أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: أَصَابَ حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَأَتَى بِهِ أَصْحَابَهُ , وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَهُوَ حَلالٌ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ لَوْ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَسَأَلْنَاهُ؟، فَقَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتُمْ"، فَقَالَ لَنَا:" هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ"؟، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:" فَاهْدُوا لَنَا"، فَأَتَيْنَاهُ مِنْهُ فَأَكَلَ مِنْهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4350
اردو حاشہ:
غیر محرم کا اپنے لیے کیا ہوا شکار محرم کے لیے کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس نے کوئی تعاون نہ کیا ہو حتیٰ کہ اشارہ تک نہ کیا ہو، نیز شکار کرتے وقت غیر محرم کی نیت محرمین کے لیے شکار کی نہ ہو۔ بلکہ وہ شکار اپنے لیے کرے، پھر بے شک وہ اس میں سے کچھ گوشت کسی محرم کو دے دے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4350
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 311
´حالت احرام والوں کے لئے شکار کیا ہوا جانور بطور تحفہ`
«. . . 426- وعن أبى النضر عن نافع مولى أبى قتادة الأنصاري عن أبى قتادة: أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا ببعض طريق مكة تخلف مع أصحاب له محرمين وهو غير محرم. فرأى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه، ثم سأل أصحابه أن يناولوه سوطه فأبوا، فسألهم رمحه فأبوا، فأخذ، ثم شد على الحمار فقتله، فأكل بعض أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وأبى بعضهم، فلما أدركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سألوه عن ذلك، فقال: ”إنما هي طعمة أطعمكموها الله.“ . . .»
”. . . سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم مکے کے بعض راستے میں تھے تو وہ بعض ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ پھر انہوں نے ایک گورخر (جنگلی حلال جانور) دیکھا تو اپنے گھوڑے پر چڑھ گئے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں مگر ساتھیوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ ان کا نیزہ انہیں دے دیں مگر ساتھیوں نے (اس سے بھی) انکار کر دیا تو انہوں نے خود پکڑ لیا پھر گورخر پر حملہ کر کے اسے شکار کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے اس گورخر کے گوشت میں سے کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کر دیا پھر جب ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (شکار) کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (حلال) کھانا ہے جو تمہیں اللہ نے کھلایا ہے۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 311]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2914، ومسلم 57/1196، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ حالت احرام میں شکار کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص شکار کرے جو احرام میں نہیں تو اس کا کیا ہوا شکار ان لوگوں کے لئے بھی حلال ہے جو حالت احرام میں ہیں۔ یاد رہے کہ حالتِ احرام کے علاوہ شکار مطلقاً حلال ہے اِلا یہ کہ کوئی دلیل اسے خاص کر دے۔
➋ مشتبہ چیزوں سے بچنا چاہئے۔
➌ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حالتِ احرام میں ہرن کے بھونے ہوئے گوشت سے ناشتہ کرتے تھے۔ [الموطأ 1/350 ح795 وسنده صحيح]
➍ جو چیز منع ہے اس میں کسی شخص سے تعاون نہیں کرنا چاہئے مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ سگریٹ یا نسوار لے آؤ تو اسے یہ چیزیں لاکر نہیں دینی چاہئیں۔ یہی حکم دوسری ممنوعہ چیزوں کا بھی ہے۔
➎ اتباع سنت میں صحابہ کرام ہر وقت مستعد و ثابت قدم رہتے تھے۔
➏ حالت احرام میں گوشت خرید کر کھانا جائز ہے۔
➐ اگر کسی بات میں شک ہو تو کتاب و سنت کی طرف رجوع کر کے تصدیق کر لینی چاہیے۔
➑ نیز دیکھئے: حدیث [البخاري 5491، ومسلم 58/1196]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 426
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 599
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کے جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں جبکہ انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا اور وہ احرام والے تھے ”کیا تم میں سے کسی نے اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا تھا؟“ انہوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پس کھاؤ اس کے گوشت سے جو بچ گیا ہے۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 599]
599 لغوی تشریح:
