سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
29. بَابُ : شِرَاءِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا
باب: پھل کو پکنے سے پہلے اس شرط پر خریدنا کہ وہ اسے فوراً توڑ لے اور اسے پکنے کے وقت تک درخت پر باقی نہ رکھے۔
حدیث نمبر: 4530
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِم , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تُزْهِيَ" , قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا تُزْهِيَ؟ , قَالَ:" حَتَّى تَحْمَرَّ" , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ إِنْ مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ فَبِمَ يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہو جائیں، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ خوش رنگ ہونا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہاں تک کہ لال ہو جائیں“ اور فرمایا: ”دیکھو! اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (پکنے سے پہلے گر جائیں) تو تم میں کوئی اپنے بھائی کا مال کس چیز کے بدلے لے گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 58 (1488)، البیوع 87، 3198، 2208)، صحیح مسلم/البیوع 24 (المساقاة3) (1555)، (تحفة الأشراف: 733)، سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2217)، موطا امام مالک/البیوع 8 (11)، مسند احمد (3/115) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب خریدار سے توڑنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو، اگر فوری طور پر توڑ لینے کی شرط لگائی ہو تو اب یہ خریدار کی وجہ سے ہے کہ وہی اپنی قیمت کے بدلے اسی سودے پر راضی ہو گیا۔ اب بیچنے والے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور نہ ہی پھلوں کے کسی آفت کے شکار ہونے کا خطرہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4530 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4530
اردو حاشہ:
(1) اس باب سے مًلف رحمہ اللہ کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ فوراََ کاٹ لینے کی شرط پر، پکنے سے پہلے پھلوں کی خرید صفروخت جائز ہے لیکن اس صورت میں جب اس سے انتفاع ممکن ہو۔ امام شافعی،احمد اور جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔ ہمارے ہاں عموما اچار کےلیے آم پکنے سے پہلے کاٹ لیے جاتے ہیں۔
(2) ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ لوگ اپنے باغ کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دیتے ہیں تو یہ عمل اس حدیث کی رو ناجائز اور حرام ہے۔ جب موجود پھل، جو ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہوا، اس کی خرید و فروخت ممنوع ہے تو آئندہ سال یا کئی سالوں کا ٹھیکہ، جو کہ بالکل معدوم پھلوں کا ہوتا ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس ممانعت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس میں نرا دھوکا ہی دھوکا ہے، نیز یہ مجہول چیز کی بیع ہے جو کہ شرعاََ ناجائز ہے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ یہ ایک ایسی چیز کی بیع ہے جو بیچنے والے کے پاس نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: [لا تبعْ ما ليسَ عندكَ] ”جو چیز تیرے پاس نہیں وہ مت بیچ۔“(جامع الترمذي، البيوع،باب، ما جاء في كراهية بيع ما ليس عنده حديث:1232وسسن النسائي، البيوع، باب بيع ما ليس عند البائع، حديث: 4617)
(3) ”سرخ ہو جائیں“ یعنی پھل رنگ بدلنا شروع کر دیں، خواہ وہ سرخ ہونے لگیں یا زرد۔ اس سے معلوم ہوا کہ پکنے سے مراد مکمل پکنا نہیں بلکہ آفت سے محفوظ ہونا ہے ورنہ صرف رنگ بدلنے سے تو پھل مکمل پک نہیں جاتا۔ ہاں، پکنا شروع ہو جاتا ہے۔ گویا پکنے کا آغاز کافی ہے۔
(4) ”کس بنا پر رقم لے گا؟“ گویا اگر اس نے فوراََ پھل کاٹ لینا ہو تو رقم لے سکتا ہے کیونکہ آپ نے پھل پکنے سے رک جانے کی صورت میں رقم لینے سے روکا ہے۔ اگر فورََا کاٹ لیے جائیں تو پکنے کا مسئلہ ہی نہیں بنتا۔ باب پر اسی استدلال ہے اور یہی صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4530