سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
27. بَابُ : قِتَالِ الْمُسْلِمِ
باب: مسلمان سے لڑنا۔
حدیث نمبر: 4114
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِحَمَّادٍ , سَمِعْتُ مَنْصُورًا، وَسُلَيْمَانَ، وَزُبَيْدًا يُحَدِّثُونَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ , وَقِتَالُهُ كُفْرٌ". مَنْ تَتَّهِمُ؟ أَتَتَّهِمُ مَنْصُورًا؟ أَتَتَّهِمُ زُبَيْدًا؟ أَتَتَّهِمُ سُلَيْمَانَ؟، قَالَ: لَا , وَلَكِنِّي أَتَّهِمُ أَبَا وَائِلٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے“۔ (اس حدیث کی روایت کے بارے میں شعبہ نے حماد سے کہا) آپ کس پر (وہم اور غلطی کی) تہمت (اور الزام) لگاتے ہیں؟ منصور پر، زبید پر یا سلیمان اعمش پر؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں تو ابووائل پر تہمت لگاتا ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 36 (48)، الأدب 44 (6044)، الفتن 8 (7076)، صحیح مسلم/الإیمان 28 (62)، سنن الترمذی/البر 52 (1983)، الإیمان 15 (2635)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (69)، (تحفة الأشراف: 9243، 9251، 9299)، مسند احمد (1/385، 433)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4115-4118) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مجھے ابووائل شقیق بن سلمہ کے سلسلہ میں شک ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ ابووائل شقیق بن سلمہ ثقہ راوی ہیں (واللہ اعلم)، نیز دیکھئیے اگلی روایت۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4114 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4114
اردو حاشہ:
مذکورہ بالا مسئلے کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ حماد، جس سے امام شعبہ نے منصور وغیرہ پر تہمت لگانے کی بابت پوچھا تھا، غالباً یہ حماد بن ابو سلیمان ہے۔ وہ امام شعبہ کا شیخ تھا اور مرجئہ میں سے تھا۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ مرجئہ فرقے کا عقیدہ ہے کہ اعمال، ایمان کا جز نہیں اور یہ بھی کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے تو پھر ایمان کے ساتھ اس کے لیے کوئی گناہ نقصان دہ نہیں ہو سکتا اور یہ عقیدہ قطعاً باطل ہے۔ حماد کا ابو وائل کو متہم کرنا غلط ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنے باطل عقیدے کا دفاع کرنا ہے۔ ابووائل سے مراد حضرت شقیق بن سلمہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے معروف شاگرد اور مخضرم تابعی ہیں۔ مرجئہ کے ظہور کے بعد، حضرت ابووائل رحمہ اللہ سے جب ان (مرجئہ) کے متعلق پوچھا گیا تو سائل کے جواب میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہی حدیث بیان فرمائی کہ [سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ] (صحیح البخاري، الإیمان، باب خوف المؤمن…، حدیث: 48، و صحیح مسلم، الإیمان، باب بیان قول النبي ﷺ …، حدیث: 64) چونکہ اس متفق علیہ حدیث شریف سے مرجئہ کے مذکورہ باطل عقیدے کا صریح طور پر رد ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث کے بنیادی راوی حضرت ابو وائل رحمہ اللہ ہی کو متہم کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ معلوم نہیں ابو وائل نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنی بھی ہے کہ نہیں؟ لیکن اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں فرمائے جماعت اصحاب الحدیث پر کہ جنہوں نے مبتدعین کے فرار کی تمام راہیں بند کر دیں، صحیح مسلم میں اس بات کی قطعی صراحت موجود ہے کہ ابو وائل رحمہ اللہ نے جو حدیث بیان فرمائی ہے، لا ریب! وہ رسول اللہ ﷺ ہی کا سچا فرمان ہے۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔ حضرت ابووائل سے بیان کرنے والے ان کے شاگرد زبید نے کہا کہ میں نے حضرت ابو وائل سے، یہ حدیث شریف سن کر پوچھا: کیا آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث بیان فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! (میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ وہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے بیان فرماتے ہیں۔) دیکھئے: (صحیح مسلم، الإیمان، باب بیان قول النبیﷺ: سباب المسلم فسوق و قتاله كفر، حدیث: (116)-64)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4114
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 48
´مسلمان سے لڑنا کفر ہے`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 48]
