سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
2. بَابُ : تَعْظِيمِ الدَّمِ
باب: ناحق خون کرنے کی سنگینی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4004
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَمَّنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ثُمَّ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ! سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَجِيءُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي" , ثُمَّ قَالَ:" وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ ثُمَّ مَا نَسَخَهَا".
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر توبہ کی، ایمان لایا، اور نیک عمل کئے پھر راہ راست پر آ گیا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس کی توبہ کہاں ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”وہ قاتل کو پکڑے آئے گا اور اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟“ پھر (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) کہا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت ( «ومن يقتل مؤمنا متعمدا...») کو نازل کیا اور اسے منسوخ نہیں کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدیات 2 (2621)، (تحفة الأشراف: 5432)، مسند احمد (1/240، 294، 364)، ویأتي عند المؤلف في القسامة (برقم: 4870) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ آیت: «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها» ”جو کوئی مؤمن کو عمداً قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا“ (النساء: ۹۳) مدنی ہے اور بقول ابن عباس مدنی زندگی کے آخری دور میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔ اس لیے یہ اس مکی آیت کی بظاہر ناسخ ہے جو سورۃ الفرقان میں ہے: «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» سے لے کر «إلا من تاب و عمل صالحا» تک ”اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے۔۔۔۔ مگر جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیے۔۔۔“ (الفرقان: ۶۸-۷۰) علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مؤمن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور وہ جہنمی ہو گا۔ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مدنی آیت میں «خلود» سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے، ایک نہ ایک دن توحید کی بدولت اسے ضرور جہنم سے خلاصی ہو گی۔ یہ بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ آیت میں زجر و توبیخ مراد ہے۔ یا جو بغیر توبہ مر جائے، یہ ساری تاویلات اس لیے کی گئی ہیں کہ جب کفر و شرک کے مرتکب کی توبہ مقبول ہے تو مومن کو عمداً قتل کرنے والے کی توبہ کیوں قبول نہیں ہو گی، یہی وجہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔ دیکھئیے (صحیح حدیث نمبر: ۲۷۹۹)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4004 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4004
اردو حاشہ:
(1) بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں کیونکہ اس کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک مخصوص آیت اتر چکی ہے کہ ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (النساء: 4:93) ”اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ آیت کے ظاہر الفاظ حضرت ابن عباس کی تائید کرتے ہیں، نیز یہ حقوق العباد میں سے سب سے بڑا حق ہے، لہٰذا مقتول کی رضامندی کے بغیر معافی کیسی؟ مگر دیگر اہل علم اس کی توبہ کے بھی قائل ہیں۔ استدلال سورۂ فرقان کی آیت سے ہے: ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ (الفرقان: 25:70) ”مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“ اس سے پہلی آیت میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے اور ان میں قتل بھی مذکور ہے۔ حضرت ابن عباس کا موقف یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے، یعنی جو شخص کفر کی حالت میں قتل کر بیٹھے، پھر توبہ کرے اور اسلام قبول کر لے تو اسلام کی برکت سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے جن میں قتل بھی شامل ہے، مگر ایمان لانے کے بعد کسی بے گناہ مومن کو قصداً قتل کرے تو اس کے لیے سورۂ نساء والی آیت ہے جس میں توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مسئلے میں اکیلے ہیں۔ جمہور اہل علم توبہ کے قائل ہیں کیونکہ آخر یہ ہے تو کبیرہ گناہ ہی، کفر تو نہیں، لہٰذا قابل معافی ہے۔ ﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾ (النساء: 4:48) ”باقی رہا اس کا حقوق العباد سے متعلق ہونا، تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو معاف فرمانا چاہے، تو اس کے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے، مثلاً: اسے اپنے فضل سے جنت میں بھیج کر خوش کر دے اور وہ معاف کر دے وغیرہ۔
