Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمُكَاتِبِ
کتاب: مکاتب کے مسائل کا بیان
2. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنْ شُرُوطِ الْمُكَاتَبِ، وَمَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ:
باب: مکاتب سے کون سی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو (وہ شرط باطل ہے)۔
حدیث نمبر: 2561
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنٍ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ، فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لَنَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْتَاعِي، فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، قَالَ: ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنْ شَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ، شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں مدد لینے آئیں، ابھی انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ تو اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ یہ پسند کریں کہ تیرے معاملہ مکاتبت کی پوری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے یہ صورت اپنے مالکوں کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے یہ کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اختیار ہے، لیکن تمہاری ولاء تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو خرید کر انہیں آزاد کر دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو بھی کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہیں ہے تو اس کو ایسی شرطیں لگانا لائق نہیں خواہ وہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگا لے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی سب سے زیادہ معقول اور مضبوط ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2561 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2561  
حدیث حاشیہ:
ابن خزیمہ نے کہا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی کتاب سے ان کا عدم جواز یا عدم وجوب ثابت ہو اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے۔
کیوں کہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔
کبھی ثمن میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اس قسم کے روپے ہوں یا اتنی مدت میں دئیے جائیں یہ شرطیں صحیح ہیں۔
گو اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہ ہو کیوں کہ یہ شرطیں مشروع ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2561   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2561  
حدیث حاشیہ:
(1)
مکاتب کی شرائط یہ ہیں کہ وہ عاقل بالغ ہو اور عقد کتابت کو قبول کرے۔
اس میں کتابت کی رقم ذکر کی جائے کہ وہ یکمشت ادا ہو گی یا قسطوں میں ادا کی جائے گی۔
اس میں کوئی ایسی شرط نہ رکھی جائے جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع امت کے خلاف ہو۔
ایسی تمام شرائط ناقابل قبول ہوں گی۔
(2)
جو شرائط اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں حافظ ابن حجر ؒ نے امام ابن خزیمہ ؒ کے حوالے سے اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کا جواز یا وجوب ثابت نہ ہو۔
یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے کیونکہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔
کبھی قیمت میں یہ شرط ہوتی ہے، یعنی اس قسم کے روپے ہوں گے یا اتنی مدت میں ادا کیے جائیں گے، یہ شرطیں صحیح ہیں اگرچہ اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
(فتح الباري: 232/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2561   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5097  
´آزاد عورت کا غلام مرد کے نکاح میں ہونا جائز ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ عَتَقَتْ فَخُيِّرَتْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبُرْمَةٌ عَلَى النَّارِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ:" لَمْ أَرَ الْبُرْمَةَ؟" فَقِيلَ: لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، قَالَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ کے ساتھ تین سنت قائم ہوتی ہیں، انہیں آزاد کیا اور پھر اختیار دیا گیا (کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سابقہ سے اپنا نکاح فسخ کر سکتی ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں) فرمایا کہ ولاء آزاد کرانے والے کے ساتھ قائم ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو ایک ہانڈی (گوشت کی) چولہے پر تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (چولہے پر) ہانڈی (گوشت کی) بھی تو میں نے دیکھی تھی۔ عرض کیا گیا کہ وہ ہانڈی اس گوشت کی تھی جو بریرہ کو صدقہ میں ملا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اب ہمارے لیے ان کی طرف سے تحفہ ہے۔ ہم اسے کھا سکتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5097]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5097 کا باب: «بَابُ الْحُرَّةِ تَحْتَ الْعَبْدِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمتہ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ نے آزاد عورت کا نکاح غلام مرد سے جائز ہونا قرار دیا ہے اور اس مسئلے پر اشارہ بھی فرمایا ہے، لیکن تحت الباب جو حدیث ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پیش فرمائی ہے اس میں غلام خاوند کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت نہیں دکھائی دیتی۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قلت: رضي الله عنك! ليس فى حديث بريرة هذا ما يدل أن زوجها كان عبداً.»
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند (سیدنا مغیث) غلام تھے۔

مزید فرماتے ہیں کہ:
«وقد خرج حديثها أتم من هذا، وفيه التصريح بأنه عبد.» [المتوري: ص 290]
یقیناً امام بخاری رحمہ اللہ نے (دوسری حدیث) نکالی ہے، جو اس سے مکمل ہے، جس میں صراحت کے ساتھ واضح ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرتے وقت سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ آزاد تھے یا غلام؟ بعض روایات سے ان کا آزاد ہونا ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات کے مطابق ان کا غلام ہونا۔
ترجمۃ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلام تھے۔

چنانچہ زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں:
«وميل المصنف الي مسلك الجمهور وقد ترجم فيما سياتي باب خيار الأمة تحت العبد» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 482/5]
امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان جمہور کے مسلک کی طرف ہے، (کہ سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کے وقت غلام تھے) اور یقیناً امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب قائم فرمایا اس بارے میں میں کہ: «باب خيار الأمة تحت العبد»

علامہ بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ليس فى الروايه التى ذكرها ان مغيثاً كان عبداً لكنه صح ذالك من طريق أخريٰ اانه كان عبداً وقد خيرها النبى صلى الله عليه وسلم فدل على جواز الحرة تحت العبد.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 98]
اس روایت میں تصریح موجود نہیں ہے کہ سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے، (تو پھر باب اور حدیث میں مناسبت کس طرح؟) لیکن صحیح یہ ہے کہ جو دوسرے طریق سے ثابت ہے کہ وہ غلام تھے، یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا تھا، (کہ وہ مغیث سے نکاح قائم رکھیں، یا پھر ختم کر دیں) پس یہ جواز ہے کہ آزاد کے نکاح میں غلام شوہر رہ سکتا ہے، لہٰذا یہی سے ترجمہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 86   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2155  
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ عورتوں سے خرید و فروخت کرنا، اور دلیل کے طور پر سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ذکر فرمایا ہے، ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: «اشتری و اعتقی» یعنی تم خرید کر آزاد کر دو۔ لازما جو امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے خریدے گا تو اس کے لیے عورت سے خریدنا درست ٹھہرا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومطابقۃ حدیث ابن عمر للترجمۃ فى قولہ: سَاوَمَت فأمنا ساومت أہل بریرۃ، وہو البیع والشراء بین الرجال و النساء» [عمدۃ القاری، ج 8، ص: 258]
یعنی ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت اس قول سے ہے کہ قیمت لگا رہی تھیں (یعنی امی عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی قیمت لگا رہی تھیں تاکہ انہیں خرید کر آزاد کر دیں)، پس امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے قیمت لگائی سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکوں سے اور یہی ہے «البیع و الشراء بین الرجال و النساء» کہ مردوں اور عورتوں میں بیع کا ہونا۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب سے مناسبت کچھ یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ بریرہ کو خرید لیں اور یہ خطاب امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھا۔ بیع میں شراء سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ جب ان کے مالکوں سے امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خریدا۔ [ارشاد الساری، ج 4، ص: 250]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اور د فیہ حدیث عائشۃ و ابن عمر فى قصۃ شراء بریرۃ، وشاہد الترجمۃ قولہ: مابال رجال یشترطون لیست فى کتاب اللہ، لاشعارہ بأن قصۃ المبایعۃ کانت مع رجال۔۔۔۔۔» [فتح الباری، ج 3، ص: 370]
یعنی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ خرید و فروخت جائز ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا لونڈی کو (ایک مرد سے) خریدا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا۔ چنانچہ فرمایا کہ اس کو خرید لے اور شاہد ہے اس کے لیے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسی شرائط طے کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں، اس واسطے یہ مشعر ہے اس چیز کے ساتھ کہ خرید و فروخت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھی۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
فائدہ نمبر 1:
مندرجہ بالا حدیث سے امام الفقہاء والمحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی اہم مسائل ثابت فرمائے ہیں، جس کا ذکر مختلف ابواب کے ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول مشہور تھا کہ اہل بریرہ سے بھی مخفی نہ تھا، پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشراط پر اصرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ﴾ » تم جو چاہو عمل کرو [فصلت: 40] یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے ولاء کی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا، اور اس مسئلے کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اشارہ سے بھی ہوتی ہے کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرائط لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں، پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں خواہ وہ ان کو نافذ بھی کیا جائے مگر اسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔ [نیل الأوطار شرح منتقی الاخیار، ج 5، ص: 236، 237]
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، اور جو علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا کہ ولاء اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے، اب اگر غور کیا جائے تو یہ شرط جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی ہے یہ شرط قرآن میں نہیں ہے بلکہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بایں طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ شریعت میں کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآن مجید پر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کتاب پر ہوتا ہے جو دو گتوں میں «بین الدفتین» ہو بلکہ کتاب اللہ کا اطلاق شریعت کے تمام قوانین پر ہوتا ہے چاہے وہ قرآنی بیان میں ضم ہوں یا وہ حدیثی بیانات ہوں۔ امت مسلمہ میں علم کی کمی بے انتہا ہے اور صحیح حدیث کی معرفت بے انتہا پست ہے، ان حالات میں عام و خاص الا ماشاء اللہ کا یہی عقیدہ اور نظریہ ہے کہ کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآن مجید پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس گہرائی اور بصیرت کی نگاہ سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کا حکم مکمل شریعت پر لگتا ہے۔ اور مذکورہ بالا حدیث بھی اس کی مؤید ہے۔ دوسری حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری ہی میں کرتے ہیں کہ:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے در میان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئے۔ دوسرے نے بھی یہی کہا: کہ اس نے سچ کہا: ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیں۔ دیہاتی نے کہا: کہ میرا لڑکا اس کے ہاں مزدور تھا، پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، قوم نے کہا: کہ تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا جائے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا، باندی اور بکریاں تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا، اور اے انیس اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کردو (اگر وہ زنا کا اقرار کر لے)۔ چنانچہ انیس گئے اور اسے رجم کر دیا (کیوں کہ اس نے زناکا اقرار کر لیا تھا)۔ [صحیح البخاری، کتاب الصلح، رقم 2695]
