صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
17. بَابُ مَنْ لَمْ يَقْبَلِ الْهَدِيَّةَ لِعِلَّةٍ:
باب: جس نے کسی عذر سے ہدیہ قبول نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 2596
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُخْبِرُ أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارَ وَحْشٍ وَهُوَ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَرَدَّهُ، قَالَ: صَعْبٌ، فَلَمَّا عَرَفَ فِي وَجْهِي رَدَّهُ هَدِيَّتِي، قَالَ:" لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْكَ، وَلَكِنَّا حُرُمٌ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک گورخر ہدیہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے اور محرم تھے۔ آپ نے وہ گورخر واپس کر دیا۔ صعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر (ناراضی کا اثر) ہدیہ کی واپسی کی وجہ سے دیکھا، تو فرمایا ”ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2596 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2596
حدیث حاشیہ:
گویا کسی وجہ کی بنا پر ہدیہ واپس بھی کیا جاسکتا ہے۔
بشرطیکہ وجہ معقول اور شرعی ہو۔
وہ ہدیہ بھی ناجائز ہے جو کسی ناجائز مقصد کے حصول کے لیے بطور رشوت پیش کیا جائے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ارشاد کا یہی مقصد ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
فإن کان لمعصیة فلا یحل وهو الرشوة و إن کان لطاعة فیستحب و إن کان لجائز فجائز ان کا مطلب بھی وہی ہے جو مذکور ہوا کہ رشوت کسی گناہ کے لیے ہو تو وہ حلال نہیں ہے اور اگر جائز کام کے لیے ہے تو وہ مستحب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2596
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2596
حدیث حاشیہ:
احادیث میں ہدیہ قبول کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے لیکن کسی وجہ سے واپس بھی کیا جا سکتا ہے، اس کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلاً:
ذاتی طور پر کسی حرام چیز کا ہدیہ ہو، جیسے کسی نے شراب کی بوتل بطور ہدیہ دی ہے تو اسے قبول نہ کیا جائے یا ذاتی طور پر وہ حرام نہیں لیکن کسی خارجی سبب کے پیش نظر اس کا استعمال صحیح نہیں، جیسے محرم کے لیے شکار جائز نہیں۔
اگر کوئی محرم کو زندہ شکار پیش کرے تو اس کا قبول کرنا بھی صحیح نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
یا سرکاری اہل کار کو کوئی تحفہ پیش کیا جائے تاکہ اس سے کسی ناجائز کام میں تعاون لیا جائے تو شریعت میں یہ ہدیہ نہیں بلکہ اسے رشوت کہا گیا ہے جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا ارشاد گرامی پہلے گزر چکا ہے اور آئندہ حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہو گی۔
بہرحال کسی معتبر اور شرعی سبب کی بنا پر ہدیہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن واپس کرتے وقت اس کی وجہ بھی بتا دی جائے تاکہ ہدیہ دینے والے کو حوصلہ شکنی کا احساس نہ ہو یا اسے اپنی غلط روش کا پتہ چل جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2596
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 310
´حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا یا کروانا حلال نہیں`
«. . . عن ابن عباس عن الصعب بن جثامة الليثي انه اهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا وحشيا وهو بالابواء او بودان، فرده عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما فى وجهي قال: ”إنا لم نرده عليك إلا انا حرم . . .»
”. . . سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ سیدنا صعب بن جثامہ اللیثی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابواء یا ودان ایک مقام کے پاس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گورخر ایک حلال جانور کے گوشت کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے شکار کیا تھا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کر دیا۔ (صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے کی حالت دیکھی تو فرمایا: ”ہم نے اسے اس لئے قبول نہیں کیا کہ ہم حالت احرام میں ہیں . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 310]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1825، ومسلم 1193، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا یا کروانا یا شکار کیا ہوا خریدنا حلال نہیں ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 58/9، اور سورة المائدة آيت: 96]
➋ جو شخص احرام میں نہیں ہے اگر اپنے لئے شکار کرے اور بعد میں احرام والوں کو تحفہ دے تو اس کا کھانا حلال ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث:492]
➌ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو عرج (کے مقام) پر گرمی کے دن میں دیکھا، آپ حالت احرام میں تھے، آپ نے سرخ کمبل سے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ پھر شکار کا گوشت لایا گیا تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کھاؤ، انہوں نے پوچھا: آپ نہیں کھاتے؟ تو انہوں نے فرمایا: میری حالت تمہاری حالت جیسی نہیں ہے، یہ میرے لئے شکار کیا گیا ہے۔ (اس وجہ سے میں اسے نہیں کھاتا) [الموطأ رواية ابي مصعب الزهري 452/1 ح 1147، وسنده صحيح، وللحديث لون آخرفي موطأ يحييٰ 354/1 ح 802]
➍ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر (حالت احرام میں) تمھارے دل میں کوئی چیز کھٹکے (مثلاً شکار کا گوشت کھانا) تو اسے چھوڑ دو۔ [الموطا رواية يحييٰ354/1 ح 803 وسنده صحيح]
➎ اگر کسی کام سے دوسرے بھائی کا غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو اس کی وضاحت کر دینی چاہئے تاکہ دل ایک دوسرے کے لئے صاف رہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 53
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 600
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وحشی گدھا بطور تحفہ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”ابواء“ یا ”ودان“ مقام پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انہیں واپس کر دیا اور فرمایا کہ ”ہم نے یہ اس لئے واپس کیا کہ ہم احرام والے ہیں۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 600]
600 لغوی تشریح:
«حِمَارًا وَّحْشِياً» اس سے مراد وحشی گدھے کا ایک ٹکڑا ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”وحشی گدھے کا گوشت“ اور دوسری میں ہے:
”وحشی گدھے کا سرین“ اور تیسری روایت میں ہے:
”شکار کے گوشت میں سے ایک ٹکڑا۔“ ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، باب تحریم الصید للمحرم۔
«بِالَّابْوَاءِ» ”ہمزہ“ پر زبر اور ”با“ ساکن ہے۔ یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے مابین ایک پہاڑ کا نام ہے جس کے پاس ایک بستی آبا ہے اور وہ بستی بھی اسی کی طرف منسوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا انتقال اسی جگہ پر ہوا۔ اس کے اور جحفہ کے مابین بیس یا تیس میل کی مسافت ہے۔
«وَدَّان» ”واؤ“ پر زبر اور ”دال“ مشدد ہے۔ یہ ابواء کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
«حُرُمٌ» ”حا“ او ”را“ دونوں پر پیش ہے، یعنی ہم محرم ہیں۔
فائدہ:
یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت مطلق طور پر حرام ہے، خواہ اس کی اجازت یا اشارے وغیرہ سے شکار نہ بھی کیا گیا ہو جبکہ پہلی حدیث میں اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ شکار جب محرم کے لیے کیا گیا ہو، یعنی محرم کو شکار کا گوشت کھلانے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو تو اس کا کھانا بھی محرم کے لیے حرام ہے گو اس نے اس کا اشارہ وغیرہ نہ بھی کیا ہو کیونکہ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں مروی ہے کہ جب میں نے آپ سے عرض کیا کہ جناب یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ بھی تناول نہ فرمایا۔ [سنن ابن ماجه، المناسك، حديث: 3093]
اسی طرح ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حالت احرام میں زمین کا شکار تمہارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے وہ شکار نہ کیا گیا ہو۔“ [جامع الترمذي، الحج باب ماجاء فى اكل الصيد للمحرم، حديث: 846]
جس سے معلوم ہوا کہ شکار جب محرم کے حکم سے یا اس کے اشارے وغیرہ سے کیا گیا ہو یا شکار محرم کی ضیافت کے لیے کیا گیا ہو تو اس کا کھانا ناجائز ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو محرم شکار کا گوشت کھا سکتا ہے۔
روای حدیث:
حضرت صعب رضی اللہ عنہ، ”صاد“ پر زبر اور ”عین“ ساکن ہے۔ والد کا نام جثامہ (”جیم“ پر زبر اور ”ثا“ مشدد) ہے۔ لیث قبیلے سے تھے۔ ودان اور ابواء میں رہتے تھے۔ ان کی حدیث حجازیوں میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کا قول ہے کہ خلاف عثمان رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 600
