سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
50. بَابُ : بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالذَّهَبِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ
باب: چاندی سونے سے اور سونا چاندی سے بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4586
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ , فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ إِنِّي أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ؟ , قَالَ:" لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا , مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع میں اونٹ بیچتا، چنانچہ میں دینار سے بیچتا تھا اور درہم لیتا تھا، پھر میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ سے کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں، میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینار سے بیچتا اور درہم لیتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں، اگر تم اسی دن کے بھاؤ سے لے لو جب تک کہ جدا نہ ہو اور تمہارے درمیان ایک دوسرے کا کچھ باقی نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 14 (3354، 3355)، سنن الترمذی/البیوع 24 (1242)، سنن ابن ماجہ/التجارات51(2262)، (تحفة الأشراف: 7053، 18685)، مسند احمد (2/33، 59، 83، 89، 101، 139، سنن الدارمی/البیوع 43 (2623)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4587-4589، 4591-4593) (ضعیف) (اس روایت کا مرفوع ہونا ضعیف ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما کا اپنا واقعہ ہے، ضعیف ہونے کی وجہ سماک ہیں جو حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اختلاط بھی ہوتا تھا، بس موقوف کو مرفوع بنا دیا جب کہ ان کے دوسرے ساتھیوں نے موقوفاً ہی روایت کی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4586 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4586
اردو حاشہ:
دینار سونے کا ہوتا تھا اور درہم چاندی کا۔ جب سونے اور چاندی کی بیع جائز ہے تو دینار کی جگہ اس کی قیمت کے مطابق درہم وصول کیے جا سکتے ہیں اور درہموں کی جگہ دینار وصول کیے جا سکتے ہیں۔ آج کل مختلف ممالک کی کرنسیوں کی یہی حیثیت ہے۔ سودا روپوں میں ہو تو ان کی جگہ روپوں کی قیمت کے مطابق ڈالر یا ریال یا پونڈ وصول کیے جا سکتے ہیں لیکن اسی وقت، بعد میں نہیں، کیونکہ کرنسی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ جس کرنسی میں سودا طے ہوا ہے، وہ اصل ہوگی باقی کرنسیاں ادائیگی کے وقت کے لحاظ سے وصول کی جائیں گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4586