مذکورہ بالا واقعہ کی طرف نگاہ دوڑانے سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا کہ بکریاں اور باندی کو لوٹا لیا جائے یہ حکم پورے قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلفیہ طور پر یہ فرمایا تھا کہ میں تم میں ضرور کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا، تو معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کا اطلاق قرآن مجید کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر بھی ہوتا ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کتاب اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (واللہ اعلم) اللہ کا حکم مراد لیا ہے۔ اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) میں بالتصریح مذکور نہیں ہے۔ لیکن ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) کے ساتھ قبول کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: جو کچھ تمہیں رسول دے اس کو لے لو اور جس سے تمہیں منع کرے تو باز آجاؤ۔ لہٰذا جب وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی) کتاب اللہ کی وجہ سے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم قبول کرنا بھی واجب ہوا۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صادر فرمایا پس وہ کتاب اللہ کے ساتھ ہے، اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) میں بالتصریح مذکور نہ ہو۔ [ذم الکلام وأہلہ للہروی، ج 2، ص: 91]
اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں بارہ ماہ کی تعداد کے بارے میں فرمایا کہ « ﴿فِی کِتَابِ اللّٰہِ﴾ » [التوبۃ: 36] کہ یہ بارہ مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں موجود ہے۔ حالانکہ مکمل قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں بارہ مہینوں کی گنتی معلوم نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہ ماہ اور مزید حرمت والے چار مہینوں کی بھی گنتی اور اس کی ترتیب ہمیں موصول ہوتی ہے۔ مذکورہ آیت سے بھی حدیث کا مبینہ طور پر کتاب اللہ ہونا ثابت ہے اور ان دلائل کی موجودگی میں کہیں اور طرف التفات کرنا محض ہٹ دھرمی ہی ہو گی۔
محمد بن ابوبکر الرازی مسائل رازی میں فرماتے ہیں:
«وإنما ہو أمر أنزلہ اللہ فى کتبہ على ألسنۃ رسلہ۔» [مسائل الرازی، ص: 113]
یہ ایک حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل کیا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر۔
یعنی یہ حکم حدیث کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا۔
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و المراد بکتاب اللہ أى بحکمہ، إذ لیس فى الکتاب ذکر الرجم، وقد جاء الکتاب بمعنی الفرض۔» [التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ج 17، ص: 29]
یہاں پر کتاب اللہ سے مراد (قرآن نہیں ہے بلکہ) اللہ کا حکم ہے جبکہ رجم کا حکم قرآن میں موجود نہیں ہے، اور یقیناً کتاب سے مراد فرض ہے (یعنی رجم کا حکم بھی اللہ کا حکم ہے، مگر قرآن میں نہیں ہے، سنت میں موجود ہے)۔
محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض آیات قرآن عزیز میں اس طرح مذکورہ ہوئی ہیں کہ قرآن کا مفہوم حدیث کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کی آواز ہے جو ضرورت حدیث کو ثابت کر رہی ہے۔ اشارۃ النص کے طور پر قرآن مجید ضرورت حدیث کو ثابت فرماتا ہے۔ منکرین حدیث سے مؤدبانہ استدعا ہے کہ بحیثیت طالب علم قرآن میں اس طریق پر بھی غور کی تکلیف گوارا کریں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ دلوں کو کھول دے اور قوت فہم کو استفادہ کا موقع ملے۔
« ﴿إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔۔۔۔۔ الآیۃ﴾ » [التوبۃ: 36]
تحقیق گنتی مہینوں کی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں کتاب اللہ میں جس دن اس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو ان میں چار مہینے حرام ہیں۔
ان چار ماہ کا ذکر قرآن میں اجمالا آیا ہے، ان میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت فرمائی گئی ہے، ان میں ابتداء لڑائی حرام ہے۔ لیکن قرآن میں بارہ مہینوں کے نام مذکورہ ہیں اور نہ چار ماہ کا کوئی تفصیلی ذکر موجود ہے۔ یہ تذکرہ احادیث میں ملتا ہے یا عرب کی تاریخ میں، معلوم نہیں ہمارے اہل قرآن کون سا مقدس ذخیرہ قبول فرمائیں گے۔ [حجیت حدیث از محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ، ص: 167]
قلت: تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ قرآنی بیان سے اور تاریخی حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اہل عرب مہینوں کی گنتی آگے پیچھے کر دیتے تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
« ﴿إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ﴾ » [التوبۃ: 37] مہینوں کا آگے پیچھے کرنا کفر ہے۔
لیکن اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سنت کے مجموعے کے بارے میں اور اس کی صداقت پر قرآن نے برملا اعلان فرما دیا کہ وہ ہر قسم کی تبدیلی و تغیرات سے محفوظ ہوں گی اور قیامت تک قرآن کی طرح ہدایت کا سرچشمہ رہیں گے، مگر اس کے باوجود تاریخ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے لیکن احادیث پر نہیں، تعجب ہے ایسی تنگ نظری پر۔
بہت سارے لوگوں کو یہ بھی مغالطہ لگ گیا کہ کتاب کہتے ہی اسی شیٔ کو جو ضخامت میں ہو کیوں کہ عہد نبوی میں احادیث کو کسی ایک کتاب کی صورت میں مدون نہیں کیا گیا (حالانکہ بعین یہی اعتراض قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے) اسی لیے کتاب کا حکم احادیث پر صادر نہیں آتا۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو اپنا خط بھیجا تو قرآن یوں ارشاد فرماتا ہے:
« ﴿اذْہَبْ بِکِتَابِی ہَذَا فَأَلْقِہْ إِلَیْہِمْ﴾ » [النمل: 28]
یہ میری کتاب (خط) لے جا اور انکی طرف پھینک دے۔
پھر جب یہ خط ان کو دیا گیا تو بلقیس نے کہا:
« ﴿یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّی أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیمٌ﴾ » [النمل: 29]
اے اہل دربار! میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے۔
ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ ضروری نہیں ہے کہ کسی ضخیم شئ کو ہی کتاب کا نام دیا جائے، اسی کتاب کی مزید صراحت سورہ انعام میں کچھ اس طرح سے ہے:
« ﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْدِیہِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِینٌ﴾ » [الانعام: 7]
اور اگر ہم اتارتے آپ کی طرف کتاب کو نازل کرتے کاغذ پر پھر یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے، یہی کہتے ہیں کہ یہ صاف جادو ہے۔
مذکورہ آیت میں بھی «قرطاس» کاغذ کو کتاب کہا: گیا ہے لہٰذا منکرین حدیث کا یہ شوشہ کہ وحی ہمیشہ کتاب کی صورت میں نازل ہوتی ہے باطل ٹھہرا۔ دراصل کتاب کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی چیز کا حکم دیا گیا ہو یا کسی چیز کو فرض کیا گیا ہو، یہ تمام اقسام قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوتی ہیں۔
عربی زبان کی معرکہ آراء کتاب لسان العرب میں ابن منظور رقمطراز ہیں:
«وقال، کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا أَیْ فَرَضْنَا، وَمِنْ ہٰذَا قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلَیْنِ احْتَکَمَا إِلَیْہِ۔۔۔۔۔» [لسان العرب، ج 12، ص: 23]
یعنی یوں کہا: کہ ہم نے ان پر لکھ دیا اس میں یعنی (لکھنے سے مراد) فرض کیا ہم نے، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جب دو شخص فیصلے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ضرور تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب یا اپنے بندے پر اتارا ہے۔ (ابن منظور کہتے ہیں) یہ جو فیصلہ تھا رجم کے بارے میں اور اس کا حکم قرآن میں وارد نہیں۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے (کتاب کے معنی) کسی چیز کو فرض کرنا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا یا کسی چیز کا حکم جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان کیا گیا ہو (یعنی وہ بھی کتاب ہی کا حکم رکھتی ہے)۔
ابن منظور کی وضاحت نے واضح کیا کہ ہر وہ شئ کتاب ہے جس میں کسی چیز کا حکم دیا گیا ہو یا کسی چیز کو فرض کیا گیا جو، چاہے وہ قرآن میں لکھا ہوا ہو یا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
ابن اثیر رحمہ اللہ کتاب اللہ کے بارے میں وضاحت فرماتے ہیں:
سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ جو کوئی ایسی شرط عائد کرے جو کتاب اللہ میں نہیں، یعنی وہ حکم کتاب میں نہیں اور نہ ہی موجب پر اس کی قضا ہو کتاب میں، کیوں کہ کتاب اللہ سے (مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مراد ہے، اور جان لو کہ سنت قرآن کا بیان ہے۔ اور یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء اسی کو قرار دیا جو آزاد کرے، اور یہ ولاء کا حکم قرآن میں مذکورہ نہیں ہے۔ (یعنی حدیث میں ہے اور یہ بھی کتاب اللہ ہے)۔ [النہایہ فى غریب الحدیث والأثر، ج 4، ص: 128]
امام ابن الثیر رحمہ اللہ نے بھی واضح فرمایا کہ کتاب سے مراد حکم، فرض کے ہیں اور اس کا اطلاق قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سنت پر بھی ہوتا ہے۔
شہاب الدین ابوعمرو «القاموس الوافی» میں فرماتے ہیں:
کتاب سے مراد مجموعہ، رسائل، کتابیں، قرآن مجید، تورات، انجیل۔۔۔۔۔ احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں ضرور تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔ (یہ واقعہ عسیف ہے جس کو بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا)۔ [القاموس الوافی، ص: 922]
شہاب الدین ابوعمرو نے بھی کتاب کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا ذکر فرمایا جس میں یہ ہے کہ میں تم دونوں میں کتاب اللہ سے ضرور فیصلہ کروں گا۔ یعنی حدیث بھی کتاب اللہ میں شامل ہے۔
مصباح اللغات میں ہے:
الکتاب، جس میں لکھا جائے، خط، صحیفہ، فرض، حکم، اندازہ، ہر وہ کتاب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی۔ [مصباح اللغات، ص: 723]
یہی الفاظ المنجد میں بھی نقل کیے گئے ہیں۔ [دیکہئے المنجد، ص: 860]
یہ ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ایک منکرین حدیث کا سرچشمہ غلام احمد پرویز نے بھی نہ کیا، بلکہ وہ بھی اس کا معترف رہا۔ مسٹر پرویز صاحب فرماتے ہیں:
کتاب کے معنی فیصلہ اور حکم کے بھی آتے ہیں۔ [لغات القرآن، ص: 1414]
حیرت کی بات ہے کہ کتاب کے معنی حکم اور فیصلہ کو آپ پرویز بھی مانتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل اسوہ انسانیت کے لیے نمونہ ہے جو کہ مکمل طریقے سے قرآن مجید میں مذکور نہیں بلکہ اس کے کئی ایک پہلو سنت رسول (احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) میں اجاگر ہیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی اس حقیقت سے انحراف چہ معنی وارد ہے؟
لہٰذا ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ کتاب سے مراد حکم اور فرائض ہیں، جس میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے چند احادیث پیش خدمت ہیں:
➊ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ ایک صحابی سیدنا طلحہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقہ کے متعلق کچھ لکھنے کی گزارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گزارش کو قبول فرما لیا، لہٰذا ان صحابی کا بیان ہے کہ:
«فَکَتَبَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذَا الْکِتَابْ» [مسند أحمد، ج 3، ص: 23] پس ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب لکھوائی۔
مندرجہ بالا حدیث میں بھی ایک حکم کو لکھوانے پر اسے کتاب کہا: گیا ہے، لہٰذا اس حدیث سے واضح ہوا کہ جس میں فرض احکامات ہوتے ہیں اسے کتاب کہا: جاتا ہے۔
➋ موسی بن طلحہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«عِنْدَنَا کِتَابٌ مَعَاذ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَبِیِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ» [سنن الدارقطنی، کتاب الزکوۃ، رقم: 1898]
ہمارے پاس سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی ایک کتاب ہے جو انہوں نے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھوائی۔
حالانکہ اس نوشتہ میں صرف صدقہ کے مسائل درج تھے، اس کے باوجود اس نوشتہ کو کتاب کا نام دیا گیا کیوں کہ اس میں فرائض و احکامات تھے۔
«قَالَ: أَتَانَا کِتَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِإِہَابٍ وَلَا عَصَبٍ» [سنن النسائی، کتاب الفرع والعتیرہ، رقم: 4256 - سنن الترمذی، کتاب اللباس، رقم: 1729 - صحیح ابن حبان: 1278 - مسند عبد بن حمید: 488]
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں: ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب آئی کہ مردے کے چمڑے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔
مذکورہ حدیث میں بھی صرف ایک حکم لکھا ہوا تھا جس کو راوی نے کتاب کے نام سے تعبیر فرمایا۔
فائدہ نمبر 3:
اسی باب کے تحت حدیث نمبر 2156 میں امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ حسان بن ابی عباد ہیں، جن کے متعلق امام ابن عدی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: حسان دو ہیں، ایک حسان بن حسان البصری اور دوسرے حسان بن ابی عباد البصری، دیکھیے ابن عدی کی کتاب: «أسامی من روى عنہم البخاری فى جامعہ الصحیح، ص: 117»، در اصل یہ وہم ہے جو انہیں ہوا ہے۔ کیونکہ حسان بن حسان بن ابی عباد ہیں۔ علامہ علاء الدین مغلطائی (المتوفی 764ھ) نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ حسان ایک ہی ہیں دو نہیں ہیں۔ [دیکہئے: اکمال تہذیب الکمال، ج4، ص: 61]
ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ حسان بن حسان کو حسان بن ابی عباد سے الگ ذکر فرمایا ہے۔ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ (یہ دونوں) ایک ہی آدمی ہیں۔
