سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : ذِكْرِ الْقَسَامَةِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
باب: زمانہ جاہلیت میں رائج قسامہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4710
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا وَعُقِلَتِ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ، قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ , فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی، وہ بولا: میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ (اس میں سے سامان گرنے سے) اونٹ نہ بدکے، چنانچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے رسی دی، جب انہوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا، اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کے لیے کوئی رسی نہیں ہے، اس نے کہا: اس کی رسی کہاں گئی؟ وہ بولا: میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا: مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے، میں نے اسے رسی دے دی، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری، اسی میں اس کی موت تھی (یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی) اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا، اس نے کہا: کیا تم حج کو جا رہے ہو؟ اس نے کہا: جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں، اس نے کہا: کیا تم (اس موقع سے) کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دو گے؟ اس نے کہا: ہاں، کہا: جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا: اے قریش کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو پکارنا! اے ہاشم کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو ابوطالب کے بارے میں پوچھنا پھر انہیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور (یہ کہہ کر) نوکر مر گیا، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابوطالب گئے اور بولے: ہمارے آدمی کا کیا ہوا؟ وہ بولا: وہ بیمار ہو گیا، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مر گیا، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کر دیا۔ ابوطالب بولے: تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حقدار تھا، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے۔ اس نے کہا: اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ قریش ہیں، اس نے کہا: اے بنی ہاشم کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ بنی ہاشم ہیں، اس نے کہا: ابوطالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: ابوطالب یہ ہیں۔ وہ بولا: مجھ سے فلاں نے کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں نے اسے ایک رسی کی وجہ سے مار ڈالا، چنانچہ ابوطالب اس کے پاس آئے اور بولے: تم تین میں سے کوئی ایک کام کرو، اگر تم چاہو تو سو اونٹ دے دو، اس لیے کہ تم نے ہمارے آدمی کو غلطی سے مار ڈالا ہے ۱؎ اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تم نے اسے نہیں مارا، اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کے بدلے قتل کریں گے، وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہم قسم کھائیں گے، پھر بنی ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی زوجیت میں تھی، اس شخص سے اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بولی: ابوطالب! میں چاہتی ہوں کہ آپ ان پچاس میں سے میرے اس بیٹے کو بخش دیں اور اس سے قسم نہ لیں، ابوطالب نے ایسا ہی کیا، پھر ان کے پاس ان میں کا ایک شخص آیا اور بولا: ابوطالب! آپ سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم لینا چاہتے ہو؟ ہر شخص کے حصے میں دو اونٹ پڑیں گے، تو لیجئیے دو اونٹ اور مجھ سے قسم مت لیجئیے جیسا کہ آپ اوروں سے قسم لیں گے، ابوطالب نے دونوں اونٹ قبول کر لیے، پھر اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک بھی آنکھ جھپکنے والی نہیں رہی (یعنی سب مر گئے) ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 27 (المناقب 87) (3845)، (تحفة الأشراف: 6280) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔ ۲؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سب کے مر جانے کی خبر قسم کھا کر دی باوجود یہ کہ یہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں کہی جاتی ہیں: یہ خبر ان تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہو گی، کسی ثقہ شخص کے ذریعہ پہنچی ہو گی، یہ بھی احتمال ہے کہ اس واقعہ کی خبر انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4710 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4710
اردو حاشہ:
