Note: Copy Text and to word file

سنن نسائي
كتاب تحريم الدم
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
1. بَابُ : تَحْرِيمِ الدَّمِ
باب: خون کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3987
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسًا، يَقُولُ: أَتَيْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ، فَكُنْتُ مَعَهُ فِي قُبَّةٍ، فَنَامَ مَنْ كَانَ فِي الْقُبَّةِ غَيْرِي , وَغَيْرُهُ , فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَارَّهُ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ". فَقَالَ:" أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، قَالَ: يَشْهَدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَرْهُ"، ثُمَّ قَالَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا حَرُمَتْ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا". قَالَ مُحَمَّدٌ: فَقُلْتُ لِشُعْبَةَ: أَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ،" أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، قَالَ: أَظُنُّهَا مَعَهَا وَلَا أَدْرِي.
اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ ثقیف کے ایک وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں آپ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھا، میرے اور آپ کے علاوہ خیمے میں موجود سبھی لوگ سو گئے۔ اتنے میں ایک شخص نے آپ سے چپکے سے کہا تو آپ نے فرمایا: جاؤ اسے قتل کر دو ۱؎، پھر آپ نے فرمایا: کیا یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے کہا: وہ گواہی دے رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو پھر فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا اللہ» نہ کہیں: جب وہ یہ کہنے لگ جائیں تو ان کے خون، ان کے مال حرام ہو گئے مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے۔ محمد (محمد بن جعفر غندر) کہتے ہیں: میں نے شعبہ سے کہا: کیا حدیث میں یہ نہیں ہے «أليس يشهد أن لا إله إلا اللہ وأني رسول اللہ» ؟ وہ بولے: میرے خیال میں «أني رسول اللہ» کا جملہ «لا إله إلا اللہ» کے ساتھ ہے، مجھے معلوم نہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3985 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نمبر ۳۹۸۴ میں «فاقتلوہ» میں جو «ہ» ضمیر ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے متعلق اس نے رازدارانہ سرگوشی کی تھی، نہ کہ بذات خود سرگوشی کرنے والا مراد ہے، کیونکہ «اذھب فاقتلہ» کا جملہ صریح طور پر اسی مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نمبر ۳۹۸۴ میں «فاقتلوہ» میں جو «ہ» ضمیر ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے متعلق اس نے رازدارانہ سرگوشی کی تھی، نہ کہ بذات خود سرگوشی کرنے والا مراد ہے، کیونکہ «اذھب فاقتلہ» کا جملہ صریح طور پر اسی مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے۔