رہا النفس بالنفس تو یہ عام نہیں کیونکہ حربی کافر کے بدلے کوئی شخص بھی مسلمان کو قتل کرنے کا قائل نہیں۔ جس طرح حربی کا فر مستثنیٰ ہے، اسی طرح ان احادیث کی بنا پر ذمی کافر بھی مستثنیٰ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: 4738)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4747   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4022  
´جن گناہوں اور جرائم کی وجہ سے کسی مسلمان کا خون حلال ہو جاتا ہے ان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے اس شخص کے جس نے شادی کے بعد زنا کیا یا اسلام لانے کے بعد کفر کیا یا جان کے بدلے جان لینا ہو۔‏‏‏‏ اسے زہیر نے موقوفاً روایت کیا ہے (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4022]
اردو حاشہ:
غلام اگر زنا کرے، اگرچہ وہ شادی شدہ بھی ہو، اسے رجم نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس پر نصف حد ہے۔ اور وہ ہے پچاس کوڑے، رجم نصف نہیں ہو سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4022   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4053  
´سولی دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں: ایک تو شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا، دوسرے وہ شخص جس نے کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اسے قتل کیا جائے گا، تیسرے وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہوئے اسلام سے مرتد ہو جائے، تو اسے سولی دی جائے گی، یا جلا وطن کر دیا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے۔
(2) معلوم ہوا ڈاکو، باغی اور مرتد کے سلسلے میں حاکم کو مندرجہ بالا سزاؤں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے، یعنی وہ جرم کی مناسبت سے سزا کم و بیش کر سکتا ہے۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4053