(1) اسلام سے پہلے تمام اصول وضوابط اور شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، تاہم جو اصول وضوابط اور احکام رسول اللہ ﷺ نے باقی رکھے ہیں، وہ اب بھی باقی ہیں، ایسے احکام کی حیثیت اسلامی احکام ہی کی ہے۔ یہ اسی طرح واجب اطاعت ہیں جس طرح قرآن وحدیث کے دیگر احکام ہیں۔
(2) جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ اس کا وبال، قسم کھانے والے پر بہر صورت پڑتا ہے (جیسا کہ اس حدیث میں مذکور لوگوں پر پڑا) خواہ یہ وبال دنیا میں پڑ جائے یا آخرت میں، الا یہ کہ ایسا شخص سچی توبہ کر لے۔
(3) کسی شخص کو ناحق قتل کرنا ہلاک کر دینے والا کبیرہ گناہ ہے۔ یہ جرم اس قدر سنگین ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کی شناعت کے قائل تھے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے ہر طرح کوششیں کی جاتی تھیں، تاہم کمزور، طاقتور سے بدلہ نہیں لے سکتا تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف اس جرم کی قباحت کو بیان کیا بلکہ اسے روکنے کے لیے ترغیب و ترہیب کے ساتھ ساتھ قانون بھی مقرر فرمایا۔ اس کی شناعت کی بابت ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا﴾ (المآئدۃ:32،5) ”جس شخص نے کسی ایک جان کو، کسی جان کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد مچانے کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں (ساری نسل انسانی) کو قتل کیا اور جس نے اسے (ایک جان کو) زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا۔“ نیز ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (النسآء: 93،4) ”اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی۔ اور اس نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ ایک شخص کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے والا دین، شر وفساد کے پھیلانے کی کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتا ہے؟ مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں جو زہر اگلا جاتا ہے وہ یہود وہنود کی سازش ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نام نہاد مسلمان بھی اس باطل پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں اور کافروں کے آلہ کاربن کر اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔
(4) قسامت قسم کی ایک خاص صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے لیکن اس کے قاتل کا پتا نہ چلے یا کچھ لوگوں پر شک ہو کہ وہ قتل میں ملوث ہیں مگر کوئی ثبوت نہ ہو تو مدعین سے پچاس قسمیں لی جائیں گی۔ اگر وہ نہ دیں تو مدعیٰ علیہم کے پچاس معتبر آدمیوں سے قسم لی جائے کہ نہ ہم نے اسے قتل کیا ہے نہ ہی قاتل کو جانتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس علاقے کے لوگ قتل کے الزام سے بری ہو جائیں گے۔ مذکورہ واقعے میں بھی قاتل تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ اور موقع کی گواہی نہیں تھی، صرف زبانی پیغام تھا، لہٰذا وہ مشکوک ہوگیا اور اس سے قسمیں لی گئیں۔ مدعین قسمیں اس لیے نہیں اٹھا سکتے تھے کہ انھوں نے دیکھا نہیں تھا۔
(5) قسامت اگرچہ جاہلیت کا رواج تھا مگر چونکہ صحیح تھا، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے برقرار رکھا۔ یہ اب بھی مشروع ہے۔
(6) ”اونٹوں میں گیا“ یعنی اس کے ساتھ سفر پر گیا۔ ساتھ اونٹ بھی تھے۔
(7) ”اونٹ نہ گھبرائیں“ بورے کی چیزوں کے گرنے کی وجہ سے اونٹ ڈرتے تھے۔
(8) ”اسی سلوک کا اہل تھا“ کیونکہ وہ ایک معزز قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔
(9) ”خطاً قتل کیا ہے“ کیونکہ اس کا مقصد قتل کرنا نہیں تھا بلکہ ویسے لاٹھی مارنا تھا، تاہم وہ کسی نازک جگہ پر لگی جو اس کی موت کا سبب بن گئی۔ قتل خطا میں قصاص نہیں لیا جا سکتا بلکہ دیت وصول کی جائے گی۔
(10) ”قسمیں کھائیں“ یعنی جھوٹی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے آدمی سے قتل ہوا ہے لیکن دیت سے بچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھائیں۔ یاد رہے قتل خطا میں دیت قاتل کے قبیلے کو بھرنا پڑتی ہے۔
(11) ”کوئی ایک آنکھ حرکت کرتی ہو۔“ یعنی ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہا۔ زندہ آدمی کی آنکھ ہی حرکت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ شاید رسول اللہ ﷺ نے خود بتایا ہو، تبھی تو وہ قسم کھا کر اس زور دار طریقے سے بیان فرما رہے ہیں۔
(12) ضروری نہیں کہ ہر جھوٹی قسم کا انجام یہی ہو۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کوئی نشانی دکھانا چاہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل بہت سے ایسے خلاف عادت واقعات ہوئے تھے۔
(13) یہ حدیث حرم کی عظمت وحرمت پر بھی واضح دلالت کرتی ہے اور یہ کہ جس کسی نے بھی حرم یا حدودِ حرم میں معاصی وغیرہ کا ارتکاب کیا، اس پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا اور وہ نشانِ عبرت بن گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4710