سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْحُكْمِ فِي الْمُرْتَدِّ
باب: مرتد کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4071
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَرْسَلَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ إِلَيْكُمْ. فَأَلْقَى لَهُ أَبُو مُوسَى وِسَادَةً لِيَجْلِسَ عَلَيْهَا , فَأُتِيَ بِرَجُلٍ كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ ثُمَّ كَفَرَ، فَقَالَ مُعَاذٌ:" لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ , قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , فَلَمَّا قُتِلَ قَعَدَ.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جب وہ (معاذ) یمن آئے تو کہا: لوگو! میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے گاؤ تکیہ رکھ دیا تاکہ وہ اس پر (ٹیک لگا کر) بیٹھیں، پھر ایک شخص ان کے پاس لایا گیا جو یہودی تھا، وہ اسلام قبول کر لینے کے بعد کافر ہو گیا تھا، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نہیں بیٹھوں گا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے اسے قتل نہ کر دیا جائے۔ (ایسا) تین بار (کہا)، پھر جب اسے قتل کر دیا گیا تو وہ بیٹھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9085) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4071 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4071
اردو حاشہ:
(1) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے کہ مرتد اگر اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنا تعارف کرا سکتا ہے، چاہے وہ صاحب مرتبہ ہو یا کوئی عام آدمی ہو جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل یمن کو اپنا تعارف کرایا۔
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علماء، امراء اور مسلمان بھائی ایک دوسرے کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔
(4) اکرام ضیف، یعنی مہمان کی عزت افزائی کرنے پر بھی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، جس طرح کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معزز مہمان حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے تکیہ یا گدا وغیرہ بچھایا تھا۔
(5) حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منکر اور غیر شرعی کام کے انکار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
(6) جس شخص پر، اس کے کسی جرم کی وجہ سے، حد واجب ہو چکی ہو اس پر حد قائم کرنا ضروری ہے۔
(7) یہ حدیث دلیل ہے کہ شرعی حد کی تنفیذ، حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے، اس میں سستی، غفلت اور اپنی صوابدید پر معافی دینا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4071
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7157
7157. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اسلام لایا،پھر یہودی ہوگیا۔سیدنا معاذ بن جبل ؓ آئے تو وہ شخص سیدنا ابو موسٰی ؓ کے پاس تھا۔ سیدنا معاذ ؓ نے پوچھا: اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اسلام لانے کے بعد یہودی بن گیا ہے۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں، اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا یہی فیصلہ ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7157]
حدیث حاشیہ:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ شرعی حکم صاف ہوتے ہوئے انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی اجازت لینا ضروری نہیں جانا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7157
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7157
7157. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اسلام لایا،پھر یہودی ہوگیا۔سیدنا معاذ بن جبل ؓ آئے تو وہ شخص سیدنا ابو موسٰی ؓ کے پاس تھا۔ سیدنا معاذ ؓ نے پوچھا: اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اسلام لانے کے بعد یہودی بن گیا ہے۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں، اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا یہی فیصلہ ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7157]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کے دو الگ الگ علاقوں میں گورنر بنا کر بھیجا تھا۔
ان دونوں حضرات کی ایک دوسرےکے پاس آمدورفت رہتی تھی چنانچہ ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے آئے تو وہاں آدمیوں کو جمع دیکھا اور ایک آدمی کو دیکھا جس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھے گئے تھے انھوں نے اس کے متعلق پوچھا تو انھیں صورت حال سے آگاہ کردیا گیا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
میں تو اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔
حتی کہ اسے کیفر کردار تک پہنچادیا جائے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اسے قتل کرنے کے لیے ہی یہاں لایا گیا ہے آپ تشریف لائیں لیکن انھوں نے اصرار کیا تو اسے قتل کردیا گیا پھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی سواری سے اترے۔
(صحیح البخاری المغازی حدیث: 4341۔
4342)
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال یہ ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتد یہودی کو قتل کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ دی۔
اس سے معلوم ہوا کہ ماتحت حاکم اپنے حاکم اعلیٰ کے نوٹس میں لائے بغیر حدود اور قصاص کے فیصلے کر سکتا ہے اور ایسا کرنا شریعت کے خلاف نہیں۔
واللہ اعلم۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7157