آپ کا مکمل نام حسان بن حسان البصری ابوعلی بن ابی عباد ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف دو احادیث نقل فرمائی ہیں۔ [ہدى الساری، الفصل التاسع، ص: 559]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ قول محل نظر ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حسان بن حسان سے دو احادیث روایت نہیں کیا، بلکہ آپ سے تقریبا چھ احادیث صحیح بخاری میں روایت کی ہیں، علامہ مغلطائی فرماتے ہیں: روی عنہ محمد بن اسماعیل ستۃ أحادیث، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے آپ سے چھ احادیث روایت کی ہیں۔ تلاش کے بعد الحمد للہ میں نے ان چھ احادیث کو پایا ہے۔ ان سے روایات امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل مقامات پر فرمایا ہے، ایک کا ذکر ہم کر چکے ہیں، باقی پانچ احادیث یہ ہیں:
«کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2156، باب البیع والشراء مع النساء۔»
«کتاب الوصایا، رقم الحدیث: 2746، باب إذا أومأ المریض برأسہ إشارۃ بینۃ جازت۔»
«کتاب المغازی، رقم الحدیث: 4048، باب غزوۃ أحد۔»
«کتاب العمرۃ، رقم الحدیث: 1778، باب کم أعتمر النبى صلى اللہ علیہ وسلم۔»
«کتاب الاستئذان، رقم الحدیث: 6296، باب إغلاق الأبواب باللیل۔»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 298   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 288  
´رشتۂ ولاء کا مطلب ہے مولیٰ ہونا`
«. . . عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم انها قالت: كان فى بريرة ثلاث سنن، فكانت إحدى السنن الثلاث انها اعتقت فخيرت فى زوجها. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولاء لمن اعتق. . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں تین سنتیں ہیں ان تین میں سے ایک سنت یہ ہے کہ جب وہ آزاد کی گئیں تو انہیں اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (جو کہ غلام تھے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہَ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 288]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5279، ومسلم 14/1504، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لونڈی جب آزاد ہو جائے تو اسے اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ اپنے سابقہ خاوند کے ساتھ رہے یا جدا ہو جائے بشرطیکہ لونڈی کی آزادی کے بعد خاوند نے (اس کی مرضی سے) اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آزاد شدہ لونڈی کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک اس کا سابق خاوند اسے چھو نہ لے۔ [موطأ امام مالك 2/562 ح1224، وسنده صحيح]
➌ اگر کوئی فقیر مسکین صدقے یا زکوٰۃ کے مال کا مالک ہو جائے اور پھر وہ اس میں سے کسی امیر کو تحفہ دے تو یہ مال اس امیر کے لئے حلال ہوجاتا ہے۔
➍ مالدار اور ہٹے کٹے کمانے والے شخص کے لئے صدقہ و خیرات اور زکواۃ حلال نہیں بلکہ حرام ہے۔
➎ اگر کوئی چیز کسی خاص علت کی وجہ سے حرام ہو اور پھر وہ علت ختم ہو جائے تو وہ چیز حرام نہیں رہتی۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و اولاد کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ حکم فرض و واجب صدقات کے بارے میں ہیں اور نفلی صدقہ جائز ہے۔ واللہ اعلم
➐ رشتۂ ولاء کا مطلب ہے مولیٰ ہونا۔
➑ گھر میں اگر پسندیدہ کھانا موجود ہے تو گھر سے طلب کرنا جائز ہے۔
➒ فقراء و مساکین کو صدقات دینا اہل ایمان کا وطیرہ ہے۔
➓ گھر میں کھانا پکانے اور پینے پلانے والے برتن رکھنا جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 160   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 657  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا (لونڈی) میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت (یعنی میں نو اوقیہ دے کر آزادی لے لوں گی) کر لی ہے کہ ہر سال میں ایک اوقیہ ادا کرتی رہوں گی۔ لہٰذا میری (اس بارے میں) مدد کریں۔ میں نے (اسے) کہا کہ اگر تیرے مالک کو یہ پسند ہو کہ میں تیری مجموعی قیمت یکمشت ادا کر دوں اور تیری ولاء میری ہو جائے تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ بریرہ رضی اللہ عنہا یہ تجویز لے کر اپنے مالک کے پاس گئی اور ان سے یہ کہا تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس سے واپس آئی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے وہ تجویز پیش کی تھی، مگر انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ولاء ان کے لئے ہے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس واقعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو، کیونکہ ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزادی دے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب فرمانے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ (یاد رکھو!) جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہیں، خواہ سینکڑوں شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ نہایت برحق ہے اور اللہ کی شرط نہایت ہی پختہ اور پکی ہے۔ ولاء اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ مسلم کے ہاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے خرید لو اور آزاد کر دو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 657»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المكاتب، باب ما يجوز من شروط المكاتب، حديث:2561، ومسلم، العتق، باب إنما الولاء لمن أعتق، حديث:1504.»
تشریح:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: مثلاً: 1.غلام اور اس کے مالک و آقا کے درمیان متعین رقم اور مقرر مدت کی صورت میں مکاتبت جائز ہے۔
2.اگر کوئی دوسرا شخص غلام کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور اسے آزادی دے دے تو ایسا بھی جائز ہے۔
اس کے ترکہ و میراث کا حقدار یہ آزاد کرنے والا ہوگا۔
3.اگر غلام اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے کسی صاحب حیثیت سے سوال کرے تو یہ جائز ہے۔
4.مکاتبت کی رقم قسط وار ادا کی جا سکتی ہے۔
5. اگر مستحق آدمی سوال کرے تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔
6. ناجائز شرط اگر عائد کرنے کی کوشش کی جائے تو اس شرط کی کوئی شرعی حیثیت نہیں‘ اعتبار صرف شرعی شرط کا ہوگا۔
7. اس حدیث سے باہمی مشورہ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
بیوی شوہر سے مشورہ طلب کرے تو شوہر کو صحیح مشورہ دینا چاہیے۔
8. جس مسئلے کا لوگوں کو علم نہ ہو وہ مسئلہ عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔
مسئلہ کسی کا نام لے کر نہیں بلکہ عمومی صورت میں بیان کرنا چاہیے۔
9. عوام سے خطاب کرنے کے موقع پر سب سے پہلے خالق کائنات کی حمد و ثنا کرنی چاہیے‘ پھر اپنا مدعا و مقصد بیان کرنا چاہیے۔
10.کسی سے درخواست و استدعا کرنے کا بھی یہی اسلوب و انداز ہونا چاہیے۔
11.مکاتب لونڈی اور غلام کو فروخت کرنا جائز ہے۔
امام احمد و امام مالک رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے۔
وضاحت: «حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ با پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے‘ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی اور مغیث‘ جو کہ آل ابو احمد بن جحش کے غلام تھے‘ کی بیوی تھی۔
جب یہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے خاوند مغیث (جو کہ ابھی غلام ہی تھا) کو چھوڑ دیا تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 657   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 858  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو جب آزادی ملی تو اس وقت ان کو خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا۔ (بخاری و مسلم) یہ لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا خاوند غلام تھا اور ان ہی سے ایک روایت میں ہے کہ وہ آزاد تھا۔ پہلی روایت زیادہ پختہ ہے۔ بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے صحیح قول یہ ہے کہ وہ غلام تھا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 858»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب الحرة تحت العبد، حديث:5097، ومسلم، العتق، باب بيان أن الولاء لمن أعتق، حديث:1504.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت آزاد ہو جانے کے بعد‘ جبکہ اس کا خاوند ابھی تک غلام ہو‘ شوہر کے بارے میں خودمختار ہے‘ چاہے اس کی زوجیت میں رہے چاہے نہ رہے۔
اس پر سب کا اجماع ہے۔
اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب وہ شوہر آزاد ہو۔
ایک قول کے مطابق عورت کے لیے کوئی اختیار نہیں‘ اسے اسی خاوند کی زوجیت میں رہنا ہوگا۔
یہ رائے جمہور کی ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے بہرحال اختیار حاصل ہے اگرچہ خاوند آزاد ہی ہو‘ اسے ابن قیم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
معلوم رہے کہ یہ حدیث بڑی عظیم الشان ہے۔
علماء نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے اور خود مصنف رحمہ اللہ نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے جن کی تعداد ایک سو بائیس تک پہنچتی ہے۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 858   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2615  
´صدقہ و زکاۃ بدل کر ہدیہ ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کر دینا چاہا، لیکن ان کے مالکان نے ولاء (ترکہ) خود لینے کی شرط لگائی۔ تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: اسے خرید لو، اور آزاد کر دو، ولاء (ترکہ) اسی کا ہے جو آزاد کرے، اور جس وقت وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں۔ (اسی درمیان) رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2615]
اردو حاشہ:
(1) حضرت بریرہؓ کسی اور خاندان کی لونڈی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس خدمت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے مالکوں سے آزادی کا معاہدہ کیا کہ میں قسط وار اپنی قیمت خود ادا کر دوں گی، مجھے آزاد کر دو۔ وہ مان گئے۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے پیش کش کی کہ میں پوری قیمت دے کر ابھی خرید لیتی ہوں اور آزاد کر دیتی ہوں۔ مالک راضی ہوگئے مگر کہنے لگے: وَلَا کا حق ہمارا ہوگا، حالانکہ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو اپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ (2) وَلَا سے مراد وہ حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام پر ہوتا ہے، مثلاً: وہ اس کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ اگر غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو مالک کو وراثت ملتی ہے، وغیرہ۔ (3) اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے تو آزادی کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ خاوند سے نکاح قائم رکھے، چاہے تو نکاح فسخ کر دے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ اختیار تب ہے اگر اس کا خاوند غلام ہو۔ اگر وہ آزاد ہو تو عورت کو باوجود آزاد ہونے کے نکاح ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ حضرت بریرہؓ کے خاوند غلام تھے، نام ان کا مغیث تھا۔ البتہ احناف کے نزدیک خاوند آزاد ہو یا غلام، آزاد ہونے والی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (4) گوشت لایا گیا۔ یہ گوشت صدقے کا تھا۔ کسی نے حضرت بریرہؓ کو بھیجا تھا۔ انھوں نے کچھ گوشت بطور تحفہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا۔ ظاہر ہے گوشت جس کو صدقے میں دے دیا جائے اس کی ملک ہوگیا، اب وہ جسے صدقے کے طور پر دے، اس کے لیے صدقہ ہے۔ جسے تحفے کے طور پر دے، اس کے لیے تحفہ ہے۔ اسی لیے نبیﷺ نے وہ گوشت تناول فرمایا۔ (5) آزاد تھا۔ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ حضرت اسود کا قول ہے، نہ کہ حضرت عائشہؓ کا۔ اور اسود تابعی ہیں۔ دوسری روایات میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا صریح فرمان ہے کہ بریرہ کا خاوند غلام تھا۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: 5282، وصحیح مسلم، العتق، حدیث: 1504) اگر وہ غلام نہ ہوتا تو اسے اختیار نہ دیا جاتا کیونکہ عورت آزاد ہونے کے باوجود خاوند سے بلند رتبہ نہیں ہوتی۔ (6) تفصیلی روایات میں صراحت ہے کہ حضرت بریرہؓ نے باوجود حضرت مغیث کی منت سماجت کے نکاح ختم کر دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: 2583)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2615   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3477  
´آزادی پانے والی لونڈی کو اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3477]
اردو حاشہ:
(1) اختیار دیا گیا کیونکہ ان کا خاوند مغیث ابھی غلام تھا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے نکاح ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا عورت کے آزاد ہونے سے طلاق واقع ہوگی نہ فسخ نکاح ہوگا بلکہ اختیار ملے گا۔
(2) حق ولا سے مراد ہو حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام پر ہوتا ہے کہ اسے اس کا مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہ آزاد شدہ غلام فوت ہوجائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وارث بھی بنے گا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزادی کے لیے حضرت عائشہؓ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں یک مشت خرید کر آزاد کردیتی ہوں۔ مالک بیچنے پر تو راضی ہوگئے مگر حق ولا اپنے لیے مانگنے لگے‘ حالانکہ یہ حق تو اسی کا ہے جو غلام کو لوجہ اللہ آزاد کرے۔
(3) ہدیہ ہے اس سے یہ اصول سمجھ میں آیا کہ جو چیز بذات خود پلید اور حرام نہیں‘ ا س کی حیثیت بدلتی رہتی ہے‘ مثلاً: رشوت یا سود کا پیسہ اس شخص کے لیے حرام ہے جو رشوت یا سود لے رہا ہے‘ لیکن اگر رشوت یا سود لینے والا وہ رقم آگے کسی کو بطور اجرت یا قیمت دے تو لینے والے کے لیے جائز ہوگی‘ حرام نہیں ہوگی کیونکہ رقم بذات خود پلید یا حرام نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسے حلال یا حرام بناتی ہے۔ زکاۃ کی رقم مال دار کے لیے حرام مگر فقیر کے لیے حلال ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے۔