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2821
´کس طرح کا شکار کھانا محرم کے لیے ناجائز ہے؟`
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کو ایک نیل گائے ہدیہ کیا اور آپ ابواء یا ودان میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہیں واپس کر دیا۔ پھر جب آپ نے میرے چہرے پر جو کیفیت تھی دیکھی تو فرمایا: ”ہم نے صرف اس وجہ سے اسے تمہیں واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2821]
اردو حاشہ:
(1) ”پیش کیا“ بعض دوسری روایات میں صراحت ہے کہ وہ زندہ نہیں تھا بلکہ ذبح شدہ کا کچھ حصہ پیش کیا گیا تھا۔
(2) ابواء اور ودان، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان یہ دونوں مقامات قریب قریب ہیں۔
(3) ”واپس کر دیا“ حالانکہ سابقہ روایات کے مطابق آپ نے حضرت ابو قتادہ اور بہزی سے شکار قبول فرما لیا تھا، اس لیے اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہوگیا۔ صحیح اور محقق بات جس سے تمام صحیح احادیث پر عمل ہو جاتا ہے، یہ ہے کہ پہلے دو حضرات نے وہ جانور اپنے لیے شکار کیے تھے۔ بعد میں انھیں خیال آیا تو انھوں نے محرمین کو بطور ہدیہ دے دیے، لہٰذا ان کا کھانا محرمین کے لیے جائز تھا جبکہ حضرت صعب نے وہ جانور شکار ہی نبیﷺ کے لیے کیا تھا کہ آپ کو تحفتاً پیش کر سکیں، لہٰذا وہ محرمین کے لیے کھانا جائز نہیں تھا۔ یہ تفصیل حدیث نمبر 2830 میں آرہی ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے جن میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحق و دیگر محدثین رحمہم اللہ شامل ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ غیر محرم کے ہر شکار کو محرم کے لیے جائز سمجھتے ہیں بشرطیکہ اس نے کوئی تعاون نہ کیا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے وہ شکار اپنے لیے کیا ہو یا محرم کے لیے۔ اور بعض نے قرآن مجید کی آیت کے ظاہر ﴿وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا﴾ (المآئدۃ: 96) اور حضرت صعب والی اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے شکار کھانا کسی بھی حال میں جائز قر ار نہیں د یا، مگر ان دونوں مسلکوں پر عمل کرنے سے بہت سی احادیث عمل سے رہ جاتی ہیں، جو یقینا نا مناسب ہے، اس لیے جمہور اہل علم کا مسلک ہی صحیح ہے کیونکہ اس میں سب متعلقہ احادیث پر عمل ہو جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
(4) نبی اکرمﷺ صدقہ نہیں لیتے تھے، ہدیہ قبول فرما لیتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2821
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3090
´محرم کو کون سا شکار منع ہے؟`
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے، میں ابواء یا ودان میں تھا، میں نے آپ کو ہدیہ میں ایک نیل گائے دی، آپ نے اسے لوٹا دیا، پھر جب آپ نے میرے چہرہ پر ناگواری دیکھی تو فرمایا: ”ہم یہ تمہیں نہیں لوٹاتے، لیکن ہم احرام باندھے ہوئے ہیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3090]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گورخر ایک جنگلی جانور ہوتا ہےجو گدھے سے کچھ مشابہت رکھتا ہےاس لیے اسے حمار وحشی یعنی جنگلی گدھا کہتے ہیں۔
یہ حلال جانور ہے۔
(2)
تحفہ دینا اور قبول کرنا مسنون ہے۔
اس سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور محبت بڑھتی ہے تاہم تحفہ دیتے وقت یہ خواہش نہیں ہونی چاہیے۔
کہ جواب میں بھی کوئی تحفہ پیش کیا جائےگا۔
(3)
اگر مجبوراً کسی سے ایسا معاملہ کرنا پڑے جو اسے ناگوار گزرے تو عذر بیان کردینا چاہیے تاکہ دل صاف ہوجائے۔
(4)
احرام والا اس جانور کا گوشت نہیں کھا سکتا جو اس کے لیے شکار کیا گیا ہو۔
(5)
احرام میں پالتو جانور کا گوشت کھانا منع نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3090
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:801
801- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نیل گائے کا گو شت پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ”ابواء“ یا شاید ”ودان“ کے مقام پر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرے چہرے پرنا پسندیدگی کے آثار دیکھے تو ارشاد فرمایا: ”ہم نے یہ تمہیں واپس نہیں کرنا تھا۔ لیکن ہم اس وقت احرام کی حالت میں ہیں۔“ امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سفیان بعض اوقات ان دونوں روایات کو ایک ہی حدیث میں ایک ساتھ جمع کرکے بیان کر دیتے تھے اور بعض اوقات ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:801]
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں شکار کیا ہوا جانور کا گوشت بطور ہدیہ قبول کرنا درست نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 802
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1825
1825. حضرت صعب بن جثامہ لیثی ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے ایک جنگلی گدھا رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ پیش کیا۔ اس وقت آپ مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کردیا لیکن آپ نے جب اس کے چہرےپر افسردگی دیکھی تو فرمایا: ”ہم نے یہ اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم محرم ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1825]
حدیث حاشیہ:
