سنن نسائي
كتاب الضحايا
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
32. بَابُ : ذَبْحِ الرَّجُلِ غَيْرَ أُضْحِيَتِهِ
باب: دوسروں کی قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4424
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحَرَ بَعْضَ بُدْنِهِ بِيَدِهِ، وَنَحَرَ بَعْضَهَا غَيْرُهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنی بعض اونٹنیوں کو نحر کیا اور بعض کو دوسروں نے نحر کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2626) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4424 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4424
اردو حاشہ:
یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ آپ نے سو اونٹ قربانی کیے تھے۔ ان میں سے تریسٹھ (63) آپ نے اپنے دست مبارک سے نحر کیے اور باقی سینتیس (37) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کا نائب بن کر نحر کیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4424
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2800
´حاجی کا ہدی کو اپنے ساتھ لے جانے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ حج میں ہدی لے کر گئے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2800]
اردو حاشہ:
(1) قربانی کے جانور جو حرم کو لے جائے جائیں، انھیں قلادہ ڈالا جائے۔ اونٹ ہوں تو انھیں اشعار بھی کیا جائے اور انھیں ہانک کر لے جایا جائے۔ سواری والے جانور پیچھے پیچھے چلیں۔ اس میں قربانی کے جانوروں کا احترام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا اظہار ہے، نیز وہ اپنی مرضی کے مطابق چلیں گے۔ انھیں پیچھے پیچھے بھاگنا نہیں پڑے گا۔
(2) باب کے یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں: ”قربانی کے جانور ساتھ لے کر جانا“ تو پھر باب کا مقصد یہ ہوگا کہ قربانی کا جانور ساتھ لے جانا افضل ہے بجائے وہاں جا کر خریدنے کے کیونکہ اس میں مشقت بھی زیادہ ہے اور شعائر اللہ کا اظہار بھی ہے۔ سنت رسول یہی ہے، مگر چونکہ آپ کے سامنے کثیر صحابہ اتنی مشقت اور اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2800
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 815
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کتنے حج کئے؟`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 815]
اردو حاشہ:
1؎:
ابن ماجہ کے یہاں ”عبدالرحمن بن داود“ نے ”زید بن حباب“ کی متابعت کی ہے،
نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت شاہد بھی موجود ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 815
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1306
1306- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی تھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے شریف لائے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قر بانی کے ایک تہائی حصے میں شریک کرلیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 66 اونٹ خود نحر کیے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ باقی 34 اونٹ قربان کردیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت ہر اونٹ کا کچھ حصہ لے کر اسے پکایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گوشت کھایا اور شوربہ پیا۔ سفیان کہتے ہیں: اہل عرب اس لفظ کا تلفظ یوں کرتے ہیں: «وَحَسَوَا» ۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1306]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قربانی کی زیادہ مقدار کوئی مقرر نہیں ہے، جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دے، اتنے ہی جانور ذبح کیے جا سکتے ہیں، ہر انسان کو اپنا جانور خود ذبح کرنا چاہیے، لیکن جانور ذبح کرنے میں اپنا نائب مقرر کرنا بھی درست ہے، اور جن جانوروں کی قربانی کی جائے، ہر ایک سے کچھ کھانا بھی مسنون ہے۔
موجودہ دور میں حاجی حضرات کو قربانی کا گوشت نہیں دیا جاتا، بلکہ ان سے پیسے لے لیے جاتے ہیں، اور ان قربانیوں کا کسی کو علم نہیں ہوتا کہ میرا جانور کس طرح کا ہے، وغیرہ وغیرہ، حاجیوں کو عید الاضحی کے دن بھی بازار سے گوشت خریدنا پڑتا ہے، یہ صورت حال محل نظر ہے، اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مملکت سعودیہ کی خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آمین، انہوں نے واقعی خادم الحرمین ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔ فجزاهم الله خيرا الجزاء
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1305