سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
70. بَابُ : الْبَيْعِ إِلَى الأَجَلِ الْمَعْلُومِ
باب: متعینہ مدت تک کے لیے ادھار بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4632
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُرْدَيْنِ قِطْرِيَّيْنِ , وَكَانَ إِذَا جَلَسَ فَعَرِقَ فِيهِمَا ثَقُلَا عَلَيْهِ , وَقَدِمَ لِفُلَانٍ الْيَهُودِيِّ بَزٌّ مِنْ الشَّأْمِ , فَقُلْتُ: لَوْ أَرْسَلْتَ إِلَيْهِ فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ , فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ مُحَمَّدٌ , إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي أَوْ يَذْهَبَ بِهِمَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قطری چادریں تھیں، جب آپ بیٹھتے اور ان میں پسینہ آتا تو وہ بھاری ہو جاتیں، ایک یہودی کا شام سے کپڑا آیا تو میں نے عرض کیا: اگر آپ اس کے پاس کسی کو بھیج کر تاوقت سہولت (قیمت ادا کرنے کے وعدہ پر) دو کپڑے خرید لیتے تو بہتر ہوتا، چنانچہ آپ نے اس کے پاس ایک شخص کو بھیجا، اس (یہودی) نے کہا: مجھے معلوم ہے محمد کیا چاہتے ہیں، وہ تو میرا مال ہضم کرنا چاہتے ہیں، یا یہ دونوں چادروں کو ہضم کرنا چاہتے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جھوٹ کہا، اسے معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کرنے والا ہوں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 7 (1213)، (تحفة الأشراف: 17400)، مسند احمد (6/147) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پر استدلال ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4632 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4632
اردو حاشہ:
(1) معلوم ہوا معین مدت تک ادھار سودا لینا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا، جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ہرگز یہ کام نہ کرتے اور وہ بھی خبیث الفطرت یہودی سے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ نبی اکرم ﷺ کی سادگی اور آپ کی کسمپرسانہ زندگی گزارنے پر بھی دلالت کرتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو آپ کو بادشاہ نبی بنا دیا جائے اور اگر چاہیں تو ”عبد“ بنایا جائے۔ اس پیش کش کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے عبد، یعنی اللہ کے درکا فقیر نبی بننے ہی کو ترجیح دی۔ یہ اس لیے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں، آخرت میں جو کچھ ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اسی باعث رسول اللہ ﷺ نے دنیوی مال و متاع اور بادشاہت کو ذرہ برابر حیثیت نہیں دی۔
(3) یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ تمام مخلوق کی نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتے تھے، اس لیے آپ کے طریقے سے ہٹ کر خوف الہٰی کے خود ساختہ طریقے مردود ہیں اور ایسا دعوٰی کرنے والا انسان جھوٹا ہے، نیز آپ تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ باوفا اور ایفائے عہد کرنے والے اور سب سے بڑھ کر امانتیں ادا کرنے والے تھے۔
(4) آپ کا یہودیوں کے ساتھ معاملات اور لین دین کرنا، جبکہ وہ واضح طور پر رشوت اور حرام خور لوگ تھے، اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے پاس حرام مال ہو اس کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے بشرطیکہ جس مال کا معاملہ ہو رہا ہے وہ حرام نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
(5) ”جب سہولت ہو گی“ گویا آپ نے کوئی مدت مقرر نہ فرمائی تھی جبکہ باب میں معین مدت کا ذکر ہے، لہٰذا باب یوں ہونا چاہیے ”غیر معینہ مدت تک بیع“ اور سنن کبرٰی میں یہ باب اسی طرح ہے تاکہ حدیث باب کے مطابق بن سکے۔
(6) ”قطر بستی“ یہ بحرین کے علاقے کی ایک بستی تھی جہاں بہترین کپڑے تیار ہوتے تھے۔
(7) اگر باب کا عنوان یہی رہے جو ہے تو حدیث سے مناسبت اس طرح ہو گی کہ سہولت کا وقت ان کے ہاں متعین تھا، مثلاً: جب کٹائی کا وقت ہو اور کھجوریں گھروں میں آئیں وغیرہ۔ یہ بھی تعین ہی ہے۔
(8) ”میں جانتا ہوں“ یعنی اس نے صرف ادھار سے بچنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑا ہے ورنہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہیں تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4632
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1213
´کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہو جاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا: کاش! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہو گی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا: جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1213]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھارسودا کرنا درست ہے کیونکہ آپﷺ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا،
اسی سے باب پراستدلال ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1213