Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
14. بَابُ هِبَةِ الرَّجُلِ لاِمْرَأَتِهِ وَالْمَرْأَةِ لِزَوْجِهَا:
باب: خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو کچھ ہبہ کر دینا۔
حدیث نمبر: 2589
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَقِيءُ، ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا ہبہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر چاٹ جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2589 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2589  
حدیث حاشیہ:
امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے اور ہبہ میں رجوع ناجائز رکھا ہے۔
صرف باپ کو اس ہبہ میں رجوع جائز رکھا ہے جووہ اپنی اولاد کو کرے۔
بدلیل دوسری حدیث کے جو اوپر گزر چکی اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے اگر اجنبی شخص کو کچھ ہبہ کرے تو اس میں رجوع جائز رکھا ہے جب تک وہ شے موہوب اپنے حال پر باقی ہو اور اس کا عوض نہ ملا ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2589   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2589  
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ذکر کردہ مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ دے کر واپس لینا حرام ہے کیونکہ ہبہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں، تاہم کوئی شرعی سبب ہو تو واپس لیا جا سکتا ہے، مثلاً:
باپ نے صرف ایک بیٹے کو ہبہ دیا دوسروں کو نظرانداز کر دیا تو اسے چاہیے کہ اپنا ہبہ واپس لے لے۔
حدیث میں ہے:
آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے، ہاں والد اپنی اولاد کو دیا ہوا عطیہ واپس لینے کا مجاز ہے۔
(سنن أبی داود، البیوع، حدیث: 3539) (2)
واضح رہے کہ جس طرح تحفہ واپس لینا حرام ہے اسی طرح کسی شرعی رکاوٹ کے بغیر واپس کرنا بھی مکروہ عمل ہے۔
شرعی رکاوٹوں میں اہل اختیار کو مائل کرنے کے لیے ہدیہ دینا، کاہن کی شیرینی، زانیہ کی اجرت یا کسی حرام چیز سے دیا ہوا ہدیہ شامل ہے، اسے واپس کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ محرم رشتہ داروں کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ انہیں دیا ہوا عطیہ واپس نہیں لیا جائے گا۔
(المستدرك للحاکم: 2/52)
یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2589   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 789  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہبہ کر کے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو خود قے کرتا ہے اور پھر اسے کھا لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ہمارے لیے اس سے بری مثال اور کوئی نہیں کہ جو شخص اپنے ہبہ کو دے کر واپس لیتا ہے وہ اس کتے کی مانند ہے جو خود ہی قے کرتا ہے اور پھر اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 789»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة الرجل لامرأته والمرأة لزوجها، حديث:2589، ومسلم، الهبات، باب تحريم الرجوع في الصدقة بعد القبض، حديث:1622.»
تشریح:
یہ حدیث ہبہ کردہ چیز کو واپس لینے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ البتہ والد اپنی اولاد کو دیے ہوئے ہبہ کے بارے میں اس سے مستثنیٰ ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں موجود ہے۔
مگر احناف کا مذہب یہ ہے کہ ہبہ کردہ چیز کو واپس لینا حلال ہے اور بعض احناف نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کَالْکَلْبِ… اس کی عدم حرمت پر دلالت کرتا ہے‘ اس لیے کہ کتا تو غیر مکلف ہے اور اس کی اپنی قے اس کے لیے حرام نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ جب کتا غیر مکلف ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس کی قے اس کے لیے حلال ہے یا حرام کیونکہ تحلیل و تحریم ان فروع میں سے ہے جس کا کسی کو مکلف بنایا گیا ہو جیسا کہ شجر و حجر (درخت اور پتھر) کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ اندھا یا بینا ہے‘ اس لیے کہ وہ اندھے پن اور بصارت کا محل ہی نہیں‘ لہٰذا اس حدیث میں تشبیہ‘ تحلیل یا تحریم کے اعتبار سے نہیں ہے۔
اور جب یہ تشبیہ‘ تحلیل و تحریم کے اعتبار سے نہیں ہے تو پھر یہ تحلیل و تحریم کے لیے سرے سے دلیل ہی نہیں بن سکتی۔
تحریم تو نص صریح سے ثابت ہے‘ اس لیے اسی کو دلیل بنانا چاہیے۔
اور جہاں تک تشبیہ کا تعلق ہے تو اس سے مقصود اس حرام فعل کی قباحت بیان کرنا‘ اس سے نفرت دلانا‘ اس کی شدید خباثت کا اظہار کرنا اور بدہیبت منظر کی صورت پیش کرنا ہے۔
افسوس! انسان کیسے پسند کرے گا کہ وہ کتے کے درجہ تک پہنچ جائے‘ پھر اس درجہ تک اتر جائے کہ پہلے قے کرے اور پھر اپنی قے چاٹ لے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 789   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2385  
´ہبہ کر کے واپس لینے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہبہ کر کے واپس لینے والا قے کر کے چاٹنے والے کے مانند ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2385]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہبہ کا مطلب کسی کو کوئی چیز بلامعاوضہ دے دینا ہے۔
اس کامقصد محض اللہ کی رضا کاحصول اورایک مومن سےحسن سلوک ہوتا ہے لہٰذا اسےواپس لینا اپنی نیکی کالعدم کرنے کےبرابر ہے۔
اور حان بوجھ کرنیکی ضائع کرنا بہت بری بات ہے۔

