سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
88. بَابُ : بَيْعِ الْمَاءِ
باب: پانی بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4665
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَاللَّفْظُ لَهُ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ إِيَاسَ بْنَ عُمَرَ , وَقَالَ مَرَّةً: ابْنَ عَبْدٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ" , قَالَ قُتَيْبَةُ: لَمْ أَفْقَهْ عَنْهُ بَعْضَ حُرُوفِ أَبِي الْمِنْهَالِ كَمَا أَرَدْتُ.
ایاس بن عمر (یا ابن عبد) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی بیچنے سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ قتیبہ کہتے ہیں: مجھے ان (سفیان) سے ایک مرتبہ ابومنہال کے بعض کلمات سمجھ میں نہیں آئے جیسا میں نے چاہا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 63 (3478)، سنن الترمذی/البیوع 44 (1271)، سنن ابن ماجہ/الرہون 18 (الأحکام 79) (2476)، (تحفة الأشراف: 1747)، مسند احمد (3/138) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4665 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4665
اردو حاشہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ کو جب سفیان نے حدیث کی تو اسے ابو منہال کی حدیث کے بعض الفاظ کی اس طرح سمجھ نہ آ سکی جس طرح وہ چاہتے تھے شاید وہاں بھیڑ وغیرہ ہو اور یہ استاد سے کچھ فاصلے پر ہوں یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4665
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4666
´فاضل پانی بیچنے کا بیان۔`
ایاس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاضل پانی کے بیچنے سے منع فرمایا ہے، وہط کے نگراں نے وہط کا فاضل پانی بیچا تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے اسے ناپسند کیا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4666]
اردو حاشہ:
مفت ملنے والے پانی مثلاً: بارش، چشمے اور نہر کا پانی اگر کسی زرعی زمین سے زائد ہوتو اس کو بیچنا منع ہے۔ ہاں، جو پانی خریدا گیا ہو، مثلاً: ٹیوب ویل کا پانی یا جانوروں پر لاد کر لایا گیا پانی، ایسے پانی کو اسی حساب سے بیچ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ اس پانی کی بیع نہیں ہوتی بلکہ یہ دراصل ٹیوب ویل یا جانوروں کے اخراجات ہوتے ہیں یا انسانی محنت کا معاوضہ ہوتا ہے مگر عرفاً اسے پانی کی قیمت کہہ دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک بستی یا ایک زمین کا نام ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمرو کو وراثتاً ملی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4666
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4667
´فاضل پانی بیچنے کا بیان۔`
ابومنہال نے خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ایاس بن عبد رضی اللہ عنہ نے کہا: فاضل پانی مت بیچو، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاضل پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4667]
اردو حاشہ:
جس طرح اللہ تعالیٰ نے پانی مفت اور و افر مہیا فرمایا ہے، اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی ضرورت سے زائد پانی لوگوں کو مفت لے جانے دیں، خصوصاً کسی پیاسے انسان یا حیوان کو کسی صورت بھی پانی استعمال کرنے سے روکنا جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4667
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3478
´فاضل پانی کے بیچنے کا بیان۔`
ایاس بن عبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاضل (پینے کے) پانی کے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3478]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس سے مراد صحرا اور عام چراگاہوں میں پائے جانے والے تالابوں کنووں یا چشموں کا پانی ہے، نہ کہ کسی کی ذاتی ملکیت والی زمین میں محنت و مشقت سے نکالا جانے والا پانی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3478
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1271
´ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان۔`
ایاس بن عبد مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1271]
اردو حاشہ:
وضاخت:
1؎:
اس سے مراد نہروچشمے وغیرہ کا پانی ہے جوکسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اوراگرپانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہوتو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈا پانی یا مینرل واٹروغیرہ بیچناجائزہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1271
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:936
936- سیدنا ایاس بن عبد مزنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے انہوں نے کچھ لوگوں کو پانی فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا: پانی فروخت نہ کرو کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی فروخت کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ اس سے مراد کون سا پانی ہے؟ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:936]
فائدہ:
اس حدیث میں بیان ہے کہ اضافی پانی کو فروخت کرنا منع ہے، مثلاً بارش کا پانی، جو کسی کے حوض میں کھڑا ہے اور وہ لوگوں کو استعمال نہیں کرنے دیتا، ان سے پیسے مانگتا ہے، یہ غلط ہے، اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ٹیوب ویل یا پمپ کا پانی بھی فروخت نہیں کر سکتا، ایسی بات نہیں ہے، جو پانی مشقت سے حاصل ہوتا ہے، جس کا بل آ تا ہے، ڈیزل خرچ ہوتا ہے، وہ فروخت کرنا درست ہے، نیز نہری پانی بھی فروخت کرنا درست ہے، کیونکہ وہ فری حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا بھی بل ادا کرنا پڑتا ہے، اور بہت زیادہ مشکل کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 936