� لغوی توضیح:
«سِبَاب» گالی دینا۔
«فُسُوْق» نافرمانی کرنا، حق اور اطاعت سے نکل جانا۔
فہم الحدیث:
اس حدیث میں مسلمان سے لڑائی کو کفر کہا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ایسا کفر نہیں جو انسان کو کافر بنا دے بلکہ یہ چھوٹا کفر ہے، یہی وجہ ہے کہ مومنوں کی آپس میں لڑنے والی دونوں جماعتوں کو قرآن میں مومن ہی کہا گیا ہے۔ [سورة الحجرات: آيت 9]
البتہ یہ عمل شرک کے بعد کبیرہ گناہ ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 43
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1283
مسلمان کو گالی دینے اور اس سے لڑنے پر وعید
«وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: سباب المسلم فسوق وقتاله كفر . متفق عليه»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1283]
تخریج:
[بخاري 6044]،
[مسلم، الايمان]،
[تحفة الاشراف 35/7، 55/7، 39/7، 129/7، 314/7، 349/7]
مفردات:
«سِبَاب، سَبَّ يَسُبُّ (نَصَرَ يَنْصُرُ)» کا مصدر «سَبٌ» اور «سِبَابٌ» دونوں طرح آتا ہے گالی دینا بعض نے فرمایا یہاں «سباب» باب مفاعلہ میں سے ہے یعنی دونوں جانب سے گالی گلوچ کرنا۔ «اَلسُّبَّةُ» جسے گالی دی جائے دبر کو بھی «سُبَّة» کہا جاتا ہے کیونکہ گالی دیتے وقت اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ ابراہیم حربی نے فرمایا: «سباب» سب سے زیادہ سخت اور تکلیف ده گالی کو کہتے ہیں کیونکہ «سباب» کا مطلب ہے کہ کسی آدمی کے ان عیوب کا ذکر کیا جائے جو اس میں ہیں اور ان کا بھی جو اس میں نہیں ہیں۔
«قِتَال» باب مفاعلہ کا مصدر ہے ایک دوسرے سے لڑنا۔
«فُسُوْق . نَصَرَ يَنْصُرُ» کا مصدر ہے۔ «فَسَقَ يَفْسُقُ فِسْقًا وَ فُسُوْقًا» لغت میں اس کا معنی ”نکلنا ہے“ اور شرع میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نکلنا مراد ہے۔ شرع میں یہ عصیان سے سخت ہے۔ «وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ» [49-الحجرات:7]
اور اس نے کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لئے ناپسند بنا دیا۔ [فتح ]
فوائد:
➊ مسلمان کو گالی دینا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ مقابلے میں بھی گالی دینے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ مقابلے میں بھی زیادتی سے بچنا مشکل ہے۔
➋ اگر کوئی ابتداءً گالی دے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے اگرچہ بہتر صبر ہے۔
«وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ» [الشوري: 41]
”جو شخص ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لے لے تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔“
«وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ») [الشوري: 43]
”اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقیناً یہ ہمت کا کام ہے۔“
➌ بدلہ لینے میں شرط یہ ہے کہ صرف اتنی گالی دے جتنی اسے دی گئی ہے زیادتی نہ کرے اور نہ وہ بات کرے جو جھوٹ ہو۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے پر ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم» [سنن ترمذي 1981 ]
”دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔“
اگر دونوں ہی ایک دوسرے پر جھوٹ باندھیں تو دونوں گناہ گار ہیں اگرچہ پہل کرنے والا پہل کا مجرم بھی ہے۔ عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المستبان شيطانان يتهاتران ويتكاذبان» [صحيح ابن حبان - 5696]
”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بدزبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔“
➍ ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو گالی دے سکتا ہے خصوصاً جب وہ محارب (حالت جنگ میں) ہو اس وقت اسے ذلیل کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کے ارد گرد ادھر ادھر کے لوگ جمع ہیں جب جنگ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا: «امصص بظر اللات انحن نمر عنه» [بخاري، الشروط /5]
”(جاؤ جا کر) لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“
➎ ”اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“
لڑائی کرنا گالی دینے سے سخت ہے اس لئے اس پر حکم بھی سخت ہے۔
➏ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے انسان مومن نہیں رہتا بلکہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا: «لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض» [بخاري 7077]
