Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
28. بَابُ : تَحْرِيمِ أَكْلِ السِّبَاعِ
باب: درندہ کھانے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4329
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كُلُّ ذِي نَابَ مِنَ السِّبَاعِ فَأَكْلُهُ حَرَامٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی دانت (سے پھاڑے) والا درندہ ہو، اسے کھانا حرام ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 3 (1933)، سنن ابن ماجہ/الصید 13 (3233)، (تحفة الأشراف: 14132) وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید 3 (1479)، موطا امام مالک/الصید 4 (14)، مسند احمد (2/418) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا اور کتا وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4329 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4329  
اردو حاشہ:
(1) لگڑ بگڑ کے علاوہ باقی تمام درندوں کا یہی حکم ہے۔ لگڑ بگڑ کو خود رسول اللہ ﷺ نے اس عام حکم سے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ ہر درندے کو کچلی (نوکیلا دانت) لازم ہے۔ اور شکار میں اس کا بہت دخل ہے۔ یہ اوپر نیچے دونوں طرف کل چار ہوتی ہیں۔ درمیان والے چار دانتوں سے آگے اور کچلیوں کے بعد ڈاڑھیں ہوتی ہیں۔
(2) درندے کو حرام قرار دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ درندے کا گوشت کھانے سے انسان میں بھی درندگی پیدا ہونے کا امکان ہے، پھر یہ درندے جانور کو مار کر اس کا خون بھی پی لیتے ہیں جو کہ حرام ہے۔ گویا ان کی اصل غذا حرام ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4329   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 403  
´کچلی والے تمام درندوں کا گوشت حرام ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اكل كل ذي ناب من السباع حرام . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچلی والے تما م درندوں کا کھانا حرام ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 403]
تخریج الحدیث:
«وأخرجه مسلم 1933/15، من حديث ما لك به و من رواية يحي بن يحي وجاء فى الأصل: سِتِّيْنَ

تفقه
➊ اس حدیث کے عام الفاظ سے معلوم ہوا کہ تمام درندے مثلاً کتا، بلی، لومڑی، بھیڑیا، شیر، بجو اور لگڑ بھگا وغیرہ حرام ہیں۔
➋ جس روایت میں لگڑ بھگے کے بارے میں آیا ہے کہ وہ شکار ہے، اس حدیث کی رو سے منسوخ ہے۔
➌ یہ حدیث ایک اصول کا درجہ رکھتی ہے لہٰذا ہر وہ جانور جسے ہم جانتے ہیں یا نہیں۔ اگر اس میں مذکورہ وصف پایا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔
➍ حافظ ابن عبدالبر نے کہا: ہر حدیث مرفوع جس میں ممانعت آئی ہے اسے تحریم پر محمول کرنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ تخصیص کی دلیل (قرینه) آ جائے کہ یہ استحباب پرمحمول ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 140/1]
➎ دلیل یا تو کتاب و سنت میں مذکور ہو گی یا اجماع اس کا مؤید ہو گا یا سلف صالحین کے فہم سے اس کا ثبوت ہو گا۔
➏ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نجس چیزیں (مثلاً پاخانہ وغیرہ) نجس العین اور سخت حرام ہیں جو کسی حالت میں بھی حلال نہیں ہیں۔
➐ اس میں علمائے مسلمین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ بندر کا کھانا اور اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا کہ میرے نزدیک ہاتھی بھی اسی حکم میں ہے۔ [التمهيد /1157]
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالیں بچھانے سے منع فرمایا ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 21/1 وسنده حسن]
● لہٰذا یہ کھالیں دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتیں۔ بعض الناس کا یہ قول کہ کتے کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے لہٰذا اس کی جائے نماز یا ڈول بنانا جائز ہے، اس حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
➒ شارک مچھلی بھی درندہ ہے لہٰذا اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ واللہ اعلم، مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے: [الموطأ حديث: 52، 76، البخاري: 1492، 5530، ومسلم:1932/14]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 113   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1479  
´ہر کیچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے کو حرام قرار دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1479]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سورہ انعام کی آیت ﴿قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ﴾ (الأنعام: 145) کے عام مفہوم سے یہ استدلال کرنا کہ ہرکچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے حلال ہیں درست نہیں،
کیوں کہ باب کی یہ حدیث اور سورہ مائدہ کی آیت  ﴿وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ﴾ (المائدة: 3) سورہ انعام کی مذکورہ آیت کے لیے مخصص ہے،
نیز سورہ مائدہ کی آیت مدنی ہے جب کہ سورہ انعام کی آیت مکی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1479   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1795  
´پالتو گدھے کے گوشت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن ہر کچلی دانت والے درندہ جانور، «مجثمة» ۱؎ اور پالتو گدھے کو حرام قرار دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1795]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہ پرندہ یا خرگوش جس کو باندھ کر نشانہ لگایا جائے،
یہاں تک کہ مرجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1795