سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
48. بَابُ : بَيْعِ الْقِلاَدَةِ فِيهَا الْخَرَزُ وَالذَّهَبُ بِالذَّهَبِ
باب: سونا اور نگینے جڑے ہار کو سونے کے بدلے بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4577
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ , عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ , عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ , قَالَ: اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً فِيهَا ذَهَبٌ , وَخَرَزٌ بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا , فَفَصَّلْتُهَا فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنَ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفَصَّلَ".
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار جس میں سونا اور نگینے لگے ہوئے تھے، بارہ دینار میں خریدا، پھر میں نے انہیں الگ کیا تو اس میں لگا ہوا سونا بارہ دینار سے زیادہ کا تھا، اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جب تک الگ کر لیا جائے اسے نہ بیچا جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 17 (البیوع 38) (1591)، سنن ابی داود/البیوع 13(3352)، سنن الترمذی/البیوع 32 (1255)، (تحفة الأشراف: 11027)، مسند احمد (6/21، 22) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4577 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4577
اردو حاشہ:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت کا مسئلہ بیان کرنا ہے جس میں سونے کے علاوہ موتی، نگینے اور منکے وغیرہ بھی ہوں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت اس وقت تک حرام ہے جب تک اسے الگ الگ کر کے سونے کا وزن معلوم نہ کر لیا جائے۔ جب سونے کا وزن معلوم ہو جائے تو پھر اس سونے کے برابر سونا دیا جائے اور موتی نگینے اور منکے وغیرہ الگ کر کے ان کی قیمت دی جائے، یا جو بھی معاملہ طے ہو، اس کے مطابق کیا جائے۔
(2) اگر تو ہار وغیرہ اس قسم کا ہو کہ اسے خراب کیے بغیر سونے کو موتیوں سے الگ کیا جا سکتا ہو تو الگ کرنے کے بعد ہر چیز کا الگ الگ سودا کیا جائے تاکہ سود کے شبہ سے حتی الامکان بچاؤ ہو سکے۔ اور اگر الگ الگ کرنے سے ہار خراب ہوتا ہو تو پھر سونے کے ہار کو چاندی، یعنی درہم کے عوض خریدا جائے اور چاندی کے ہار کو سونے، یعنی دینار کے عوض خریدا جائے جیسا کہ حدیث نمبر 4576 میں گزر چکا ہے۔ آج کل قیمت کرنسی نوٹوں کی صورت میں دی جاتی ہے، لہٰذا کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے، اور نہ الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے ایسے ہار کو الگ الگ کیے بغیر کسی بھی صورت میں بیچنے کی نفی کی ہے اور ظاہر الفاظ کو پیش کیا ہے مگر یہ تكلیف مالا یطاق ہے۔ اس طرح تو زیورات کا بیچنا ایک لا یَنْحَل مسئلہ ہوگا۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ شریعت کے مقاصد کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ورنہ کبھی کبھی مضحکہ خیز نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4577