”میرے بعد دوباره کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ خارجی لوگوں کا یہی موقف ہے اور اسی بنا پر انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی لوگوں کو بزعم خویش کبیرہ کا مرتکب ہونے کی بنا پر کافر قرار دیا مگر ان احادیث سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں، بلکہ شریعت کے قواعد اور قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔
➐ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کفر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک وہ کفر جس سے مراد خروج عن الاسلام ہے اور جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور ابدی جہنمی ہے یہ کفر جحود اور بڑا کفر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ماننے سے انکار کر دینا یہ جانتے ہوئے کہ یہ بات واقعی اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور اس انکار کو درست سمجھنا۔
کفر کی دوسری قسم کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ نے «كفرٌ دُوْنَ كفرٍ» (بڑے کفر سے کم تر کفر قرار دیا ہے) یعنی اسلام میں رہ کر کفر کے کسی کام کا ارتکاب کرنا۔ اس کفر کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [صحيح مسلم۔ الايمان /12]
ایمان کی ان تمام شاخوں کی ضد جتنے کام ہیں سب کفر کے کام ہیں۔ مگر کفر کے ہر کام کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لینے توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے، نماز قائم کرنے، زکوة ادا کرنے اور عملی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہو جانے کے بعد کسی گناه مثلاً قتل، زنا، چوری وغیرہ کا ارتکاب کرتا ہے مگر ان کاموں کو جائز نہیں سمجھتا، نہ ہی اللہ اور اس کے رسول کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تو یہ شخص گناہ گار مسلم ہے، یہ نہ اسلام سے خارج ہے، نہ ابدی جہنمی۔ ہاں اس نے جو گناہ کیا ہے وہ کفر اور جاہلیت کا کام ہے اس لئے اس کے متعلق اگر کہیں کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی بھی کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہے اور نہ یہ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔
اس تفصیل کی دلیل کے لئے چند آیات و احادیث پر غور کریں۔
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48]
”یقیناًً اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ چیزیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک جو شرک پر فوت ہو اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ہاں مومن کے گناہ اللہ چاہے گا تو بخش دے گا۔ چاہے تو سزا دے کر جہنم سے نکال لے گا۔
(ب) شفاعت کی تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ملت اسلام کا فرد ہے اور اسے اللہ چاہے گا تو شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکال دے گا اور چاہے گا تو محض اپنے فضل و کرم سے بغیر کسی کی شفاعت کے جہنم سے نکال دے گا۔
(ج) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا» [49-الحجرات:9]
”اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو۔“
اس کے بعد والی آیت میں فرمایا:
«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ» [49-الحجرات:10]
”مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان آپس میں لڑائی کے باوجود مومن ہیں ان کی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوئی کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائیں۔ اسی طرح قصاص کی آیات میں قاتل کو اور مقتول کے وارثوں کو بھائی قرار دیا۔ فرمایا:
«فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ» [2-البقرة:178]
”تو جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے تو پیچھا کرنا ہے اچھے طریقے سے اور اس کی طرف ادا کرنا ہے احسان کے ساتھ۔“
معلوم ہوا کہ قتل کے باوجود قاتل مسلمان ہے اور مقتول کے وارثوں کا دینی اور ایمانی بھائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے یا طلحہ و زبیر و عائشہ رضی اللہ عنہم اور حضرت علی اللہ رضی اللہ عنہ کے در میان حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان جو جنگیں ہوئیں اپنے بالمقابل لڑنے والے کسی شخص کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کافر قرار نہیں دیا، نہ ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنایا، نہ ان کے مال کو مال غنیمت بنایا۔ اگر وہ انہیں کافر قرار دیتے تو مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کی طرح ان کے اموال کو مال غنیمت بناتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بناتے۔