«فِي فِصَّةِ صَيْدِهِ الْحِمَارِ الْوَحْشِي» جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے، مگر اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا، البتہ ان کے ساتھی احرام کی حالت میں تھے۔ جب انہوں نے وحشی گدھا دیکھا تو اسے نظر انداز کر دیا۔ جب ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ساتھیوں سے کہا کہ میری لاٹھی پکڑاؤ، انہوں نے اس سے انکار کر دیا، پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زخمی کر دیا۔ ذبح کر کے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا مگر پھر وہ پریشان ہو گئے۔ بالآخر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سارا ماجرا عرض کیا جس کا جواب اس روایت میں مذکور ہے۔
➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنگلی جانور کا شکار جب غیر محرم کرے اور محرم نے اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کی ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اشارہ ہی کیا ہو تو محرم بھی اس میں سے کھا سکتا ہے مگر اس بارے میں مزید تفصیل ہے جو آئندہ حدیث کے تحت آرہی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 599
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2827
´جب محرم شکار کو دیکھ کر ہنسے اور غیر محرم تاڑ جائے اور شکار کر ڈالے تو کیا محرم اسے کھائے یا نہ کھائے؟`
عبداللہ بن ابی قتادہ کہتے ہیں کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے تو ان کے ساتھیوں نے احرام باندھ لیا لیکن انہوں نے نہیں باندھا، (ان کا بیان ہے) کہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ تھا کہ اسی دوران ہمارے اصحاب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسے، میں نے نظر اٹھائی تو اچانک ایک نیل گائے مجھے دکھائی پڑا، میں نے اسے نیزہ مارا اور (اسے پکڑنے اور ذبح کرنے کے لیے) ان س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2827]
اردو حاشہ:
(1) اگر محرم شکاری کے ساتھ کوئی تعاون نہ کرے اور اسے مطلع کرنے کے لیے نہ ہنسے بلکہ اتفاقاً شکار دیکھ کر ہنس پڑے اور اس سے شکاری کو اندازہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا شکار جو حلال آدمی نے کیا ہو، محرم بھی کھا سکتے ہیں بشرطیکہ شکاری نے خاص ان کے لیے شکار نہ کیا ہو۔ (2) روایت تفصیلاً گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے حدیث: 2818۔ (3) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے احرام نہ باندھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس وقت تک مواقیت مقرر نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت حرم شروع ہونے سے پہلے پہلے کہیں سے بھی احرام باندھا جا سکتا تھا۔ میقات حجۃ الوداع میں مقرر ہوئے، مگر یہ وجہ اتنی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ وجہ تو سب کے لیے برابر تھی جبکہ دوسروں نے احرام باندھ رکھا تھا۔ لازماً کوئی اور وجہ تھی جس کا ذکر ہو چکا۔ واللہ اعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2827
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1823
1823. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ قاحہ میں تھے جو مدینہ سے تین منزل پر ہے۔ ہم میں سے بعض محرم تھے اور کچھ احرام کے بغیر تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا کہ وہ کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے نظر اٹھائی تو ایک گاؤخر کو دیکھا (میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا، نیزہ اور کوڑا ہاتھ میں لیا) تو مجھ سے کوڑا گرگیا (میں نے کہا مجھے کوڑا اٹھا دو) انھوں نے کہا: ہم بحالت احرام ہیں اس لیے ہم تیری مددنہیں کرسکتے، چنانچہ میں نے خود اس کو پکڑکر اٹھایا۔ پھر میں ٹیلے کے پیچھے سے گاؤخر کے پاس آیا اور اسے زخمی کردیا۔ جب میں اسے لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو ان میں سے کچھ نے کہا: اسے تناول کرو جبکہ بعض کہنے لگے۔ اسے نہ کھاؤ، اس لیے میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ہم سے کچھ آگے تھے۔ میں نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ” کھاؤ یہ حلال ہے۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1823]
حدیث حاشیہ:
ساتھیوں نے حضرت ابوقتادہ ؓ کا کوڑا اٹھانے میں بھی مدد نہ کی اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ حالت احرام میں کسی بھی غیر محرم شکاری کی بہ سلسلہ شکار کوئی مدد نہ کی جائے۔
اسی صورت میں اس شکار کا گوشت احرام والوں کو بھی کھانا درست ہے، اس سے حالت احرام کی روحانی اہمیت اور بھی ظاہر ہوتی ہے۔
آدمی محرم بننے کے بعد ایک خالص مخلص فقیر الی اللہ بن جاتا ہے پھر شکار یا اسکے متعلق اور اس سے اس کو کیا واسطہ۔
جو حج ایسے ہی نیک جذبات کے ساتھ ہوگا وہی حج مبرور ہے۔
نافع بن مرجس عبداللہ بن عمر ؓ کے آزاد کردہ ہیں۔
یہ دیلمی تھے اور اکابر تابعین میں سے ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری ؓ سے حدیث کی سماعت کی ہے۔
ان سے بہت سے اکابر علماءحدیث نے روایت کی ہے جن میں امام زہری، امام مالک بن انس شامل ہیں۔
حدیث کے بارے میں یہ بہت ہی مشہورشخص ہیں۔
نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں، جن کی روایت شک و شبہ سے بالا ہوتی ہے اور جن کی حدیث پر عمل کیا جاتا ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کا بڑا حصہ ان پر موقوف ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں کہ جب نافع کے واسطے سے ابن عمر ؓ کی حدیث سن لیتا ہوں تو کسی اور راوی سے سننے سے بے فکر ہو جاتا ہوں۔
117ھ میں وفات پائی سرجس میں سین مہملہ اول مفتوح راءساکن اور جیم مکسور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1823
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2854
2854. حضرت ابو قتادہ ؓسے روایت ہے کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے اور وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ (آپ سے) پیچھے رہ گئے۔ (ابو قتادہ ؓکے)دوسرے ساتھی تو محرم تھے لیکن انھوں نے خود احرام نہیں باندھا تھا۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے پہلے ایک گاؤخر دیکھا۔ انھوں نے دیکھتے ہی اسے چھوڑدیا لیکن قتادہ ؓ اسے دیکھتے ہی اپنے گھوڑے پر سوارہوئے جسے "جرادہ" کہا جاتا تھا انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: وہ اسے کوڑا پکڑائیں، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا، چنانچہ انھوں نے اسے خود پکڑا اور گاؤخر پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔ پھر انھوں نے خود بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا، پھر وہ پشیمان ہوئے۔ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے پوچھا: ” کیا اس کے گوشت میں سے تمھارے پاس کچھ بچا ہوا باقی ہے؟“ انھوں نے کہا: ہمارے پاس اس کی ایک ران باقی ہے۔ نبی ﷺ نے اسے لیا اور تناول فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2854]
حدیث حاشیہ:
گھوڑے کا نام جرادہ تھا‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2854
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5407
5407. سیدنا ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دن نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مقام پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ دیگر تمام صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنے جوتے گانٹھنے میں مصروف تھا انہوں نے مجھے گورخر کے متعلق کچھ نہ بتایا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں اس کی طرف دیکھ لوں اچانک میں ادھر متوجہ ہوا تو وہ مجھے نظر آ گیا۔ پھر میں اپنے گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہو گیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ نیچے بھول گیا میں نے ان سے کہا کہ مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو۔ انہوں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم اس(شکار کے) معاملے میں تمہاری کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ میں یہ سن کر غصے سے بھر گیا چنانچہ میں نے اتر کر یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5407]
حدیث حاشیہ:
گوشت چھری سے کاٹ کر کھانے کی ممانعت ایک حدیث میں ہے مگر ابو قتادہ نے کہا کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔
حافظ نے کہا اس کا ایک شاہد اور ہے جسے ترمذی نے صفوان بن امیہ سے نکالا کہ گوشت کو منہ سے نوچ کر کھاؤ وہ جلدی ہضم ہو گا۔
اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
مافي الباب یہ ہے کہ منہ سے نوچ کر کھانا اولیٰ ہوگا۔
میں (مولانا وحیدالزماں مرحوم)
کہتا ہوں جب گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا درست ہوا تو روٹی بھی چھری سے کاٹ کر کھانا درست ہوگی۔
اسی طرح کانٹے سے کھانا بھی درست ہو گا۔
اسی طرح چمچہ سے بھی اور جن لوگوں نے ان باتوں میں تشدد اور غلو کیا ہے اور ذرا ذرا سی باتوں پرمسلمانوں کو کافر بنایا ہے میں ان کا یہ تشدد ہرگز پسند نہیں کرتا۔
کافروں کی مشابہت کرنا تومنع ہے مگریہ وہی مشابہت ہے جو ان کے مذہب کی خاص نشانی ہو جیسے صلیب لگانا یا انگریزوں کی ٹوپی پہننا لیکن جب کسی کی نیت مشابہت کی نہ ہو، یہی لباس مسلمانوں میں بھی رائج ہومثلاً ترک یا ایران کے مسلمانوں میں تواس کی مشابہت میں داخل نہیں کر سکتے اورنہ ایسے کھانے پینے لباس کو فروعی باتوں کی وجہ سے مسلمان کے کفر کا فتویٰ دے سکتے ہیں (وحیدی)
مگر مسلمان کے لیے دیگر اقوام کی مخصوص عادات و غلط روایات سے بچنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5407
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2914
