سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
32. بَابُ : بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ
باب: درخت کے پھل کو توڑے ہوئے پھلوں سے بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4536
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقَالَ وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کے پھل (کھجور) توڑے ہوئے پھلوں (کھجور) سے بیچنے سے منع فرمایا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھ سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں اجازت عطا فرمائی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4524، وحدیث زید بن ثابت وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 75 (2173)، 82 (2184، 2188)، 84 (2192)، المساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1539)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1300، 1302)، سنن ابن ماجہ/التجارات 55 (2268، 2269)، (تحفة الأشراف: 3723، موطا امام مالک/البیوع 9 (14)، مسند احمد (2/5، 8، 5/182، 186، 188، 190)، سنن الدارمی/البیوع 24 (2600)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4540، 4542- 4545) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عرایا: عریا کی شکل یہ ہوتی تھی کہ باغ کا مالک کسی غریب ومسکین کو درختوں کے درمیان سے کوئی درخت صدقہ کر دیتا تھا، تو ایسے میں اگر مسکین اور اس کے بال بچوں کے باغ میں باربار آنے جانے سے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو اس کو یہ اجازت دی گئی کہ اس درخت پر لگے پھل (تر کھجور) کے بدلے توڑی ہوئی کھجور کا اندازہ لگا کر دیدے، یہ ضرورت کے تحت خاص اجازت ہے۔ عام حالات میں اس طرح کی بیع جائز نہیں۔
قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4536 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4536
اردو حاشہ:
(1) تازہ اور خشک کھجور کی آپس میں خرید و فروخت ممنوع ہے کیونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جائے گی اور ہم جنس چیز میں کمی بیشی جائز نہیں۔ ہاں بیع عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور کے ساتھ سودا کرنا درست ہے، اس لیے کہ اس میں فریقین، یعنی عطیہ دینے اور قبول کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ عطیہ کرنے والے، عطیہ نہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
(2) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب ایک ہی جنس کا تازہ پھل خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتا ہو تو اس جنس کے خشک اور تر (تازہ) پھل کی باہمی بیع حرام ہے اگر چہ سودا کرتے وقت دونوں (پھل) وزن اور کیل (ماپ) میں برابر ہی ہوں۔ اس کی وجہ یہ کہ ہے تساوی، یعنی باہمی برابری کا اعتبار اس وقت معبتر اور صحیح ہوتا ہے جب وہ اشیاء حالت کمال کو پہنچ کر بھی برابر ہی رہیں اور ادھر یہ بات نہیں کیونکہ کھجور جب خشک ہو جاتی ہے تو اس کا وزن بہر صورت تازہ حالت کی نسبت کم ہو جاتا ہے اور پھر اس کا تعین بھی نا ممکن ہے کہ وزن کتنا کم ہوتا ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وزن اور ماپ برابر برابر ہونے کی صورت میں خشک اور تازہ کھجور کے باہمی سودے کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ صاحبین (امام صاحب کے شاگردان امام محمد بن حسن اور امام ابو یوسف اس مسئلے میں اپنے استاد محترم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مما نعت کی بابت وارد صحیح احادیث کی بنیاد پر انھوں نے حدیث رسول کو قبول اور اپنے استاد صاحب کی بات کو رد کر دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخيرة العقبى شرح سنن النسائي للأتيوبي:275/34)
(3) اس قسم کی بیع کو مزابنہ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماََ تو منع ہے مگر عریہ (عطیہ میں دیے گئے درخت) میں غرباء کی سہولت کے لیے رخصت دی گئی ہے جیسا کہ تفصیل فائدہ نمبرا میں بیان ہو چکی ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 3910)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4536