سنن نسائي
كتاب البيعة
کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
13. بَابُ : تَفْسِيرِ الْهِجْرَةِ
باب: ہجرت کی شرح و تفسیر۔
حدیث نمبر: 4171
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، لِأَنَّهُمْ هَجَرُوا الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ مُهَاجِرُونَ، لِأَنَّ الْمَدِينَةَ كَانَتْ دَارَ شِرْكٍ، فَجَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر مہاجرین میں سے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے مشرکین (ناطے داروں) کو چھوڑ دیا تھا۔ انصار میں سے (بھی) بعض مہاجرین تھے اس لیے کہ مدینہ کفار و مشرکین کا گڑھ تھا اور یہ لوگ (شرک کو چھوڑ کر) عقبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5390) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: ہجرت کے اصل معنی کے لحاظ سے مہاجرین و انصار دونوں ہی ”مہاجرین“ تھے۔ ترک وطن کا مقصد اصلی شرک کی جگہ چھوڑنا ہی تو ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4171 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4171
اردو حاشہ:
(1) حضرت ابن عباس ؓ انتہائی ذہین شخص تھے۔ انھوں نے یہ لطیف نکتہ پیدا کیا کہ اگر گھر بار چھوڑ کر جانے کی وجہ سے کوئی شخص مہاجربن سکتا ہے تو وہ انصار جو بیعت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے‘ وہ بھی مہاجر تھے کیونکہ وہ مدینہ چھوڑ کرآپ کے پاس گئے تھے اور آپ کے حکم سے دوبار مدینہ آئے تھے۔ اسی طرح مہاجرین کو بھی انصار کہا جا سکتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی مدد کی۔ اور مدد کرنے والوں کو لغت کے لحاظ سے انصار کہا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک نکتہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین وہی تھے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہونے پر باوجود دارالاسلام بن جانے کے وہاں ٹہرنا پسند نہ کیا۔ اور انصار وہی تھے جنھوں نے اپنا شہر‘ اپنے گھر اپنی زمینیں‘اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ اپنی جانیں رسول اﷲ ﷺ کو پیش کردیں۔ رضي الله عنهم و أرضاهم.
(2) ”عقبہ کی رات“ یہ رات دارصل دو راتیں تھیں۔ ایک 21 نبوت میں جسے لیلہ عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے اور دوسری13 نبوت میں جسے لیلہ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔عقبہ منیٰ سے مکہ کی طرف آخری کمرے کا نام ہے۔ اس جمرے کے پاس رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تھی، یہ 11 نبوت کی بات ہے۔ وہ چھ آدمی تھے، انھوں نے آئندہ سال آپ نے ملنے کا وعدہ کیا اور مدینہ جا کر آپ کی دعوت مدینہ والوں کے سامنے پیش کی۔ 12 نبوت میں حج کے بعد بارہ آدمی اس جمرے کے پاس آپ کو ملے‘ اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔ آپ نے ان کے ساتھ مبلغ بھی بھیج دیا۔ اگلے سال13 نبوت میں حج کے بعد اسی جمرے کے پاس ستر (70) سے زیادہ انصار نے آپ کی بیعت کی اور آپ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی۔ آپ نے اسے قبول فرمایا اور مناسب وقت پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4171