2914. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے یہاں تک کہ مکہ جانے والے ایک راستے میں اپنے محرم ساتھیوں سمیت آپ سے پیچھے رہ گئے جبکہ انھوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اسے کوڑا پکڑادیں۔ انھوں نے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے اس سے بھی انکار کردیا، تاہم انھوں نے خود نیزہ پکڑا اور گاؤخر پر حملہ کرکے اسے مار دیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ نے کھالیا اور کچھ نے انکار کردیا۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے تو انھوں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تورزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں دیا تھا۔“ زید بن اسلم سے روایت ہے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے ابوقتادہ سے گاوخر کے متعلق ابو نضر کی حدیث کی طرح بیان کیا، البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2914]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت ابو قتادہ ؓ کا نیزوں سے مسلح ہونا مذکور ہے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت کا مقصد یہ کہ مسلمان کے لئے یہ امر باعث فخر ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کا سپاہی ہے ہر حال میں سپاہیانہ زندگی گزارنا یہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔
صد افسوس کہ عام اہل اسلام بلکہ خواص تک ان حقائق اسلام سے حد درجہ غافل ہوگئے ہیں۔
علمائے ظواہر صرف فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے اور حقائق اسلام نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے جس کی سزا سارے مسلمان عام طور پر غلامانہ زندگی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
إلا من شاء اللہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2914
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1822
1822. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حدیبیہ کے سال نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ آپ کے تمام اصحاب نے احرام باندھ لیا مگر میں نے احرام نہ باندھا۔ پھر ہمیں خبر ملی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن موجود ہے، لہٰذا ہم ان کی طرف چل دیے۔ میرے ساتھیوں نےایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ ایک دوسرےکو دیکھ کر ہنسے۔ میں نے نظر اٹھائی تو اسے دیکھا، اس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا اور اسے زخمی کر کے گرالیا۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بالآخر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ سے جا ملا۔ ہمیں خوف تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پیچھےرہ جائیں گے اس لیے میں کبھی اپنے گھوڑےکو تیزچلاتا اور کبھی آہستہ چلاتا، بالآخرمیں آدھی رات کو بنو غفارکے ایک شخص سے ملا تو اس سے دریافت کیا کہ تونے رسول اللہ ﷺ کو کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ کو تعہن چشمےپر چھوڑاتھا اور آپ مقام سقیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1822]
حدیث حاشیہ:
(1)
محرم کے خود شکار کرنے پر پابندی ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون بھی نہیں کر سکتا حتی کہ وہ اس کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کر سکتا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تو آپ نے فرمایا:
” تم میں سے کسی نے اس کی طرف اشارہ تو نہیں کیا تھا؟“ انہوں نے کہا:
نہیں۔
اس پر آپ نے فرمایا:
”شکار کا بقیہ گوشت کھا لو“ (صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث: 1824) (2)
اس حدیث میں ہے کہ صحابۂ كرام ؓ جنگلی گدھا دیکھ کر ہنس پڑے۔
یہ ہنسنا اشارے کے لیے نہیں بلکہ اظہار تعجب کے طور پر تھا کہ ہم قدرت رکھنے کے باوجود احرام کی وجہ سے اسے شکار نہیں کر سکتے۔
(3)
امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شکار دیکھ کر اس طرح ہنس پڑنا اس کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے، اس لیے اگر شکار کے سلسلے میں محرم آدمی نے کسی غیر محرم سے کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو تو شکار کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شکار محرم کے لیے نہ کیا گیا ہو۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1822
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1823
1823. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ قاحہ میں تھے جو مدینہ سے تین منزل پر ہے۔ ہم میں سے بعض محرم تھے اور کچھ احرام کے بغیر تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا کہ وہ کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے نظر اٹھائی تو ایک گاؤخر کو دیکھا (میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا، نیزہ اور کوڑا ہاتھ میں لیا) تو مجھ سے کوڑا گرگیا (میں نے کہا مجھے کوڑا اٹھا دو) انھوں نے کہا: ہم بحالت احرام ہیں اس لیے ہم تیری مددنہیں کرسکتے، چنانچہ میں نے خود اس کو پکڑکر اٹھایا۔ پھر میں ٹیلے کے پیچھے سے گاؤخر کے پاس آیا اور اسے زخمی کردیا۔ جب میں اسے لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو ان میں سے کچھ نے کہا: اسے تناول کرو جبکہ بعض کہنے لگے۔ اسے نہ کھاؤ، اس لیے میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ہم سے کچھ آگے تھے۔ میں نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ” کھاؤ یہ حلال ہے۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1823]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جن چیزوں سے شکار کیا جاتا ہے ان کے ذریعے سے محرم کے لیے غیر محرم کی مدد کرنا جائز نہیں، البتہ جن سے شکار نہیں کیا جاتا ان سے مدد کی جا سکتی ہے۔