(2) ”منسوخ فرما دیا“ اس آیت سے مراد سورۂ فرقان والی آیت ہے جس میں توبہ کا ذکر ہے۔ اس کا منسوخ ہونا اس لیے قرین قیاس ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور دوسری آیت سورۂ نساء والی مدنی ہے مگر مندرجہ بالا تطبیق کی صورت میں کسی کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں۔ و اللہ أعلم۔ (نیز دیکھئے، حدیث: 3989 اور حدیث: 4013)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4004
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4870
´قصاص سے متعلق مجتبیٰ (سنن صغریٰ) کی بعض وہ احادیث جو ”سنن کبریٰ“ میں نہیں ہیں آیت کریمہ: ”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے“ (النساء: ۹۳) کی تفسیر۔`
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا پھر توبہ کی، ایمان لایا، عمل صالح کیا اور ہدایت پائی؟ تو انہوں نے کہا: اس کی توبہ کہاں قبول ہو گی؟ میں نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”مقتول (قیامت کے روز) قاتل کو پک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4870]
اردو حاشہ:
”یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔“ یعنی سورۂ نساء والی آیت جس میں قاتل کی سزا ابدی جہنم بیان کی گئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4870
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2621
´کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے؟`
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا، پھر توبہ کر لی، ایمان لے آیا، اور نیک عمل کیا، پھر ہدایت پائی؟ تو آپ نے جواب دیا: افسوس وہ کیسے ہدایت پا سکتا ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ”قیامت کے دن قاتل اور مقتول اس حال میں آئیں گے کہ مقتول قاتل کے سر سے لٹکا ہو گا، اور کہہ رہا ہو گا“، اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ کی قسم! اس نے تمہارے نبی پر اس (قتل ناحق کی آیت) کو نازل کرنے کے بعد منسوخ نہیں کیا ۱۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2621]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سائل کے سوال میں اللہ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے:
﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـلِحًا ثُمَّ اهتَدى﴾ (طہ20؍82)
”اور بے شک میں اس شخص کو ضرور بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر ہدایت پر قائم رہے۔“
(2)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے جواب میں اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے:
﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا﴾ (النساء4؍93)
”جوکوئی مومن کو قصداً قتل کرڈالے تواس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالی کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اللہ تعالی نے اس کےلیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔“
(3)
قتل کے گناہ کی معافی کئی طریقوں سے ممکن ہے:
(ا)
قصاص میں قتل ہو جانے سے، کیونکہ حد لگنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الحدود، حدیث: 2603)
(ب)
مقتول کے وارث کے معاف کردینے سے، خواہ یہ معافی دیت لے کر ہو، یا اللہ کی رضا کے لیے بلامعاوضہ ہو۔
(ج)
خلوص دل سے سچی توبہ کرلینے سے (جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)
۔
4۔
آیت مبارکہ میں قتل کے جرم کی اصل سزا کا ذکر ہے۔
اگر قاتل کو معافی نہ ملے تو اس کو یہ سزا مل سکتی ہے۔
بعض علماء نے اس سزا کو اس صورت پر محمول کیا ہے جب کہ قاتل قتل کو حلال سمجھے کیونکہ حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے اور کافر کی سزا دائمی جہنم ہے۔
یا ہمیشہ رہنے سے طویل زمانے تک جہنم میں رہنا مراد ہے۔
دیکھئے: (تفسیر احسن البیان، سورۃ النساء، آیت: 93)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2621
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3029
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، (یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ۱؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہو گی؟ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3029]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
” اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے،
اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا“ (النساء: 93)۔
2؎:
کسی مومن کو عمداً اور ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ اس بابت صحابہ میں اختلاف ہے،
ابن عباس کی رائے ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی،
ان کی دلیل یہی آیت ہے جوان کے بقول بالکل آخری آیت ہے،
جس کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری،
مگر جمہور صحابہ وسلف کی رائے ہے کہ قرآن کی دیگر آیات کا مفاد ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ ہے،
جب مشرک سے توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہوگی تو قاتلِ عمد کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی۔
البتہ یہ ہے کہ اللہ مقتول کو راضی کر دیں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3029