(4) میاں بیوی غلام ہوں تو کسی ایک سے مکاتبت کر کے اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ کسی ایک کو آگے بیچا جاسکتا ہے۔
(5) اگر کسی غلط اور غیر شرعی کام کاج لوگ ارتکاب کررہے ہوں تو علماء کو مسئلے کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس کے متعلق شرعی احکام نمایاں کرنے چاہئیں‘ نیز جس شرعی کام اور رسم کا وہ مستقبل میں ارتکاب کرنے والے ہوں اس کے بارے میں بروقت اپنے خطبے میں وضاحت کردینی چاہیے۔
(6) نیک بیوی ہر معاملے میں اپنے خاوند کی خیر خواہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گوشت کا سالن نہ دیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے‘ ورنہ آپ کو علم نہ تھا کیونکہ آپ عالم غیب نہ تھے۔
(7) صدقے اور ہدیے میں فرق ہے۔
(8) آزاد کرنے والا آزاد کردہ سے تحفہ قبول کرسکتا ہے۔ اس سے آزاد کرنے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3477   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3479  
´آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3479]
اردو حاشہ:
(1) جو خریدتا ہے یعنی خریدنے کے بعد اسے آزاد بھی کرتا ہے ورنہ صرف خریدنے سے حق ولا نہیں ملتا۔
(2) اس کا خاوند آزاد تھا یہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ نہیں بلکہ حضرت اسود کے ہیں جو کہ تابعی ہیں اور وہ موقع پر موجود نہیں تھے جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے غلام ہونے کی صراحت آتی ہے۔ یہ دونوں موقع کے گواہ ہیں۔ ظاپر ہے ان کی گواہی معتبر ہے۔ حضرت اسود کو غلطی لگی ہے۔ احناف کہہ دیتے ہیں کہ پہلے وہ غلام تھا‘ پھر بریرہ کی آزادی سے پہلے وہ آزاد ہو گیا تھا لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بریرہ اور اس کی آزادی کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بھی آزاد ہوگیا تھا۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3479   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3480  
´آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ۱؎، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3480]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث:3476‘3477‘3479۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3480   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3484  
´شوہر غلام ہو اور لونڈی بیوی آزاد کر دی جائے تو اسے حق خیار حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے۔‏‏‏‏ راوی ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
میں نہیں جانتا کہ وہ آزاد تھا یا غلام راوئ حدیث عبدالرحمن بن قاسم اس بارے میں متردد تھے۔ کبھی انہوں نے آزاد کہا‘ کبھی غلام اور کبھی کہا کہ پتہ نہیں آزاد تھا یا غلام۔ محفوظ بات یہی ہے کہ وہ غلام تھا۔ عروہ نے ان کی اس بات کی موافقت کی ہے۔ بعد میں واقع ہونے والے شک سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ پہلی بات بالجزم ہو اور اس میں اوثق راویوں کی موافقت بھی ہو۔ باقی تفصیلات پچھلے دو تین ابواب میں ذکر ہوچکی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4646  
´بیع میں اگر شرط فاسد ہو تو بیع صحیح ہو جائے گی اور شرط باطل ہو گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے، چنانچہ میں نے انہیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ ر [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4646]
اردو حاشہ:
(1) اگر کوئی شخص بیع کرتے وقت ایسی شرط لگاتا ہے جو شرعاً درست نہ ہو تو اس صورت میں بیع کرنا درست ہو گا جبکہ وہ شرط جو خلاف شریعت ہو، باطل ہو گی، لہٰذا اس شرط کو کا لعدم سمجھا جائے گا اور اس کا کوئی لحاظ نہیں ہو گا جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے۔
(2) اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور مختلف روایت میں مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں نے کہیں تفصیلی روایت بیان کی ہے اور کہیں اختصار سے کام لیا ہے اور یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ روائ حدیث کے اس قسم کے تصرف کو تمام محدثین عظام نے من و عن قبول کیا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احادیث سے مختلف احکام و مسائل اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (لہٰذا یہاں بھی مذکورہ حدیث سے علماء نے متعدد مسائل استنباط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔)
(3) مکاتبت جائز ہے۔ مکاتبت اس عہد و پیمان کو کہا جاتا ہے جو مالک اور اس کے غلام یا لونڈی کے درمیان، متعین رقم یک مشت دینا اور اس کی قسطیں کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ لونڈی یا غلام کی مکاتبت کی رقم دوسرا شخص دے سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور لونڈی و غلام کو آزاد کر دے تو وہ آزاد ہو جائیں گے، البتہ اس صورت میں اس لونڈی یا غلام کے ولاء کا حق دار آزاد کرنے والا ہو گا نہ کہ پہلا مالک۔
(4) ولاء اس ربط و تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ کے مابین، آزاد کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تعلق نہ تو بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعلق بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا تعلق ہوتا ہے جو نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ شخص کے عصبہ اور ذوی الفروض (جن کا حصہ میراث مقرر ہے) نہ ہوں تو اس کی تمام جائداد کا مالک آزاد کرنے والا ہوتا ہے۔
(5) اگر کوئی لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے لیے دستِ سوال دراز کرے تو یہ سوال کرنا درست ہے اور اس سلسلے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہیے، نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستحق آدمی کا اپنی جائز ضرورت یا ضروریات پوری کرنے کی خاطر سوال کرنا درست ہے۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے باہمی مشاورت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خصوصاً میاں بیوی کی باہمی مشاورت کا اثبات ہوتا ہے، نیز اگر بیوی خاوند سے کسی مسئلے میں مشورہ طلب کرے تو خاوند کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست مشورہ دے۔
(7) اگر لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں تو انھیں بیچا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کے الفاظ مبارک اشتريها وَ أعتقيها ہیں، یعنی اسے خریدو اور آزاد کر دو۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، المكاتب، باب المكاتب و نحوه۔۔۔۔۔۔الخ، حديث:2560،و صحيح مسلم، العتق، باب ذكر سعاية العبد، حديث:1504)
(8) اگر میاں بیوی دونوں غلام ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں اکٹھے ہی بیچے جائیں۔
(9) اس حدیث بریرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی یا غلام کے پاس مال وغیرہ نہ ہو، اس سے مکاتبت کرنا، یعنی اسے مکاتب بنانا درست ہے، خواہ اس کے پاس مال کمانے کے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔
(10) مکاتب لونڈی یا غلام اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک مکاتبت کے بابت طے شدہ ساری رقم ادا نہ کردیں۔ جب تک ان کے ذمے ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی رہیں گے اور اسی اصل کے مطابق ان پر دیگر احکام جاری ہوں گے، یعنی نکاح، طلاق اور حدود وغیرہ کے احکام غلاموں والے ہی ان پر لاگو ہوں گے۔
(11) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ظابر ہوتا ہے کہ شادی شدہ لونڈی کی فروخت اور آزادی نہ طلاق ہو گی اور نہ فسخ نکاح ہی، اس لیے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو بعد ازاں اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند مغیث کے نکاح میں رہے اور چاہے تو اس سے الگ ہوجائے۔ اس اختیار کے بعد انھوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی کو اختیار کیا۔
(12) لونڈی سے اس کا مالک جماع کر سکتا ہے، تاہم اگر وہ کسی کی بیوی ہو تو پھر جائز نہیں، نیز لونڈی کو محض بیچ دینے سے، اس کے ساتھ جماع کرنا حلال نہ ہو گا۔ سیدہ بریرہ کو خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دینا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابھی تک خاوند کے ساتھ ان کا تعلق باقی تھا۔ اگر کوئی تعلق باقی نہ رہتا تو پھر اختیار کس چیز کا تھا؟
(13) اگر بوقت سوال، سائل مجبور نہیں ہے تو سوال کر سکتا ہے، یعنی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وقت ضرورت کے آنے سے پہلے بھی اس ضرورت کی بابت سوال ہو سکتا ہے۔
(14) شادی شدہ عورت سے مدد اور مالی تعاون مانگا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مکاتبت کی بابت مالی تعاون مانگا تھا اور انھوں نے اس کی درخواست قبول فرما لی تھی اور بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کر دیا تھا۔
(15) شادی شدہ خاتون، اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے بشر طیکہ وہ تصرف کسی جائز ضرورت کی خاطر ہو۔
(16) طلب اجر کی خاطر مال خرچ کرنا بلکہ زائد از ضرورت خرچ کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت کی ساری رقم جو نو قسطوں کی نو سال میں ادائیگی کی صورت میں طے ہوئے تھی، یکمشت ادا کر دی اور انھیں اسی وقت آزاد کر دیا۔
(17) غلام اور لونڈی کے لیے اپنی آزادی کی خاطر محنت اور کوشش کرنا جائز ہے، خواہ اس مقصد کے لیے اسے کسی ایسے شخص سے سوال کرنا پڑے جو اسے خرید کر آزاد بھی کر دے۔ ایسا کرنے سے اس کے مالک کا اگر چہ نقصان بھی ہوتا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس لیے کہ شارع ﷺ نے غلام کی آزادی کو سراہا اور اس عظیم نیکی کا شوق بھی دلایا ہے، اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
(18) اگر کوئی شخص لونڈی یا غلام بیچے لیکن یہ شرط لگا لے کہ یہ میری خدمت کرتا رہے گا تو یہ شرط باطل ہو گی۔
(19) اگر مکاتب اپنی قسط کی رقم اس مال سے ادا کرے جو اس پر صدقہ کیا گیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، مالک کو ایسی رقم قبول کرنے سے تامل نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وقت مقررہ سے قبل ہی وہ رقم کی ادائیگی کر رہا ہو۔ مکاتب دراصل غلام ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمام رقم ادا نہ کر دے اور غلام پر صدقہ کرنا درست ہے۔ جب صدقہ اصل محل تک پہنچ جائے تو وہ مالدار شخص کے استعمال کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔
(20) رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک ایسی شرط لگا رہے ہیں جو شرعاً درست نہیں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کسی کا نام لیے بغیر مسئلے کی وضاحت فرمائی اور ایسی ہر شرط کو باطل قرار دیا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو۔ اس سے معلوم ہوا جب کوئی اہم شرعی معاملہ در پیش ہو تو کھڑے ہو کر خطبہ دینا مشروع ہے۔
(21) جس شخص سے کوئی غیر شرعی اور منکر کام سرزد ہو تو اس صورت میں غلط کام کرنے والے شخص کا نام لیے بغیر ہی اس کی اصلاح کی جائے۔ اس طرح کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے نہ کہ کسی کو شرمندہ اور رسوا کرنا۔
(22) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورتیں کسی شخص کے گھر میں آ سکتی ہیں، خواہ گھر کا مالک مرد اپنے گھر میں موجود ہو یا نہ ہو۔
(23) رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ مطلقاً حرام ہے۔ آپ پر نہ صدقہ کیا جا سکتا ہے اور نہ آپ صدقے کا مال کھا ہی سکتے ہیں۔ ہاں، اگر صدقہ کسی مستحق پر کر دیا جائے اور وہ نبی ﷺ کو بطور ہد یہ پیش کر دے تو یہ درست ہے۔
(24) غنی اور مالدار شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ محتاج و فقیر کا دیا ہوا ہد یہ قبول کر لے، نیز معلوم ہوا کہ صدقے اور ہدیے کا حکم الگ الگ ہے۔
(25) اگر کسی شخص کو اپنے ہاں کسی شخص کے کھانے سے خوشی ہو تو وہ شخص بلا اجازت بھی اس کے گھر سے کھا پی سکتا ہے۔
(26) ایسا سوال کرنا مستحب ہے جس سے علم حاصل ہوتا ہو یا اس سے ادب ملتا ہو یا کسی قسم کا حکم واضح ہوتا ہو یا اس سے کوئی شبہ رفع ہوتا ہو۔
(27) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی پر تھوڑی چیز صدقہ کی جائے تو اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
(28) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل ہے۔
(29)یہ حدیث مبارکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حسن ادب پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی سفارش واضح انداز میں رد نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے خاوند مغیث کی حاجت نہیں۔
(30) سفارش کرنے والے کو یقینا اس کی جائز سفارش کرنے کا اجرو ثواب مل جاتا ہے، خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا رد کر دی جائے۔
(31) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرطِ محبت انسان کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ بسا اوقات اسے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔أعاذنا الله منه۔
(32) دو باہم نفرت کرنے والوں کے مابین صلح صفائی کرانا مستحب ہے، خواہ وہ دونوں میاں بیوی ہی ہوں۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ بچے والدین کی باہمی نفرت و اختلاف کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ کو حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت سفارش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: إنَّهُ أبو ولدِكِ وہ تیرے بچے کا باپ ہے۔
(33) بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنا بھی جائز ہے۔
(34)شوہر دیدہ خاتون کو مجبور نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ آزاد کردہ ہی کیوں نہ ہو۔
(35) نکاح فسخ ہونے کی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا لیکن نیا نکاح ہو سکتا ہے۔