(2)
ہبہ کا ایک فائدہ مسلمانوں کی باہمی محبت واحترام میں اضافہ بھی ہے۔
ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے سے نہ صرف یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے بلکہ باہمی محبت واحترام میں بھی کمی آ جاتی ہے اس طرح فائدے سے نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔

(3)
کتےکےعمل سےتشبیہ دینے کا مقصد اس کام سےنفرت دلانا ہے۔

(4)
والد اولاد کوعطیہ دے کر واپس لےسکتا ہے کیونکہ اولاد کی ملکیت اس کی اپنی ملکیت کےحکم میں ہے۔
دیکھے:
(حدیث: 2377)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2385   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2391  
´صدقہ دے کر واپس لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صدقہ دے کر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال کتے کی ہے جو قے کرتا ہے پھر لوٹ کر اس کو کھاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2391]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صدقہ کرنا بہت بڑی نیکی ہےاورصدقہ کرکے واپس لینا اسے کالعدم کرنے کے مترادف ہے اوراپنی نیکی ضائع کرنا بہت بری بات ہے۔

(2)
  کتےسے تشبیہ دینے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بہت براکام ہے، اس لیے اس سے مکمل پرہیز کرنا چاہیئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2391   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1298  
´ہبہ کو واپس لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1298]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت وقباحت واضح ہوتی ہے،
ایک تو ایسے شخص کو کُتے سے تشبیہ دی گئی ہے،
دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیرکیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1298   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:540  
540- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ہمارے لئے بری مثال مناسب نہیں ہے، اپنے ہبہ کو دوبارہ لینے والا اس کتے کی مانند ہے، جو اپنی قئے کو دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:540]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تحفہ دے کر واپس نہیں لینا چاہیے تحفہ واپس لینا حرام ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ہد یہ واپس لینے والا اس طرح ہے جیسے خود قے کر کے اسے چاٹ جائے [صحيح البخاري: 2621]
اپنی قے کو چاٹنا حرام ہے لہٰذا ہبہ واپس لینا بھی حرام ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 540   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4176  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہبہ میں رجوع کرنے والا، اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے پھر اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4176]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جمہور فقہائے امت کے نزدیک صدقہ اور ہبہ کا ایک ہی حکم ہے،
دونوں میں رجوع کرنا جائز نہیں ہے،
ہاں صحیح حدیث کی بنا پر،
ھبہ کی صورت میں باپ مستثنیٰ ہے،
وہ اولاد کو ھبہ کردہ چیز واپس لے سکتا ہے،
احناف صدقہ میں جمہور کے ساتھ ہیں اور ھبہ میں،
جمہور کے مخالف ہیں،
احناف کے نزدیک اگر ھبہ کسی رشتہ دار کو کیا ہے،
وہ اولاد ہو یا کوئی اور رشتہ دار،
تو پھر رجوع نہیں ہو سکتا،
اگر کسی اجنبی کو کوئی چیز ھبہ کی ہے اور اس نے بدلہ میں کوئی چیز نہیں دی،
اور ھبہ کردہ چیز موجود ہے،
تو پھر وہ چیز واپس لے سکتا ہے،
اگرچہ یہ دیانۃ مکروہ ہے،
لیکن اگر جس اجنبی کو چیز ھبہ کی،
وہ واپس کرنے پر راضی ہو یا قاضی یہ فیصلہ دے دے تو پھر ناپسندیدہ ہونے کے باوجود جائز ہے،
حالانکہ کتے کی حرکت سے تشبیہ دینے کا مقصد،
اس کی انتہائی قباحت کو بیان کرنا ہے،
جس طرح نماز میں شدید نفرت و حرمت کا اظہار کے لیے،
کتے کی طرح ٹھونگیں مارنے یا کتے کی طرح بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے،
نیز صدقہ کی واپسی میں بھی تو یہی تشبیہ دی گئی ہے،
اس کے باوجود احناف کے نزدیک صدقہ کی واپسی جائز نہیں ہے،
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو واپس لینے کی اجازت دی ہے اور احناف کے نزدیک وہ واپس نہیں لے سکتا،
اس کے برعکس اجنبی واپس لے سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4176   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2621  
2621. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہبہ کر کے اسے واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کوئی قے کر کے اسے چاٹ لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2621]
حدیث حاشیہ:
ظاہر حدیث سے یہی نکلتا ہے کہ ہبہ اور صدقہ میں رجوع حرام ہے لیکن دوسری حدیث کی رو سے وہ ہبہ مستثنیٰ ہے جو باپ اپنی اولاد کو کرے، اس میں رجوع کرنا جائز ہے۔
امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کا یہی فتویٰ ہے اور امام ابوحنیفہ ؒنے رجوع کو مکروہ کہا ہے، حرام نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2621   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6975  
6975. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6975]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ موہوب لہ کا قبضہ ہو جانے کے بعد پھر ہبہ میں رجوع کرنا حرام ہے اور ناجائز ہے اور جب رجوع ناجائز ہوا تو موہوب لہ پر ایک سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوگی۔
اہل حدیث کا یہی قول ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب رجوع جائز ہوا گو مکروہ ان کے نزدیک بھی ہے تو نہ واہب پر زکوٰۃ ہوگی نہ موہوب لہ پر اور یہ حیلہ کر کے دونوں زکوٰۃ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6975   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2622  
2622. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ہمارے لیے یہ بری مثال نہیں ہونی چاہیے کہ جو کوئی ہبہ کر کے اسے واپس لے وہ اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹ لیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2622]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہبہ اور صدقہ دے کر واپس لینا حرام ہے جیسا کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں:
ہم تو قے کو حرام ہی خیال کرتے ہیں۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3538)
البتہ ایک حدیث کے مطابق وہ ہبہ اس وعید سے مستثنیٰ ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی کو عطیہ دے کر اسے واپس نہ لے، ہاں والد اپنی اولاد کو عطیہ دے کر واپس لینے کا مجاز ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3539) (2)
مذکورہ احادیث میں نہ صرف ہبہ واپس لینے کا حکم بیان ہوا ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس فعل کی خرابی اور گندگی کو بھی بیان کیا ہے۔
معاشی اعتبار سے واپسی میں یہ پہلو نمایاں ہے کہ اس سے حقیقی نفع اٹھانا ممکن نہیں رہتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2622   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6975  
6975. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6975]
حدیث حاشیہ:

کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا جائز نہیں چنانچہ ایک روایت میں ہے۔
"ہدیہ واپس لینے والا اس طرح ہے جیسے خود قے کر کے اسے چاٹ جائے۔
" (صحیح البخاري، الھبة حدیث: 2621)
اپنی قے کو چاٹنا حرام ہے لہٰذا ہبہ واپس لینا بھی حرام ہے۔
اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے ہاں والد جو اپنے بچے کو عطیہ دیتا ہے وہ اس سے واپس لے سکتا ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث 3539)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث میں کتے کی حالت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں ہے لیکن حیلہ سازوں کی چابکدستی ملاحظہ فرمائیں ان کے نزدیک کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ ہدیہ قبول کرنے والے کے ہاں سال بھر پڑا رہے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آدمی اپنے ہبے کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا بدلہ نہ دیا جائے۔
(سنن ابن ماجة، الهبات حدیث: 2387)
یہ حدیث قابل حجت نہیں کیونکہ اس میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہے نیز اس میں عمروبن دینار راوی ہے جس کا سماع حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت نہیں۔
اگر صحیح بھی ہو تو اس سے مراد وہ ہبہ ہے جو معاوضہ لینے کی غرض سے دیا گیا ہو مطلق ہبہ کے متعلق واپس لینے کا موقف اس حدیث سے ثابت نہیں ہو تا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح فرمایا ہے کہ ان حیلہ سازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی مخالفت کی ہے جو دین اسلام میں انتہائی خطرناک حرکت ہے۔
حیلہ سازوں نے دوسری نا زیبا حرکت یہ کی ہے کہ حیلے کے ذریعے سے زکاۃ بھی ساقط کر دی۔
حالانکہ جس شخص کو ہبہ کیا گیا تھا وہ اس نے قبول کرنے کے بعد سال بھر ملکیت میں رکھا اس دوران میں اس پر زکاۃ فرض ہو چکی تھی پھر ہبہ کرنے والے کے رجوع کی وجہ سے اس کی ملکیت روز اول سے ظاہر ہو گئی، لہٰذا اس پر بھی زکاۃ فرض ہونی چاہیے تھی لیکن حیلہ سازوں نے دونوں ہی سے زکاۃ ساقط کر دی اور زکاۃ فریضۃ اسلام ہے جس کا ساقط کرنا کسی صورت میں جائز نہیں پھر ان حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی کہ اگر کسی نے یہ حماقت کر لی ہے تو اسے بہر حال نافذ ہونا چاہیے لیکن ہمارا موقف ہے کہ جو امر جائز نہیں اس کا نفاذ کیونکر ہو سکتا ہے۔

بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں اعتراض اپنی جگہ پر ناقابل تردید ہیں ایک تو حدیث کی مخالفت کرنا اور دوسرا فریضہ اسلام زکاۃ کو حیلے سے ساقط کرنا۔
اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔
آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6975