ان آیات اور صحابہ کرام انتظام کے اجماع سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو جو کفر قرار دیا گیا ہے اور آپس میں لڑنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر کا کام ہے ایمان کا نہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والا کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے یہ نہیں کہ مسلمان سے لڑنا اسلام سے خارج ہونا ہے اور نہ یہ کہ مسلمان سے لڑنے والا ملت اسلام سے خارج ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کئی صحابہ سے قتل، زنا، چوری بہتان، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں کا صدور ہوا آپ نے ان پر اللہ کی مقرر کردہ حدیں لگائیں مگر نہ کسی کو کافر قرار دیا نہ ملت اسلام سے خارج قرار دیا نہ ہی کسی کو مرتد قرار دے کر اس پر ارتداد کی حد (قتل) لگائی۔
➒ مسلمان کو گالی دینے کو فسق اور اس سے لڑنے کو کفر قرار دینے سے ان گناہوں کی قباحت اور شناعت صاف ظاہر ہے اہل ایمان کو فسق اور کفر کا ارتکاب کسی طور پر زیب نہیں دیتا۔
➓ بعض علماء نے ”مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے“ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اسے مجازاً کفر قرار دیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی نعمت اس کے احسان کی ناشکری اور اخوة اسلام کی بے قدری ہے۔ یہ وہ کفر نہیں جو ایمان سے انکار پر لازم آتا ہے۔ اسے کفر اس لئے قرار دیا گیا کہ اس گناہ میں بڑھتے بڑھتے دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے بعض اوقات انسان بڑے کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ «اعاذنا الله منه»
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 155
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1283
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1283»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب ما ينهي من السباب واللعن، حديث:6044، ومسلم، الإيمان، باب بيان قول النبي صلي الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله كفر"، حديث:64.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مسلمان کا مسلمان کو گالی دینا
”فسق
“قرار دیا گیا ہے۔
اور
”فسق
“ آدمی کے اللہ کی اطاعت سے باہر نکل جانے کو کہتے ہیں۔
چونکہ اسلام میں مسلمان کو گالی دینا ممنوع ہے اور گالی دینے والا حکم الٰہی سے باہر نکل جاتا ہے‘ اس لیے ایسے شخص کو فاسق کہا گیا ہے۔
2. اگر کوئی شخص مسلمان کا قتل جائز سمجھتا ہو اور اسلام کی حالت میں اس سے لڑنا حلال اور جائز سمجھتا ہو تو اس کے کفر حقیقی پر سب کا اتفاق ہے۔
اور اگر دونوں باتیں نہ ہوں تو اس پر کفر کا اطلاق مجازی طور پر ہوگا۔
صحیح مسلم میں ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میری امت کے سب لوگ عافیت دیے جانے کے قابل ہیں مگر جو لوگ علانیہ طور پر گناہ کا ارتکاب کریں‘ وہ اس کے مستحق نہیں۔
“ (صحیح مسلم‘ الزھد‘ باب النھي عن ھتک الإنسان ستر نفسہ‘ حدیث:۲۹۹۰) 3.علماء کے مابین فاسق کے فسق سے لوگوں کو آگاہ کرنے میں اختلاف ہے۔
فاسق کے فسق کو اگر اس لیے ظاہر کیا جائے کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں تو جائز ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1283
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث69
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 69]
اردو حاشہ:
(1)
چونکہ مسلمانوں میں باہمی تعلقات کا خوش گوار ہونا شرعا مطلوب ہے، اس لیے شریعت نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے جن سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہو، ان میں ایک چیز گالی گلوچ بھی ہے جو ایک اچھے مسلمان کی شان کے لائق نہیں، اس لیے اسے فسق یعنی نافرمانی اور گناہ قرار دیا گیا ہے۔
(2)
مسلمان سے جنگ کرنا کفر ہے، اس سے وہ کفر مراد نہیں جس کی وجہ سے کوئی شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ اس سے مراد ایسا کام ہے جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے، یعنی علماء کی اصطلاح میں (كفر دون كفر)
چھوٹا کفر ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات: 9)
”جب مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرادیا کرو۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑائی کے باوجود وہ مومن ہی رہتے ہیں، کافر نہیں ہو جاتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 69