(36) اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہو تو اس کے سر پرست کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ عورت اپنے خاوند سے محبت کرتی ہو تو سر پرست اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی اور تفریق نہ ڈالے۔
(37) شارحینِ حدیث نے اس حدیث مبارکہ سے کم و بیش ڈیڑھ سو (150) فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار مذکورہ بالا فوائد و مسائل ہی پر اکتفا کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمایے: (ذخيرة العقبىٰ، شرح سنن النسائي للأتيوبي:9/29-19) اس روایت پر مزید بحث کے لیے دیکھیے، احادیث 3477تا3484۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4646   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4659  
´مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں، اپنی کتابت کے سلسلے میں ان کی مدد چاہتی تھیں، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم اپنے گھر والوں (مالکوں) کے پاس لوٹ جاؤ، اب اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت (کی رقم) ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہو گا تو میں ادا کر دوں گی، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے سات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4659]
اردو حاشہ:
(1)  یہ روایت اور اس پر بحث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: 3481) یہاں بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکاتب غلام بیچا جا سکتا ہے؟ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کا مالک طے کر لے کہ تو اتنی رقم اتنی قسطوں میں (یا یکمشت) اتنے عرصے تک ادا کر دے تو تجھے آزادی مل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک معاہدہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا الا یہ کہ وہ غلام راضی ہو جسے اس معاہدے کا مفاد ہے۔ اور واضح بات ہے کہ وہ تبھی راضی ہو گا اگر اسے فوری آزادی کا یقین دلا دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب معاہدے سے بڑھ کر غلام کو مفاد حاصل ہو رہا ہو اور دونوں فریق راضی ہوں تو اسے فوری آزادی کے لیے بیچنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایات میں ذکر ہے۔ ہاں، مالکان اپنے مفاد کی خاطر اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ غدر اور وعدہ خلافی ہے جس میں حکومت مداخلت کر سکتی ہے۔
(2) اس روایت کے مفصل فوائد و مسائل کے لیے ملا حظہ فرما ئیں فوائد و مسائل، حدیث: 4646
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4659   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4660  
´مکاتب نے اگر بدل کتابت میں سے کچھ نہ ادا کیا ہو تو اسے بیچا جا سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا نے آ کر کہا: عائشہ! میں نے نو اوقیہ کے بدلے اپنے گھر والوں (مالکوں) سے مکاتبت کر لی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ دوں گی تو آپ میری مدد کریں۔ (اس وقت) انہوں نے اپنی کتابت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا تھا۔ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اور ان میں دلچسپی لے رہی تھیں: جاؤ اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس اگر وہ پسند کریں کہ میں انہیں یہ رقم ادا کر دوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4660]
اردو حاشہ:
اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل، حدیث: 4646.
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4660   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2076  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ میں تین سنتیں سامنے آئیں ایک تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئیں تو انہیں اختیار دیا گیا، اور ان کے شوہر غلام تھے، دوسرے یہ کہ لوگ بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ دیا کرتے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے، تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے سلسلہ میں فرمایا: حق ولاء (غلام یا لونڈی کی میراث) اس کا ہے جو آزاد کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2076]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
ملکیت بدلنے سے چیز کاحکم بدل جاتا ہے۔
کسی غریب آدمی کو صدقے میں کوئی چیز ملے اور وہ کسی دولت مند کو تحفے کے طور پر پیش کردے یا دولت مند اس سے وہ چیز خرید لے تو دولت مند کے لیے وہ چیز صدقے کے حکم میں نہیں ہوگی۔

(2)
  ولاء سے مراد وہ تعلق ہے جو آزاد کرنے والے اور آزاد ہونے والے کے درمیان آزاد کرنے کی وجہ سے قائم ہوتا ہے۔
اس تعلق کی وجہ سے آزاد ہونےوالا اسی خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہے جس سے آزاد کرنےوالے کا تعلق ہے۔
آزاد ہونےوالے کا اگر کوئی اور وارث نہ ہو تو آزاد کرنےوالا اس کا وارث ہوتا ہے۔
اس کو حق ولاء کہا جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2076   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1256  
´ولاء کی شرط لگانے اور اس پر سرزنش کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ (لونڈی) کو خریدنا چاہا، تو بریرہ کے مالکوں نے ولاء ۱؎ کی شرط لگائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے فرمایا: تم اسے خرید لو، (اور آزاد کر دو) اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہو گا جو قیمت ادا کرے، یا جو نعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1256]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑکر مرے،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بائع کے لیے ولاء کی شرط لگانا صحیح نہیں،
ولاء اسی کا ہوگا جو خرید کر آزاد کرے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1256   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2125  
´ولاء (میراث) کا حق آزاد کرنے والے کو حاصل ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خریدنے (اور آزاد کرنے) کا ارادہ کیا تو بریرہ کے گھر والوں نے ولاء (میراث) کی شرط رکھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولاء (میراث) کا حق اسی کو حاصل ہے جو قیمت ادا کرے یا آزاد کرنے کی نعمت کا مالک ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2125]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ولاء سے مراد وہ حقوق ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کئے ہوئے کی نسبت سے حاصل ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2125   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3777  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، بریرہ ان کے پاس اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے سلسلہ میں مدد لینے کے لیے آئی، اور اس نے اپنی مکاتبت کی رقم میں سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسے کہا، اپنے مالکوں کے پاس جاؤ، اگر وہ چاہیں تو میں تمہارا تمام بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں اور تیری نسبت آزادی میری طرف ہو گی، میں رقم دے دیتی ہوں، حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے مالکوں سے کیا، تو انہوں نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3777]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

ایسی شرط جو شرعی حکم کے منافی ہو،
اور وہ حکم شرعی واضح ہو تو ایسی شرط لغو ہوگی۔
اس کا لگانا اور نہ لگانا برابر ہے اور وہ کالعدم ہو گی،
کیونکہ ایسی شرط کا پورا کرنا شرعی طورپر ان کے بس میں نہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ کہنا کہ میں تمھارا بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں،
اس سے ان کا اصل مقصد،
بریرہ کو خرید کر آزاد کرنا تھا۔
جیسا کہ پہلی روایت میں:
(ارادت ان تَشتَري جَارِيَة)
کہ آزاد کرنے کے ارادہ سے لونڈی خریدنی چاہی کیونکہ اگر مقصود محض بدل کتابت کی ادائیگی ہوتا تو یہ تو محض ایک نیکی اور تبرع کا کام ہوتا،
اور اس صورت میں نسبت آزادی مکاتبت کرنے والے مالک کی طرف ہوتی،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابتَاعِي فَاعتَقِي)
خریدکر آزادکرو
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
مکاتب غلام یا لونڈی اگر اس بات پر آمادہ ہو کہ اس کو دوسرا فرد خرید کر آزاد کر دے،
تو اس کو خریدنا جائز ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو نخعی کا یہی موقف ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکاتب غلام یا لونڈی کو خریدنا جائز نہیں ہے جب تک وہ بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز ہو کر دوبارہ غلام نہ بن جائے،
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر غلام بیع پر آمادہ ہو تو پھر جائز ہے وگرنہ نہیں۔

(لَيسَ فِي كِتَابِ الله)
کا معنی ہے شرط جو اللہ کے قانون اور حکم کے منافی ہو وہ حکم قرآنی سے ثابت ہو یا سنت سے یا جس کا جواز اللہ کے حکم سے ثابت نہ ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3777   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3779  
حضرت عائشہ ‬ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میرے پاس بریرہ ‬ رضی اللہ تعالی عنہا آئی اور کہا، میرے مالکوں نے میرے ساتھ، نو سال کے عرصہ کے لیے نو اوقیہ پر کتابت کی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا، آپ میرا تعاون فرمائیں، تو میں نے اسے جواب دیا، اگر تیرے مالک چاہیں تو میں ساری رقم یکمشت ادا کر کے تمہیں آزاد کر دیتی ہوں اور نسبت آزادی میری طرف ہو گی، تو میں ایسا کر دیتی ہوں، اس نے اس کا ذکر اپنے مالکوں سے کیا انہوں نے ولاء اپنے لیے لیے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3779]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
كاتبوني:
کتابت معنی ہے کہ غلام اپنے آقا کو کہتا ہے،
میں آپ کو اتنی رقم،
اتنی قسطوں میں،
اتنے عرصہ میں ادا کروں گا اور آپ مجھے آزاد کر دیں،
قسطوں کی مکمل ادائیگی کے بعد غلام آزاد ہو جائے گا،
اگر آقا نے اس کی بات کو مان لیا،
آقا خود بھی یہ پیشکش کر سکتا ہے۔
فوائد ومسائل:
آپﷺ کسی کی غلطی اور گناہ پر تمام کے سامنے رو برو نام لے کر آگاہ نہیں کرتے تھے۔
بلکہ نام لیے بغیر اس کام سے ٹوک دیتے تھے اور آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شرط کے قبول کر لینے کا حکم اس لیے دیا۔
تاکہ اس طرح اس سے روکنے اور سب کو آگاہ کرنے کی صورت پیدا ہو جائے اور پھر وہ خود بخود ہی اس شرط سے دستبردار ہو جائیں گے،
اس کا مطالبہ چھوڑدیں گے اور لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ کے حکم کے منافی شروط کالعدم ہیں ان کے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3779   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3783  
حضرت عائشہ ‬ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، اس نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا تو انہوں نے اس کی ولاء کی شرط لگائی، تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو خرید لے اور اس کو آزاد کر دے، ولاء تو اسے ہی ملے گا جو آزاد کرے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ میں گوشت پیش کیا گیا، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا یہ بریرہ کو صدقہ میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3783]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے کہ بریرہ کا خاوند جس کا نام مغیث تھا وہ اس کے پیچھے پیچھے روتا ہوا گردش کر رہا تھا اور اس کے آنسو اس کی داڑھی پر رواں تھے مجھے یہ منظر اب بھی یاد ہے،
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا،
اے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما! کیا تمھیں اس پر حیرت نہیں ہو رہی کہ مغیث کو بریرہ سے کس قدر پیار ہے اور بریرہ کو مغیث سے کس قدر نفرت ہے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بریرہ کو اختیار دینے کا سبب اس کا غلام ہونا تھا،
اگر وہ آزاد ہوتا تو بیوی کو اختیار نہ ملتا آئمہ ثلاثہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نخعی اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک لونڈی کو آزاد ہونے پر ہر حالت میں اختیار ملے گا خاوند آزاد ہو یا غلام اور اہل ظاہر کا موقف بھی یہی ہے اور اس اختلاف کا اصل سبب مغیث کا ذاد یا غلام ہونا ہے۔
آئمہ ثلاثہ اس کے بریرہ کی آزادی کے وقت غلام ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگرچہ بعد میں وہ بھی آزاد ہو گیا تھا،
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا جب کسی محتاج اور فقیر کو کوئی چیز صدقہ میں ملے تو وہ اس کا مالک بن کر جو چاہے اس میں تصرف کر سکتا ہے اور اب اگر وہ دوسرے کو تحفہ دیتا ہے یا بیچتا ہے تو وہ صدقہ نہیں رہے گا،
اور اس صورت میں اس کو ہاشمی اور مال دار بھی اگر وہ کھانے کی چیز ہے کھا سکے گا۔
حضرت بریرہ‬ رضی اللہ تعالی عنہا کے ان تینوں واقعات سے علماء نے چار سو مسائل کا استنباط کیا ہے اور بعض آئمہ نے اس حدیث پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور سنن دارقطنی میں ایک چوتھے فیصلہ کا ذکر ہےکہ آپﷺ نے آزاد عورت والی عدت پوری کرنے کا حکم دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3783   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1493  
1493. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو آزاد کرنے کے لیے انھیں خریدنے کاارادہ کیا لیکن حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ان کی ولا کی شرط عائد کردی۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر یا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے خرید لو، ولا تو اس کےلیے ہے جو اسے آزاد کرے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ ؓ صدقے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1493]
حدیث حاشیہ:
غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاء کہا جاتا ہے۔
گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے۔
اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1493   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2155  
2155. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے (حضرت بریرہ ؓ کو خرید کا) ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم(بریرہ کو) خرید کر آزاد کرسکتی ہو۔ ولاء تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر آپ شام کے وقت منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان وشان حمد وثنا کی، اسکے بعد فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں۔ جس نے ایسی شرط لگائی جو کتاب اللہ میں نہیں تو وہ باطل ہے اگرچہ اس طرح کی سو شرطیں لگائے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ سچی اور مضبوط ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2155]
حدیث حاشیہ:
اور حدیث میں جو شرطیں پیغمبر ﷺ نے بیان فرمائی ہیں وہ بھی اللہ ہی کی لگائی ہوئی ہیں۔
کیوں کہ جو کچھ حدیث میں ہے وہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔
یہ خطبہ آپ ﷺ نے اس وقت سنایا جب بریرہ ؓ کے مالک حضرت عائشہ ؓ سے یہ شرط لگاتے تھے کہ ہم بریرہ ؓ کو اس شرط پر بیچتے ہیں کہ اس کا ترکہ ہم لیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2155   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2156  
2156. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2156]
حدیث حاشیہ:
ان ہر دو احادیث میں حضرت بریرہ ؓ کی اپنے مالکوں سے مکاتبت کا ذکر ہے یعنی غلام یا لونڈی اپنی مالک سے طے کرلے کہ اتنی مدت میں وہ اس قدر روپیہ یا کوئی جنس وغیرہ ادا کرے گا۔
اور اس شرط کے پورا کرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔
تو اگر وہ شرط پوری کردی گئی اب وہ آزاد ہو گیا۔
بریرہ ؓ نے بھی اپنے مالکوں سے ایسی ہی صورت طے کی تھی۔
جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کیا۔
جس پر حضرت عائشہ ؓ نے یکمشت سارا روپیہ ادا کرنے کی پیش کش کی۔
اس شرط پر کہ بریرہ ؓ کی ولاءحضرت عائشہ ؓ ہی سے قائم ہو اور مالکوں کو اس بارے میں کوئی مطالبہ نہ رہے۔
ولاءکے معنی یہ کہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھائی چارہ کا رشتہ اپنے سابقہ مالک سے قائم رکھے۔
خاندانی طور پر اسی کی طرف منسوب رہے۔
حتی کہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا حقدار بھی اس کا مالک ہی ہو۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کش کو انہوں نے سلسلہ ولاءکے ختم ہوجانے کے خطرہ سے منظور نہیں کیا۔
جس پر آنحضرت ﷺ نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی کہ یہ بھائی چارگی تو اس کے ساتھ قائم رہے گی۔
جو اسے خرید کر آزاد کرے نہ کہ سابق مالک کے ساتھ۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدا اور آزاد کردیا، اور سلسلہ ولاءسابقہ مالک سے توڑ کر حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ قائم کر دیا گیا۔
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
جن کا استخراج امام الفقہاءو المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی جامع الصحیح میں جگہ جگہ کیا ہے۔
امام شوکانی اس سلسلہ میں مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں:
أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قد کان أعلم الناس أن اشتراط الولاءباطل و اشتهر ذلك بحیث لا یخفی علی أهل بریرة فلما أرادوا أن یشرطوا ما تقدم لهم العلم ببطلانه أطلق الأمر مریدا به التهدید کقوله تعالیٰ (اعملوا ماشتئم)
فکأنه قال اشترطي لهم الولاءفسیعلمون أن ذلك لا ینفعهم و یؤید هذا ما قاله صلی اللہ علیه وسلم ذلك ما بال رجال یشترطون شروطا الخ (نیل)
یعنی نبی کریم ﷺ خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول اس قدر مشتہرہو چکا تھا کہ اہل بریرہ سے بھی یہ مخفی نہ تھا۔
پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشتراط پر اصرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے، جیسا کہ قرآن آیت اعملوا ما شئتم (فصلت: 40)
میں ہے کہ تم عمل کرو جو چاہو۔
یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے۔
گویا آپ نے فرمایا کہ ان کے ولاءکی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس مفہوم کی تائید آپ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو آپ ﷺ نے فرمایا۔
کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں ہیں۔
پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں، خواہ ان کو لگا بھی لیا جائے مگراسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2156   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2536  
2536. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت بریرہ ؓ کوخریدا تو اس کے مالکوں نے ولا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے(خریدکر)آزاد کردو۔ ولاتو اسی کی ہے جو قیمت ادا کرے۔ چنانچہ میں نے اسے (خریدکر) آزاد کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بلا کر اس کے شوہر کے متعلق اسے اختیار دیا تو حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دے تو میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اس نے خود کواختیار کیا، یعنی وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2536]
حدیث حاشیہ:
اس کے خاوند کا نام مغیث تھا۔
وہ غلام تھا۔
لونڈی جب آزاد ہوجائے تو اس کو اپنے خاوند کی نسبت جو غلام ہو اختیار ہوتا ہے خواہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغیث آزاد تھا مگر قسطلانی نے اس کے غلام ہونے کو صحیح کہا ہے۔
یہ مغیث بریرہ کی جدائی پر روتا پھرتا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے بھی بریرہ ؓ سے سفارش فرمائی کہ مغیث کا نکاح باقی رکھے مگر بریرہ نے کسی طرح اس کے نکاح میں رہنا منظور نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2536   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2565  
2565. حضرت ایمن حبشی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں عتبہ بن ابو لہب کا غلام تھا، وہ مرگیاہے اور اس کے بیٹے میرے وارث بنے ہیں۔ انھوں نے مجھے ابو عمرو (مخذومی) کے بیٹے کے ہاتھ فروخت کردیاہے اور ابو عمرو کے بیٹے نے مجھے آزاد کردیا ہے۔ اب عتبہ کے بیٹے میری ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ مقدمہ سن کر)فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: مجھے خرید کر آزاد کردیں۔ اس(عائشہ ؓ) نے کہا: ٹھیک ہے میں یہ کرتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا: وہ میری ولا کی شرط کے بغیر مجھے فروخت نہیں کریں گے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ از خود سنا، یا آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے جو کچھ حضرت بریرہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2565]
حدیث حاشیہ:
حضرت عتبہ ؓ ابولہب کے بیٹے تھے۔
رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی۔
یہ فتح مکہ کے سال اسلام لائے۔
حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے اپنے کو خریدنے اور آزاد کردینے کی درخواست کی تھی۔
اسی سے مضمون کا باب ثابت ہوا۔
الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں 5 اپریل (1970ء)
کو یہاں تک متن بخاری شریف کے پڑھنے سے فارغ ہوا۔
ساتھ ہی دعاءکی کہ اللہ پاک خدمت بخاری شریف میں کامیابی بخشے اور ان سب دوستوں بزرگوں کے حق میں اسے بطور صدقہ جاریہ قبول کرے جو اس عظیم خدمت میں خادم کے ساتھ ہر ممکن تعاون فرمارہے ہیں۔
جزاهم اللہ أحسن الجزاء في الدنیا والآخرہ۔
آمین سند میں ایمن ؒ کا نام آیا ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
هو أیمن الحبشي المکي نزیل المدینة والد عبدالواحد وهو غیر أیمن بن نایل الحبشي المکي نزیل عسقلان وکلاهما من التابعین ولیس لوالد عبدالواحد في البخاري سوی خمسة أحادیث هذا وآخران عن عائشة وحدیثان عن جابر وکلها متابعة ولم یروعنه غیرولدہ عبدالواحد (فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2565   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2717  
2717. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اور وہ ان سے اپنی کتابت کی رقم کے سلسلے میں مددلینا چاہتی تھیں، جبکہ انھوں نے کتابت کی رقم سے ابھی کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے آقاؤں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں تو میں تیری کتابت کی رقم یکمشت ادا کر دوں بشرطیکہ تیری ولا میرے لیےہو گی، میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا: اگرحضرت عائشہ ؓ ثواب لینے کے لیے ایسا کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن ولا ہمارے لیے رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے جب اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کرو۔ ولا تو اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2717]
حدیث حاشیہ:
بیع میں خلاف شرع شرطیں لگانا جائز نہیں، اگر کوئی ایسی شرطیں لگائے بھی تو وہ شرطیں باطل ہوں گی، باب اور حدیث کا یہاں یہی مقصد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2726  
2726. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں، عرض کیا: اُم المومنین!آپ مجھے خرید لیں کیونکہ میرے مالک مجھے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ مجھے آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میرے مالکان مجھے فروخت کرنے پر راضی تو ہیں لیکن وہ اپنے لیے ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر مجھے تیرے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود سنایا کسی نے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: بریرہ ؓ کا کیا ماجرا ہے؟ (حضرت عائشہ ؓ نے بتایا تو) آپ نے فرمایا: اسے خرید لو اور آزاد کرو، وہ لوگ جو چاہیں شرطیں لگاتے پھریں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا لیکن اس کے مالکان نے ولا کی شرط کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ولاتو اس کا حق ہے جو اس کو آزاد کرے اگرچہ مالکان سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2726]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ غلط شرطوں کے ساتھ جو معاملہ ہو وہ شرطیں ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی اور معاملہ منعقد ہوجائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2726   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5279  
5279. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بریرہ‬ ؓ ک‬ے معاملے میں تین مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا تو انہیں اپنے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولاء کا حق دار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لائے تو ایک ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن جب کھانا پیش کیا گیا تو روٹی اور گھر کا سالن ہی تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھ رہا جس میں گوشت تھا؟ اہل خانہ نے عرض کی: جی ہاں، لیکن وہ گوشت سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬و صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ نے فرمایا: اس (بریرہ ؓ) کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5279]
حدیث حاشیہ:
جب تک خاوند طلاق نہ دے جمہورکا یہی مذہب ہے لیکن ابن مسعود اور ابن عباس اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ لونڈی کی بیع طلاق ہے۔
تابعین میں سے سعید بن مسیب اور حسن اور مجاہد بھی اسی کے قائل ہیں۔
عروہ نے کہا طلاق خریدارکے اختیار میں رہے گی۔
حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ جب آپ نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد ہونے کے بعد اختیار دیا کہ اپنے خاوند کو رکھ یا جدا ہو جا۔
تو معلوم ہوا کہ کہ لونڈی کا آزاد ہونا طلاق نہیں ہے ورنہ اختیار کے کیا معنی ہوتے اور جب آزادی طلاق نہیں ہوتی تو بیع بھی طلاق نہ ہوگی۔
حضرت ا مام بخاری رحمہ اللہ کی باریکی استنباط اور تفقہ کی دلیل ہے۔
بے وقوف ہیں وہ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت کے قائل نہیں ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ مجتہد مطلق اور فقہ الحدیث میں امام الفقہاء ہیں۔
گر نہ بیند بر وز شپرئہ چشم چشمہ آفتاب راجہ گناہ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5279   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5284  
5284. سیدنا اسود سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے جب سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬و خریدنے کا ارادہ کیا تو بریرہ‬ ؓ ک‬ے آقاؤں نے انکار کر دیا۔ وہ ولاء اپنے لیے ہونے کی شرط لگاتے تھے، سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم بریرہ کو خرید کر آزاد کر دو۔ ولاء تواس کے لیے ہے جو اسے آزاد کرے۔ نبی ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور کہا گیا: یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ‬ ؓ پ‬ر صدقہ کیا گیا ہے نبی ﷺ نے فرمایا: وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ شعبہ کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ بریرہ‬ ؓ ک‬و اس کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5284]
حدیث حاشیہ:
حدثنا آدم حدثنا شعبة وزاد فخيرت من زوجها‏.‏ ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا اور اس روایت میں یہ اضافہ کیا کہ پھر (آزادی کے بعد)
انہیں ان کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے پاس رہیں اور اگر چاہیں ان سے اپنا نکاح توڑ لیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5284   

    
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو ظہر ٹھنڈے وقت پڑھتے دیکھا۔ [موطا امام مالك: 11]
11.
