سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
2. بَابُ : تَعْظِيمِ الدَّمِ
باب: ناحق خون کرنے کی سنگینی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4002
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَجِيءُ الرَّجُلُ آخِذًا بِيَدِ الرَّجُلِ , فَيَقُولُ: يَا رَبِّ , هَذَا قَتَلَنِي. فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: قَتَلْتُهُ لِتَكُونَ الْعِزَّةُ لَكَ. فَيَقُولُ: فَإِنَّهَا لِي، وَيَجِيءُ الرَّجُلُ آخِذًا بِيَدِ الرَّجُلِ , فَيَقُولُ: إِنَّ هَذَا قَتَلَنِي. فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: لِتَكُونَ الْعِزَّةُ لِفُلَانٍ. فَيَقُولُ: إِنَّهَا لَيْسَتْ لِفُلَانٍ. فَيَبُوءُ بِإِثْمِهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) آدمی آدمی کا ہاتھ پکڑے آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تم نے اسے کیوں قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا: میں نے اسے اس لیے قتل کیا تھا تاکہ عزت و غلبہ تجھے حاصل ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: وہ یقیناً میرے ہی لیے ہے، ایک اور شخص ایک شخص کا ہاتھ پکڑے آئے گا اور کہے گا: اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تم نے اسے کیوں قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا: تاکہ عزت و غلبہ فلاں کا ہو، اللہ فرمائے گا: وہ تو اس کے لیے نہیں ہے۔ پھر وہ (قاتل) اس کا (جس کے لیے قتل کیا اس کا) گناہ سمیٹ لے گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9482) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث آیت کریمہ «ولا تزر وازرة وزر أخرء» کے منافی اور خلاف نہیں ہے، اس لیے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دوسرے کا گناہ ایسے شخص پر نہیں لادا جا سکتا جس کا اس گناہ سے نہ تو ذاتی تعلق ہے اور نہ ہی اس کے کسی ذاتی فعل کا اثر ہے، اور یہاں جس قتل ناحق کا تذکرہ ہے اس میں اس شخص کا تعلق اور اثر موجود ہے جس کی عزت و تکریم یا حکومت کی خاطر قاتل نے اس قتل کو انجام دیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4002 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4002
اردو حاشہ:
(1) ”اپنے گناہ سمیت لوٹے گا“ یعنی قاتل اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ اس کے دوسرے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ پھر قاتل پر مقتول کے گناہ لاد دئیے جائیں گے جو کہ قتل کا عوض ہو گا۔ نتیجے کے لحاظ سے دونوں معانی میں کوئی فرق نہیں۔ و اللہ أعلم۔
(2) اس حدیث میں دو قسم کے قاتلوں کا ذکر ہے: ایک وہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی خاطر کسی کافر کو قتل کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر یہ قتل جائز ہے بلکہ اس سے ثواب حاصل ہو گا، مثلاً: جہاد کے دوران میں یا حدود کے نفاذ کی خاطر۔ دوسرا قتل جو حکومت، سرداری، انا اور عزت کی خاطر کیا جاتا ہے (اپنی ہو یا کسی کی)۔ یہ قتل جرم ہے۔ اس قاتل کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4002