سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
33. بَابُ : إِبَاحَةِ أَكْلِ لُحُومِ الدَّجَاجِ
باب: مرغی کے گوشت کے حلال ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4351
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى أُتِيَ بِدَجَاجَةٍ، فَتَنَحَّى رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهَا تَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: ادْنُ فَكُلْ، فَإِنِّي" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ"، وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ.
زہدم سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مرغی لائی گئی تو لوگوں میں سے ایک شخص وہاں سے ہٹ گیا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ وہ بولا: میں نے اسے دیکھا کہ وہ کوئی چیز کھا رہی تھی تو میں نے اس کو گندہ سمجھا اور قسم کھا لی کہ میں اسے نہیں کھاؤں گا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3810 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4351 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4351
اردو حاشہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے خود مرغ کا گوشت کھایا ہے، اس لیے اس کا گوشت کھانے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ، اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کے استعمال سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس کو تقویٰ کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کو ایسا ”اندھا“ تقویٰ قطعاً مطلوب نہیں جو اسوۂ رسول ﷺ سے ٹکراتا ہو، بلکہ اصل تقویٰ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہو کر، کما حقہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔
(2) اگر کوئی جانور یا پرندہ اس قدر زیادہ گدنگی کھاتا ہو کہ اس کا اثر اس جانور کے دودھ اور گوشت میں محسوس ہو تو ایسا جانور اس وقت تک استعمال میں نہ لایا جائے جب تک اس سے گندگی کا اثر (بو وغیرہ) زائل نہ ہو جائے۔ جب گندگی کا اثر زائل ہو جائے تو ایسے جانور یا پرندے کا گوشت اور دودھ، بلا تردد، استعمال کرنا مباح اور جائز ہے۔ ہاں، البتہ جو جانور تھوڑی بہت گندگی کھاتے رہتے ہوں اور اس کا اثر ان میں نہ ہو تو اس کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا عمل اس کی واضح دلیل ہے۔
(3) صاحب طعام کو چاہیے کہ آنے والے شخص کو کھانا کھانے کی دعوت دے، اسے اپنے قریب بٹھائے اور کھانا پیش کرے، خواہ کھانا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جب زیادہ لوگ کھانا کھائیں گے تو اس میں زیادہ برکت ہوگی، اس لیے کہ اجتماعی طور پر کھانا کھانے میں برکت ہی ہوتی ہے۔
(4) ”میں نے اسے“ مراد وہ خاص مرغ نہیں جو بھون کر لایا گیا تھا بلکہ عام مراد ہے، یعنی مرغ گندگی کھاتے ہیں، لہٰذا میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مرغ کچھ نہ کچھ گندگی کھاتے ہی ہیں۔ اس کے باوجود میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ معلوم ہوا، اتنی گندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر کوئی جانور اس قدر گندگی کھاتا ہو کہ اس کے گوشت یا دودھ میں گندگی کا رنگ، بو یا ذائقہ محسوس ہو تو پھر اس جانور کا گوشت کھانا یا اس کا دودھ پینا حرام ہے۔ اس سے کم میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4351