فائدہ:
«عَشِي» کا وقت زوال کے فوراََ بعد سے لے کر مغرب تک رہتا ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے، فقیہ مدینہ قاسم بن محمد رحمہ اللہ اپنے اس فرمان سے ان لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو زوال کے فوراً بعد نمازِ ظہر ادا کرنے کو معمول بناتے ہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زوال آفتاب کے بعد کچھ وقت گزار کر ہی ظہر پڑھا کرتے تھے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«كَانَتْ قَدْرُ صَلَاةِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي الصَّيْفِ ثَلاثَةَ أَقْدَامِ إِلى خَمْسَةِ أَقْدَامٍ وَفِي الشَّتَاءِ خَمْسَةَ أَقْدَامٍ إِلى سَبْعَةِ أَقْدَامٍ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ظہر کا گرمیوں میں اندازہ یہ تھا کہ (آپ اُس وقت اسے پڑھتے جب سورج ڈھلنے کے بعد سایہ) تین سے پانچ قدم تک ہو جاتا اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہو جاتا۔
[ابوداود: 400، نسائي: 504، اس كي سند صحيح هے]

------------------

جمعہ کے وقت کا بیان
فائدہ:
جمعہ چونکہ نمازِ ظہر کا بدل ہے اس لیے اس کا وقت بھی ہو بہو ظہر والا ہی ہے، یعنی زوالِ آفتاب سے لے کر سایہ ایک مثل ہونے تک رہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اول وقت ہی میں جمعہ ادا کیا کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمعہ کی تیاری اور اس میں جلدی حاضر ہونے کا اس قدر شوق رکھتے اور اہتمام کرتے تھے کہ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد تک مؤخر کر دیتے۔
[صحيح بخاري: 939، صحيح مسلم: 859]
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جمعہ پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ [صحيح بخاري: 904] حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جمعہ اس وقت ادا کرتے جب زوالِ آفتاب ہو جاتا۔ [صحيح مسلم: 860]
   موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 11   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1493  
1493. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو آزاد کرنے کے لیے انھیں خریدنے کاارادہ کیا لیکن حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ان کی ولا کی شرط عائد کردی۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر یا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے خرید لو، ولا تو اس کےلیے ہے جو اسے آزاد کرے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ ؓ صدقے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1493]
حدیث حاشیہ:
(1)
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد جو تعلق آزاد کنندہ اور آزاد کردہ کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے ولاء کہتے ہیں۔
یہ تعلق اصل مالک کے بجائے آزاد کرنے والے سے قائم ہوتا ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آزاد شدہ غلام کے مرنے کے بعد اگر اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کنندہ کو ملتا ہے۔
(2)
حضرت بریرہ ؓ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں، اس لیے ان کے لیے صدقہ جائز تھا اور جب صدقہ اپنے محل پر پہنچ جائے تو اس کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
اب دوسروں کے لیے استعمال کرنا جائز ہوتا ہے جو پہلے اسے استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہوتے کیونکہ جو چیز کسی علت کے باعث حرام ہوئی ہو اس علت کے زائل ہونے سے حلال ہو جاتی ہے، اس لیے صدقہ کردہ گوشت رسول اللہ ﷺ استعمال کر لیتے تھے۔
(3)
صدقے میں ثواب کے ساتھ عبادت کا پہلو غالب ہوتا ہے جبکہ ہدیہ میں ثواب کے ساتھ باہمی محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1493   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2156  
2156. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2156]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو کسی آزاد کردہ غلام اور اس کے آزا دکرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلام مرتے دم تک خاندانی طور پر اپنی نسبت اپنے محسن آزاد کرنے والے کی طرف کرتا ہے اور مرنے کے بعد اس کے ترکے کا حق دار بھی وہی محسن ہوتا۔
دور جاہلیت میں اس نسبت کا حق دار سابقہ مالک ہوتا تھا،خواہ آزاد کرنے والا کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت بریرہ ؓ کے مالکان اسی شرط جاہلیت پر اصرار کرتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے برسرما تردیدد فرمائی۔
(2)
اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ثبوت ملتا ہے اور عنوان کے ساتھ مطابقت بھی یہی ہے کہ عورتیں خریدوفروخت کرسکتی ہیں۔
اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔
(3)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں جن کی موقع ومحل کے اعتبار سے وضاحت ہوتی رہے گی۔
(4)
اس روایت کے آخر میں حضرت بریرہ ؓ کے خاوند حضرت مغیث ؓ کے متعلق حضرت نافع نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت وہ غلام تھا یا آزاد،اسی طرح ایک روایت میں شعبہ نے اپنے شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔
(صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2578)
البتہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت بیان کی ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت اس کا خاوند غلام تھا اور وہ اپنی شریکہ حیات کے فراق پر مدینے کے گلی کوچوں میں روتا اور آنسو بہاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس کیفیت پر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو اسے بطور خاوند قبول کرنے کے متعلق مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے علیحدگی کو اختیار کیا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5283،5282)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2156   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2536  
2536. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت بریرہ ؓ کوخریدا تو اس کے مالکوں نے ولا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے(خریدکر)آزاد کردو۔ ولاتو اسی کی ہے جو قیمت ادا کرے۔ چنانچہ میں نے اسے (خریدکر) آزاد کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بلا کر اس کے شوہر کے متعلق اسے اختیار دیا تو حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دے تو میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اس نے خود کواختیار کیا، یعنی وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2536]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ولاء اس شخص کے لیے ہے جو قیمت ادا کر کے اسے آزاد کرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ولاء قابل انتقال حق نہیں ہے، یعنی فروخت اور ہبہ کرنے سے دوسرے کو منتقل نہیں ہو سکتا، عنوان کا یہی مقصد ہے۔
(2)
علامہ خطابی فرماتے ہیں:
ولاء نسب کی طرح ہے، جس نے آزاد کیا ولاء اسی کا حق ہے، جیسے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو نسب بھی اسی کا ثابت ہو گا۔
اگر وہ غیر کی طرف منسوب ہو تو اس کے والد سے یہ نسب منتقل نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح ولاء بھی اپنے محل سے منتقل نہیں ہو گی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
ولاء بھی نسب کی طرح ایسا رشتہ ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے بطور ہبہ ہی دیا جا سکتا ہے۔
(صحیح ابن حبان، البیوع، حدیث: 4929)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2536   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2565  
2565. حضرت ایمن حبشی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں عتبہ بن ابو لہب کا غلام تھا، وہ مرگیاہے اور اس کے بیٹے میرے وارث بنے ہیں۔ انھوں نے مجھے ابو عمرو (مخذومی) کے بیٹے کے ہاتھ فروخت کردیاہے اور ابو عمرو کے بیٹے نے مجھے آزاد کردیا ہے۔ اب عتبہ کے بیٹے میری ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ مقدمہ سن کر)فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: مجھے خرید کر آزاد کردیں۔ اس(عائشہ ؓ) نے کہا: ٹھیک ہے میں یہ کرتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا: وہ میری ولا کی شرط کے بغیر مجھے فروخت نہیں کریں گے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ از خود سنا، یا آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے جو کچھ حضرت بریرہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2565]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے درخواست کی کہ اسے خرید کر آزاد کر دیں۔
اس سے امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہوتا ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کے وقت اس طرح شرط لگانا جائز ہے اور عقد معاملہ کے منافی نہیں۔
یہ واقعہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے خریدنے سے مکاتبت کا معاہدہ خودبخود فسخ ہو گیا۔
(فتح الباري: 242/5) (2)
شادی شدہ لونڈی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عقد کتابت کر سکتی ہے اگرچہ اس کا نتیجہ ان میں جدائی اور فراق ہو، نیز وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر آزادی حاصل کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ شارح بخاری ابن بطال کے قول کے مطابق بعض متاخرین نے حدیث بریرہ سے سو سے زائد مسائل کا استنباط کیا ہے۔
امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ اور امام ابن جریر نے اس حدیث کے متعلق مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔
بعض حضرات نے حدیث بریرہ کے فوائد چار سو تک پہنچا دیے ہیں لیکن تکلف سے کام لیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے "کتاب المکاتب" کے جملہ مسائل اسی ایک حدیث سے اخذ کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سے نوازا ہے۔
امید ہے کہ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و معیت نصیب فرمائے گا۔
بندۂ عاجز بھی اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کا طلبگار اور اس کی مغفرت کا امیدوار ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2578  
2578. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے یہ شرط لگائی کہ اس کی ولا ان کو حاصل ہوگی۔ نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا گیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم خرید کر اسے آزاد کردو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضرت بریرہ ؓ کو صدقے کاگوشت ملا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ بریرہ کو بطور صدقہ ملا ہے۔ تب آپ نے فرمایا: یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ نیز جب وہ آزاد ہوئی تو خاوند کے معاملے میں اسے اختیار دیاگیا۔ (راوی حدیث) عبدالرحمان نے کہا: اس کا خاوند آزاد تھا یا غلام۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمان سے اس کے خاوند کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ وہ آزاد تھا یا غلام۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2578]
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓ تین شرعی احکام کا ذریعہ بنیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ غلام لونڈی کی ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔
٭ صدقے کی چیز جب کوئی غریب کسی کو ہدیہ دے تو وہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ اس کا حکم بدل جاتا ہے۔
٭ غلامی سے نجات پا کر شادی شدہ لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ خاوند سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کا خاوند غلام ہو۔
بہرحال اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اسے اپنے استعمال میں لاتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2578   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2717  
2717. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اور وہ ان سے اپنی کتابت کی رقم کے سلسلے میں مددلینا چاہتی تھیں، جبکہ انھوں نے کتابت کی رقم سے ابھی کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے آقاؤں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں تو میں تیری کتابت کی رقم یکمشت ادا کر دوں بشرطیکہ تیری ولا میرے لیےہو گی، میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا: اگرحضرت عائشہ ؓ ثواب لینے کے لیے ایسا کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن ولا ہمارے لیے رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے جب اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کرو۔ ولا تو اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2717]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے خریدوفروخت میں شرط کے جائز یا ناجائز ہونے کی وضاحت نہیں کی بلکہ اسے مطلق رکھا ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولا کی شرط بھی کر لو۔
بلاشبہ ولا تو اسی کی ہے جس نے آزاد کیا ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2168)
اس روایت کے مطابق اگر خریدوفروخت کرتے وقت کوئی ناجائز شرط رکھی گئی تو بیع صحیح اور شرط باطل ہو گی جبکہ بعض فقہاء کے ہاں بیع اور شرط دونوں باطل ہوں گی۔
اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو گی۔
(عمدة القاري: 611/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2726  
2726. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں، عرض کیا: اُم المومنین!آپ مجھے خرید لیں کیونکہ میرے مالک مجھے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ مجھے آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میرے مالکان مجھے فروخت کرنے پر راضی تو ہیں لیکن وہ اپنے لیے ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر مجھے تیرے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود سنایا کسی نے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: بریرہ ؓ کا کیا ماجرا ہے؟ (حضرت عائشہ ؓ نے بتایا تو) آپ نے فرمایا: اسے خرید لو اور آزاد کرو، وہ لوگ جو چاہیں شرطیں لگاتے پھریں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا لیکن اس کے مالکان نے ولا کی شرط کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ولاتو اس کا حق ہے جو اس کو آزاد کرے اگرچہ مالکان سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2726]
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے مکاتبت کا معاہدہ کر رکھا تھا۔
