سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
26. بَابُ : الضَّبِّ
باب: ضب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4324
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَكْلِ الضِّبَابِ؟، فَقَالَ:" أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا، وَأَقِطًا، وَأَضُبًّا، فَأَكَلَ مِنَ السَّمْنِ، وَالْأَقِطِ، وَتَرَكَ الضِّبَابَ تَقَذُّرًا لَهُنَّ، فَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ضب کھانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ام حفید (ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھی پنیر اور ضب بھیجا تو آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دیا، لیکن اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ آپ اسے کھانے کا حکم دیتے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4324 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4324
اردو حاشہ:
یہ ام حفید حضرت میمونہ ؓ کی ہمشیرہ تھیں اور یہ دونوں حضرت ابن عباس اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کی خالہ تھیں۔ ان روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضب حرام نہیں، البتہ آپ اس میں رغبت نہیں رکھتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4324
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1145
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر سو سمار (سانڈا) کو کھایا گیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1145»
تخریج: «أخرجه البخاري، الهبة وفضلها....، باب قبول الهدية، حديث:2575، ومسلم، الصيد والذبائح، باب إباحة الضب، حديث:1947.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ضب حلال ہے‘ جمہور علماء کی یہی رائے ہے‘ بعض نے اسے حرام اور بعض نے اسے مکروہ بھی کہا ہے اور دلیل کے لیے ابوداود کی روایت پیش کی ہے کہ آپ نے ضب کھانے سے منع فرمایا۔
مگر صحیحین کی یہ حدیث اور اس موضوع کی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت حرمت کی نہیں بلکہ طبعی کراہت کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ضب نہیں کھائی‘ البتہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کھانے سے منع نہیں فرمایا‘ بلکہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”اسے کھاؤ یہ حلال ہے لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے۔
“ (صحیح مسلم‘ الصید والذبائح‘ باب إباحۃ الضب‘ حدیث:۱۹۴۴) یہ واضح نص ہے کہ ممانعت زیادہ سے زیادہ طبعی کراہت پر مبنی ہے‘ حرمت پر قطعاً نہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1145
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3793
´گوہ کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی خالہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گھی، گوہ اور پنیر بھیجا، آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور گوہ کو گھن محسوس کرتے ہوئے چھوڑ دیا، اور آپ کے دستر خوان پر اسے کھایا گیا، اگر وہ حرام ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر نہیں کھایا جاتا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3793]
فوائد ومسائل:
فائدہ: حدیث نمبر 3730 کے فوائد ملاحظہ ہوں۔
وہاں تفصیل ذکر کردی گئی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3793
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2575
2575. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ ام حفید ؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پنیر، گھی اور سانڈے کا ہدیہ بھیجا۔ آپ نے پنیر اور گھی میں سے تو کچھ کھالیا لیکن سانڈا ناگواری کی وجہ چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سانڈا آپ کے دسترخواں پر کھایا گیا۔ اگرحرام ہوتا تو کم از کم رسول اللہ ﷺ کے دستر خواں پر اسے نہ کھایا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2575]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے گوہ (ساہنہ)
کا ہدیہ قبول تو فرمالیا، مگر خود نہیں کھایا، کیوں کہ آپ کو یہ مرغوب نہ تھا۔
ہاں آپ کے دسترخوان پر اسے صحابہ کرام ؓ نے کھایا جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے مگر طبعی کراہیت سے کوئی اسے نہ کھائے تو وہ گنہگار نہ ہوگا، ہاں اسے حرام کہنا غلط ہے۔
المحدث الکبیر حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں:
وذکر ابن خالویه أن الضب یعیش سبع مائة سنة وأنه لایشرب الماء و یبول في کل أربعین یوما قطرة ولا یسقط له سن و یقال بل أسنانه قطعة واحدة و حکی غیرہ أن أکل لحمه يذهب العطش۔
یعنی ابن خالویہ نے ذکر کیا ہے کہ گوہ (ساہنہ)
سات سو سال تک زندہ رہتی ہے اور وہ پانی نہیں پیتی اور چالیس دن میں صرف ایک قطرہ پیشاب کرتی ہے اور اس کے دانت نہیں گرتے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے دانت ایک ہی قطعہ کی شکل میں ہوتے ہیں اور بعض کا ایسا بھی کہنا ہے کہ اس کا گوشت پیاس بجھادیتا ہے۔
آگے حضرت مولانا فرماتے ہیں:
وقال النووي أجمع المسلمون علی أن الضب حلال لیس بمکروہ یعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ گوہ (ساہنہ)
حلال ہے مکروہ نہیں ہے۔
مگر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے اصحاب اسے مکروہ کہتے ہیں۔
ان حضرات کا یہ قول نصوص صریحہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔
ترمذی کی روایت عن ابن عمر ؓ میں صاف موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاآکلهُ ولا أُحرمُهُ. نہ میں اسے کھاتا ہوں نہ حرام قرار دیتا ہوں۔
اس حدیث کے ذیل حضرت امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
وقد اختلف أهل العلم في أکل الضب فرخص فیه بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم و غیرهم وکرهه بعضهم و یروی عن ابن عباس أنه قال أکل الضب علی مائدة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وإنما ترکه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تقذرا۔
یعنی گوہ (ساہنہ)
کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔
پس اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے بعض نے اس کے لیے رخصت دی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے اہل علم نے بھی اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول کريم ﷺ کے دسترخوان پر گوہ (ساہنہ)
کا گوشت کھایاگیا مگر آپ ﷺ نے طبعی کراہیت کی بنا پر نہیں کھایا۔
حضرت مولانا مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں:
وهو قول الجمهور وهو الراجح المعمول علیه۔
یعنی جمہور کا قول حلت ہی کے لیے ہے اور یہی قول راجح ہے جس پر فتویٰ دیاگیا ہے اور اس مسلک پر حضرت مولانا مرحوم نے آٹھ احادیث و آثار نقل فرمائے ہیں اور مکروہ کہنے والوں کے دلائل پر بطریق احسن تبصرہ فرمایا ہے۔
تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی جلد: 3ص: 73,74 کا مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2575
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2575
2575. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ ام حفید ؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پنیر، گھی اور سانڈے کا ہدیہ بھیجا۔ آپ نے پنیر اور گھی میں سے تو کچھ کھالیا لیکن سانڈا ناگواری کی وجہ چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سانڈا آپ کے دسترخواں پر کھایا گیا۔ اگرحرام ہوتا تو کم از کم رسول اللہ ﷺ کے دستر خواں پر اسے نہ کھایا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2575]
حدیث حاشیہ:
(1)
ضَب جسے ہمارے ہاں سانڈا کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہدیہ قبول فرمایا لیکن طبعی ناگواری کی وجہ سے اسے تناول نہیں فرمایا کیونکہ آپ کو یہ پسند نہ تھا، البتہ آپ کے دستر خواں پر دیگر صحابۂ کرام ؓ نے اسے کھایا ہے جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے۔
اگر کوئی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے نہ کھائے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔
اسے حرام کہنا غلط ہے۔
(2)
بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے دیار میں نہیں کھائی جاتیں لیکن انہیں حرام کہنا مشکل ہے، سانڈے کے متعلق عجائب و غرائب اور اپنے چشم دید مشاہدات ہم آئندہ کسی فرصت میں بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2575