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1983
´گالی گلوچ کی مذمت سے متعلق ایک اور باب۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے“ ۱؎۔ راوی زبید بن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1983]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیوں کہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے،
اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1983
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:104
104- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کا قتل کرنا کفر ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:104]
فائدہ:
اس حدیث میں دو گناہوں کا ذکر ہے:
① مسلمان کو گالی دینا: یہ عمل بہت عام ہے۔ ہر بات پر گالی دی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ گناہ کا عمل ہے۔ اس سے بہت سے فتنے و فساد نمودار ہوتے ہیں، اور بعض دفع قتل وغارت کا سبب بھی بنتا ہے۔ بلکہ ہماری مقدس شریعت میں مطلقاً گالی دینے سے منع کیا گیا ہے حتٰی کہ شیطان کو بھی گالی نہیں دینی چاہیے، کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔ (ابوطاهر المخلص: 2/196/9، الصحيحة: 2422)
② مسلمان کو قتل کرنا یا اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ کفر کے کئی درجات ہیں، کیونکہ ”کفر دون کفر“ ایک مستقل اصول ہے۔ ہر گناہ (خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ) جس کے ارتکاب پر لفظ ”کفر“ استعمال ہوا ہو، اس سے مراد ہر جگہ پر حقیقی کافر نہیں ہوتا، بلکہ دیکھا جائے گا کہ یہاں کفر سے کفر کا کون سا درجہ مراد ہے۔ بطور مثال عرض ہے کہ بیوی کا اپنے خاوند کی ناشکری کرنے کو بھی ”کفر“ کہا: گیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی ناشکری کرے، وہ کافر ہو جاتی ہے۔ آج کل تکفیری لوگ عام ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنے ہوئے ہیں، یہ ایک فتنہ ہے جس کا رد حکمت و دانائی کے ساتھ ضروری ہے، اور ایسے لوگوں سے دور رہنا فرض ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 104
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 221
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:221]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سباب:
گالی گلوچ کرنا،
کسی کی عزت و ناموس پر عیب گیری کرنا۔
(2)
الفسق:
نکلنا،
خراج کرنا یعنی حق و صواب کو چھوڑ دینا،
نافرمانی کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 221
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7076
7076. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7076]
حدیث حاشیہ:
یعنی بلا وجہ شرعی لڑنا کفر ہے۔
یعنی کافروں کا سا فعل ہے جیسے کافر مسلمانوں سے نا حق لڑتے ہیں ایسے ہی اس شخص نے بھی کیا گویا کافروں کی طرح عمل کیا۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان سے لڑا وہ کافر ہو گیا جیسے خارجیوں کا مذہب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا‘ (وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا)
(الحجرات: 9)
اور دونوں گروہوں کو مومن قرار دیا اور صحابہ نے آپس میں لڑائیاں کیں گو ایک طرف والے خطائے اجتہادی میں تھے مگر کسی نے ان کو کافر نہیں کہا۔
خود حضرت علی رضی اللہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ والوں کے حق میں فرمایا أخواتنا بغوا علینا۔
خارجی مردود مسلماوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر سارے مسلمانوں کو کافر قرار دینے لگے۔
بس اپنے ہی تئیں مسلمان سمجھے اور پھر یہ لطف کہ ان خارجیوں ہی مردودوں نے مسلمانوں کے سر دار جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہی قتل کیا۔
حضرت عائشہ اور حضرت عثمان اور اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیا۔
کہو جب یہ لوگ کافر ہوئے تو تم کو اسلام کہاں سے نصیب ہوا؟
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7076
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:48
48. زبید بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو وائل سے مرجیہ کے متعلق دریافت کیا (کہ ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ سے آدمی فاسق نہیں ہوتا) انہوں نے اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت پیش کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:48]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کا تعلق عنوان کے دوسرے حصے سے ہے۔