اس نے ام المومنین عائشہ ؓ سے عرض کی کہ وہ اسے خرید لیں لیکن یہ شرط رکھی کہ خریدنے کے بعد اسے آزاد کرنا ہو گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مکاتب اس شرط پر فروخت ہونے کے لیے راضی ہو جائے کہ اسے خرید کر آزاد کر دیا جائے گا تو ایسا کرنا جائز ہے۔
شرعاً اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، البتہ غلط شرائط کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے وہ ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے ایک غلط شرط لگائی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس شرط کو کالعدم قرار دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2726   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5097  
5097. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: کہ سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬ے ساتھ تین سنتیں قائم ہوئی ہیں: انہیں آزاد کیا یا اور اختیار دیا گیا، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولاء کا تعلق آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی چولہے پر تھی۔ آپ کے لیے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا: کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھی۔؟عرض کی گئی۔ وہ تو اس گوشت کی تھی جو سیدہ بریرۃ ؓ کو صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ تھا اور (اب) ہمارے لیے (اس کی طرف سے) تحفہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5097]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کو جب آزادی ملی تو انھیں اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سے اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہیں اور اگر چاہیں تو اس کے ہاں رہ سکتی ہیں۔
یہ اختیار اس بنا پر دیا گیا کہ آزادی کے وقت ان کا شوہر غلام تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5282)
جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا تو انھوں نے اپنے خاوند مغیث سے علیحدگی کو اختیار کیا، وہ گلی کوچوں میں ان کے پیچھے روتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش فرمائی:
تم اسے خاوند کی حیثیت سے قبول کرلو۔
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
اگر آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، اگر سفارش ہے تو میں معذرت کرتی ہوں۔
آپ نے اس کا برا نہ منایا۔
(صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5283)
اگر آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سفارش کیوں فرماتے؟ (2)
اس سفارش سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا جائز ہے۔
اس کی تفصیل ہم کتاب الطلاق میں بیان کریں گے۔
بإذن الله تعاليٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5097   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5279  
5279. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بریرہ‬ ؓ ک‬ے معاملے میں تین مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا تو انہیں اپنے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولاء کا حق دار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لائے تو ایک ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن جب کھانا پیش کیا گیا تو روٹی اور گھر کا سالن ہی تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھ رہا جس میں گوشت تھا؟ اہل خانہ نے عرض کی: جی ہاں، لیکن وہ گوشت سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬و صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ نے فرمایا: اس (بریرہ ؓ) کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5279]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں چار مسئلے معلوم ہوئے:
ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد عورت کی طرح عدت گزارنے کا حکم دیا۔
(مسند Eحمد: 361/1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو تین حیض بطور عدت گزارنے کا حکم دیا گیا۔
(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2077)
جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد ہوئیں تو انھیں اپنے خاوند کے متعلق اختیار دیا گیا، اگر محض بیع سے طلاق واقع ہو جاتی تو اختیار دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
اختیار دینے کا مطلب ہے کہ وہ ابھی اپنے خاوند کے نکاح میں ہے، جب آزاد ہونے سے طلاق واقع نہیں ہوتی تو بیچنے سے بطریق اولی طلاق نہیں ہوگی۔
(2)
بہرحال منکوحہ لونڈی کا مالک حق طلاق سے محروم ہے۔
اسے طلاق دینے کا اختیار اس کے خاوند کو ہے جو فروخت کرنے سے ختم نہیں ہوگا۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5279   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5284  
5284. سیدنا اسود سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے جب سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬و خریدنے کا ارادہ کیا تو بریرہ‬ ؓ ک‬ے آقاؤں نے انکار کر دیا۔ وہ ولاء اپنے لیے ہونے کی شرط لگاتے تھے، سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم بریرہ کو خرید کر آزاد کر دو۔ ولاء تواس کے لیے ہے جو اسے آزاد کرے۔ نبی ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور کہا گیا: یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ‬ ؓ پ‬ر صدقہ کیا گیا ہے نبی ﷺ نے فرمایا: وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ شعبہ کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ بریرہ‬ ؓ ک‬و اس کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5284]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کو بلا عنوان رکھا ہے کیونکہ یہ پہلے باب سے متعلق ہے۔
یہ حدیث کئی مرتبہ پہلے گزر چکی ہے اور اس سے بے شمار فقہی احکام ثابت ہوتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بہت سے احکام کی نشاندہی کی ہے جو آٹھ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
اہل علم حضرات کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف کس قدر وسعت علم رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ جنت الفردوس میں جمع کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5284   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5430  
5430. سیدنا قاسم بن محمد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا بریرہ‬ ؓ س‬ے تین شرعی حکم وابستہ ہیں: پہلا یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا تاکہ اسے آزاد کر دیں لیکن اس کے آقاؤں نے کہا کہ ولاء ہمارے لیے ہوگی۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم چاہتی ہو تو ان سے یہ شرط کر لو لیکن ولاء اس کے لیے ہوگی جو اس کو آزاد کرے۔ دوسرا یہ کہ سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬و آزاد کر دیا گیا تو اسے اختیار دیا گیا کہ اپنے شوہر کے نکاح میں رہے یا اس سے علیحدہ ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لے گئے، جبکہ (وہاں) آگ پر ہانڈی ابل رہی تھی۔ آپ نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کر دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں گوشت دیکھ رہا ہوں؟ اہل خانہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ گوشت ہے جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5430]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سالن کے بجائے گوشت کو پسند فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو گوشت پسند تھا۔
دنیا اور آخرت میں گوشت تمام سالنوں کا سردار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کی دعوت کی تو انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
گویا تجھے معلوم ہے کہ ہمیں گوشت محبوب ہے۔
(مسند أحمد: 303/3)
اور جن اسلاف سے گوشت پر دوسری اشیاء کی ترجیح منقول ہے، اس سے مراد ان کی قناعت پسندی ہے تاکہ انسان عمدہ چیزوں کا عادی نہ بن جائے۔
بہرحال گوشت ایک بہترین سالن ہے اگر کوئی اسراف و تبذیر سے بالاتر ہو کر اس کا اہتمام کرتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(فتح الباري: 688/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5430   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6717  
6717. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے سیدہ بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے شرط عائد کی کہ ولا ان کی ہوگی۔ سیدہ عائشہ نے جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اسے خرید کر آزاد کر دو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6717]
حدیث حاشیہ:
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو مالک اور غلام کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
جب غلام مر جاتا ہے تو اس کا ترکہ ولاء کی وجہ سے مالک کو ملتا ہے۔
اگر کوئی کسی مالک سے خرید کر اسے آزاد کرتا ہے تو ولاء آزاد کرنے والے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
اگر کفارۂ قسم میں کوئی غلام کسی سے خرید کر آزاد کرتا ہے تو اس صورت میں بھی ولاء اس کی ہو گی جو اسے آزاد کرتا ہے۔
اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6717   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6754  
6754. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدا تو اس کے آقاؤں نے شرط عائد کر دی کہ اس کی ولا ان کے لیے ہوگی۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: اللہ کے رسول! میں نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا لیکن اس کے آقاؤں نے اپنے لیے اس کی ولا کو مشروط کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کو آزاد کر دے۔ ولا تو آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ یا فرمایا: قیمت ادا کرنے والے کے لیے ولا ہوتی ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے اسے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر اسے اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہیں اور اس سے علیحدہ بھی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی کو پسند کیا اور کہا: اگر مجھے اتنا مال دیا جائے تو بھی اس کے ساتھ رہنا پسند نہیں کروں گی۔ اسود نے کہا: اس کا شوہر آزاد تھا۔ ان کا قول منقطع ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6754]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق ولا کا حق آزاد کرنے والے کو دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسا تعلق ہے جسے اپنی مرضی سے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ نسب کی طرح ہے جسے ہبہ یا فروخت بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اگر کوئی اپنے غلام سے کہتا ہے کہ تو سائبہ کے طور پر آزاد ہے، تو اپنا مال جہاں چاہے رکھ لے، تیری ولا کا تعلق کسی سے نہیں ہوگا تو یہ فضول حرکات ہیں، اصل ضابطے پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے کہ سائبہ کی رسم دور جاہلیت کی یاد گار ہے، اصل ضابطے کے مطابق ولا کا تعلق اسی شخص سے قائم ہوگا جس نے اسے آزاد کیا ہے، اس کے ختم کرنے سے یہ تعلق ختم نہیں ہوگا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6754   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6758  
6758. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا۔ میں نے بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے ولا اپنے لیے رکھنے کی شرط عائد کی۔ میں نے اس امر کا تذکرہ نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے خرید کر آزاد کر دو۔ ولا تو اس کے لیے ہوتی ہے جو روپے خرچ کرے، چنانچہ میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اپنے خاوند کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیا حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا مال بھی دے تو میں پھر بھی اس کے پاس نہ رہوں گی، چنانچہ انہوں نے شوہر سے آزادی کو پسند کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6758]
حدیث حاشیہ:
(1)
اہل کوفہ کا موقف ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ہاتھوں مسلمان ہوتا ہے، پھر مر جاتا ہے اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے تو اس کی جائیداد کا وہی حق دار ہے جس کے ہاتھوں اس نے اسلام قبول کیا۔
اس سلسلےمیں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی جاتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
اللہ کے رسول! اگر کوئی آدمی دوسرے کے ہاتھوں اسلام قبول کر کے مرجائے تو اسلام میں اس کی جائیداد کا وارث کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
وہی اس کی زندگی اور موت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
لیکن اس روایت کو کئی محدثین نے ضعیف کہا ہے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث ثابت نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کی تائید میں دور روایات پیش کی ہیں جن میں ہے کہ ولا کا حق دار وہی ہے جو کسی کو آزاد کرتا ہے۔
اس حدیث میں "لام" اختصاص کے لیے ہے، یعنی ولا اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو آزاد کرے اور اس کے متعلق مال خرچ کرے۔
(3)
حاصل کلم یہ ہے کہ جو کوئی دوسرے کے ہاتھوں اسلام قبول کر کے فوت ہو جائے، اس کی ولا اس شخص کے لیے نہیں ہے جس کے ہاتھوں اس نے اسلام قبول کیا ہے کیونکہ ولا تو آزاد کرنے والے کے ساتھ خاص ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6758   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6760  
6760. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولا تو اس کا حق ہے جو قیمت دے اور(اسے آزاد کرکے) احسان کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6760]
حدیث حاشیہ:
(1)
''ولي النعمة'' کا مطلب یہ ہے کہ قیمت ادا کرنے کے بعد اس غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
ولا کا استحقاق آزادی سے پیدا ہوتا ہے۔
یہ استحقاق جہاں آزاد کرنے والے مرد کے لیے ہے وہاں آزاد کرنے والی عورت کے لیے بھی ہے، لہٰذا اگر مرد اور عورت دونوں مل کر غلام آزاد کریں تو دونوں کے لیے ولا ثابت ہوگی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ولا کا حق دار غلام کو آزاد کرنے والا ہے، خواہ وہ مرد ہویا عورت، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
(فتح الباري: 58/12)
چونکہ ان مسائل کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں ہے صرف نظری طور پر پڑھے پڑھائے جاتے ہیں، اس لیے ہم ان کی تفصیل ذکر نہیں کرتے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6760