ابن خزیمہ اور ابوعوانہ کی روایت میں یوں ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا، مسلم کی روایت میں ران کا ذکر ہے یا پٹھے کا جن میں سے خون ٹپک رہا تھا۔
بیہقی کی روایت میں ہے کہ صعب نے جنگلی گدھے کا پٹھا بھیجا۔
آپ ﷺ نے جحفہ میں تھے۔
آپ ﷺ نے اس میں سے فوراً کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا۔
بیہقی نے کہا اگر روایت محفوظ ہو تو شاید پہلے صعب نے زندہ گورخر بھیجا ہوگا آپ نے اس کو واپس کر دیا پھر اس کا گوشت بھیجا تو آپ نے اسے لے لیا۔
ابواءایک پہاڑ کا نام ہے اور ودان ایک موضع ہے جحفہ کے قریب۔
حافظ نے کہا کہ ابواءسے جحفہ تک تئیس میل اور ودان سے حجفہ تک آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔
باب کے ذریعہ امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس شکار کو واپس کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ زندہ تھا، حضرت امام نے دوسرے قرائن کی روشنی میں یہ تطبیق دی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2573
2573. حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر بطور ہدیہ بھیجا جبکہ آپ ابواء یا ودان مقام میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے اس کے چہرے کار نگ دیکھا تو فرمایا: ”ہم نے یہ تجھے صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2573]
حدیث حاشیہ:
إنما قبل الصید من أبي قتادہ وردہ علی الصعب مع أنه صلی اللہ علیه وسلم کان في الحالین محرما لأن المحرم لایملك الصید و یملك مذبوح الحلال لأنه کقطعة لحم لم یبق في حکم الصید (عینی)
آنحضرت ﷺ نے ابوقتادہ ؓ کا شکار قبول فرمالیا اور صعب بن جثامہ ؓ کا واپس فرمادیا۔
حالانکہ آپ ہر دو حالتوں میں محرم تھے۔
اس کی وجہ یہ کہ محرم شکار محض کو ملکیت میں نہیں لے سکتا اور حلال ذبیحہ کو ملکیت میں لے سکتا ہے۔
اس لیے کہ وہ گوشت کے ٹکڑے کی مانند ہے جو شکار کے حکم میں باقی نہیں رہا۔
پس صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا پیش کردہ گوشت شکار محض تھا اور آپ محرم تھے لہٰذا آپ ﷺ نے اسے واپس فرمادیا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2573
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1825
1825. حضرت صعب بن جثامہ لیثی ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے ایک جنگلی گدھا رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ پیش کیا۔ اس وقت آپ مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کردیا لیکن آپ نے جب اس کے چہرےپر افسردگی دیکھی تو فرمایا: ”ہم نے یہ اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم محرم ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1825]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کی نشاندہی کی ہے کہ حضرت صعب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں زندہ گاؤخر پیش کیا تھا اور زندہ شکار کو کسی صورت میں محرم کے لیے مال بنانا جائز نہیں جبکہ روایات میں اس کے زندہ ہونے کی تصریح نہیں ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صعب ؓ نے گاؤخر کا گوشت بھیجا تھا۔
امام بیہقی ؒ کہتے ہیں:
ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ حضرت صعب ؓ نے پہلے زندہ گاؤخر بھیجا ہو گا، جب رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا تو اس نے ذبح کر کے بھیج دیا۔
چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شکار کیا گیا تھا، اس لیے آپ نے واپس کر دیا اور وضاحت فرمائی کہ اگر ہم احرام کی حالت میں نہ ہوتے تو اسے ضرور قبول کر لیتے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معقول وجہ سے ہدیہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجہ بیان کر دی جائے تاکہ ہدیہ دینے والے کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔
(فتح الباري: 45/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1825
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2573
2573. حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر بطور ہدیہ بھیجا جبکہ آپ ابواء یا ودان مقام میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے اس کے چہرے کار نگ دیکھا تو فرمایا: ”ہم نے یہ تجھے صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2573]
حدیث حاشیہ:
محرم آدمی کے لیے شکار پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک تو یہ ہے کہ اسے گوشت کا کچھ حصہ پیش کیا جائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ پورا شکار زندہ شکل میں پیش کیا جائے۔
ان دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔
گوشت کا کچھ حصہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ شکار کا زندہ جانور قبول کرنا قابل اعتراض ہے کیونکہ احرام والا شخص شکار کا مالک نہیں ہو سکتا اور جب اسے غیر محرم ذبح کر دے تو اس کا مالک ہو سکتا ہے کیونکہ وہ گوشت ہے جو شکار کے حکم میں نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کا تحفہ قبول فرمایا کیونکہ انہوں نے گوشت حاضر خدمت کیا تھا جبکہ حضرت صعب ؓ کا شکار واپس کر دیا کیونکہ انہوں نے اسے زندہ شکل میں پیش کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ ہر دو وقت احرام کی حالت میں تھے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2573