اس میں مرجیہ کی تردید ہے جن کے ہاں اہل طاعت اور اہل معصیت کا کوئی فرق نہیں ہے۔
ان کے نزدیک ایمان کے بعد نہ اطاعت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ معصیت سے کوئی ضرر۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض معاصی انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں جبکہ کچھ گناہ انسان کو فاسق بنا دیتے ہیں۔
کفر اورفسق دونوں ہی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں۔
کفر تو ایمان ہی کی ضد ہے۔
اسی طرح فسق کا نقصان ظاہر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ﴾ ”لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر کو،گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے۔
“ (الحجرات 49/7)
2۔
واضح رہے کہ اس کفر سے مراد کفر حقیقی نہیں ہے کہ اس کامرتکب دین اسلام سے خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقید ہ ہے بلکہ اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔
اس کی سنگینی کے پیش نظر اس پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔
ہاں اگر اس جرم کو حلال سمجھتا ہو تو اس کا مرتکب کفر حقیقی کا حامل ہوگا۔
(فتح الباري: 150/1)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپس میں گالی گلوچ اور لعن طعن ایک مسلمان کے شایان شان نہیں، نیز ایک دوسرے کی ناحق گردنیں مارنے سے ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 48
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6044
6044. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کونا کفر ہے۔“ محمد بن جعفر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6044]
حدیث حاشیہ:
(1)
سبّ کے معنی ہیں:
کسی کی شان میں عیب ناک بات کرنا اور فسق کے معنی ہیں:
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا اور اس کی اطاعت سے نکل جانا۔
لفظ سباب، باب مفاعلہ ہے جو فریقین کی طرف سے ہوتا ہے، یعنی ایک دوسرے کو گالی دینا۔
اس صورت میں جس نے گالی دینے کی ابتدا کی ہے اسے گناہ ہوگا بشرطیکہ دوسرا حد سے نہ گزرے جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے جو بھی کہیں، اس کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہوگا، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔
“ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4894) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی گناہ کا سبب بنے تو مقابل کے گناہ کا وبال بھی ابتدا کرنے والے کے سر ہوتا ہے الا یہ کہ مقابل زیادتی کر جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6044
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7076
7076. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7076]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کی شان ورود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو وہاں ایک آدمی گالی گلوچ میں بہت مشہور تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اس آدمی نے کہا میں آئندہ کسی کو گالی نہیں دوں گا۔
(فتح الباري: 34/13)
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں "کفار" کے معنی متعین کرنے کے لیے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ کفر، کفر کی مختلف قسمیں ہیں اور اس مقام پر کفر کبیرہ گناہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اس سے دین اسلام سے خروج مراد نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
”اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔
“ (الحجرات: 49/9)
اللہ تعالیٰ نے لڑنے کےباوجود انھیں "مومن" کہا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر اس آیت سے استدلال کرکے کفر کے معنی متعین کیے ہیں۔
(صحیح البخاري، الإیمان، باب: 23)
3۔
اس حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو بطور تغلیظ کفرسے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اس سے پرہیز کریں۔
اگر مسلمان سے لڑنا اور اسے قتل کرنا حلال خیال کرتا ہے تو اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بطور تشبیہ یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہوکہ مسلمان کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔
(فتح الباري: 34/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7076