امام بخاری ؒ نے ان کی تردید فرمائی اور واضح کیا کہ ہر کام یا بات کے ذریعے سے مدد کرنا منع ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہ کی بلکہ صاف انکار کر دیا، پھر وہ خود گھوڑے سے اترے اور اپنا کوڑا اٹھایا۔
(2)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ساتھی کا کوڑا چھین کر لے گئے۔
اگر ایسی صورت ہو تو احرام والوں کے لیے شکار کا گوشت کھانا جائز ہے۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ساتھیوں کو شکار کا گوشت کھانے کے بعد شک پیدا ہوا۔
اسی طرح صحابہ کے کردار سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ شکار کے سلسلے میں محرم آدمی کسی غیر محرم کی مدد نہیں کر سکتا۔
(فتح الباري: 37/4)
واللہ أعلم۔
(3)
حضرت صالح بن کیسان مدینہ طیبہ میں رہتے تھے، وہ ایک دفعہ مکہ مکرمہ آئے تو عمرو بن دینار نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
جاؤ، ان سے تصدیق کرو۔
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2914
2914. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے یہاں تک کہ مکہ جانے والے ایک راستے میں اپنے محرم ساتھیوں سمیت آپ سے پیچھے رہ گئے جبکہ انھوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اسے کوڑا پکڑادیں۔ انھوں نے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے اس سے بھی انکار کردیا، تاہم انھوں نے خود نیزہ پکڑا اور گاؤخر پر حملہ کرکے اسے مار دیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ نے کھالیا اور کچھ نے انکار کردیا۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے تو انھوں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تورزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں دیا تھا۔“ زید بن اسلم سے روایت ہے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے ابوقتادہ سے گاوخر کے متعلق ابو نضر کی حدیث کی طرح بیان کیا، البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2914]
حدیث حاشیہ:
1۔
احرام والا آدمی خود شکار نہیں کر سکتا اور نہ کسی شکاری آدمی کا تعاون ہی کر سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓنے اپنے ساتھیوں سے اپنا نیزہ پکڑنا چاہا، لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ ایسا کرنے سے احرام والے کا تعاون شامل ہو جاتا ہےجبکہ محرم شکار کی طرف اشارہ بھی نہیں کر سکتا۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوقتادہ ؓ نیزے سے مسلح تھے۔
امام بخاری ؓ نے اس سے نیزے کے استعمال کا جواز ثابت کیا ہے لیکن اس حدیث سے نیزے کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی بلکہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت میں اس کی فضیلت مذکورہ ہے واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2914
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5407
5407. سیدنا ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دن نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مقام پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ دیگر تمام صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنے جوتے گانٹھنے میں مصروف تھا انہوں نے مجھے گورخر کے متعلق کچھ نہ بتایا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں اس کی طرف دیکھ لوں اچانک میں ادھر متوجہ ہوا تو وہ مجھے نظر آ گیا۔ پھر میں اپنے گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہو گیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ نیچے بھول گیا میں نے ان سے کہا کہ مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو۔ انہوں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم اس(شکار کے) معاملے میں تمہاری کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ میں یہ سن کر غصے سے بھر گیا چنانچہ میں نے اتر کر یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5407]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ چھری کانٹا استعمال کیے بغیر گوشت کو منہ سے نوچ نوچ کر کھانا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے جلدی ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
(2)
اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے گورخر کا شانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔
اس کے لیے لفظ تعرق استعمال ہوا ہے۔
جس ہڈی پر گوشت ہو اسے عِرق کہتے ہیں اور اگر اسے نوچ نوچ کر بالکل صاف کر دیا جائے تو اسے عراق کہا جاتا ہے۔
بہرحال گوشت کھانے کے لیے چھری کانٹا استعمال کرنا اور دانتوں سے نوچ کر کھانا دونوں طرح جائز ہے، البتہ نوچ کر کھانا مستحب ہے۔
(فتح الباري: 677/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5407