Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
35. بَابُ : مَيْتَةِ الْبَحْرِ
باب: مردہ سمندری جانوروں کی حلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4356
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟، قَالَ:" لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، فَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا بِحُوتٍ قَذَفَهُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سریہ فوجی ٹولی میں) بھیجا، ہم تین سو تھے، ہم اپنا زاد سفر اپنی گردنوں پر لیے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کے حصے میں روزانہ ایک کھجور آتی تھی، عرض کیا گیا: ابوعبداللہ! اتنی سی کھجور آدمی کا کیا بھلا کرے گی؟ انہوں نے کہا: ہمیں اس کا فائدہ تب معلوم ہوا جب ہم نے اسے بھی ختم کر دیا، پھر ہم سمندر پر گئے، دیکھا کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندر نے باہر پھینک دیا ہے، تو ہم نے اسے اٹھارہ دن تک کھایا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 1 (2483)، الجہاد 124 (2983)، المغازي 65 (3463)، الصید 12 (5494)، سنن الترمذی/القیامة 34 (2475)، سنن ابن ماجہ/الزہد12(4159)، (تحفة الأشراف: 3125)، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ10(24) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4356 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4356  
اردو حاشہ:
اس حدیث کی مزید تفصیل آئندہ حدیث میں آرہی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مچھلی حلال ہے، خواہ وہ شکار کی گئی ہو یا اسے سمندر کی لہروں نے باہر پھینک دیا ہو۔ یا وہ سمندر پر بے جان تیر رہی ہو۔ کیونکہ سمندر عموماً بے جان مچھلی کو باہر ہی پھینک دیتا ہے۔ زندہ مچھلیاں تو پانی کے ساتھ واپس چلی جاتی ہیں، پھر اتنی بڑی مچھلی کہ جسے تین سو آدمی اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ہوں اور وہ پھر بھی ختم نہ ہوئی ہو، زندہ حالت میں ساحل کے قریب نہیں آتی بلکہ گہرے سمندر میں رہتی ہے۔ لازماً اس کی لاش پانی پر تیرتی ہوئی کنارے پر آئی ہوگی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4356