سنن نسائي
كتاب الأيمان والنذور
ابواب: قسم اور نذر کے احکام و مسائل
40. بَابُ : إِذَا حَلَفَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ هَلْ لَهُ اسْتِثْنَاءٌ
باب: ایک آدمی قسم کھائے اور دوسرا اس کے لیے ان شاءاللہ کہے تو کیا استثناء کا اعتبار ہو گا؟
حدیث نمبر: 3862
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ , قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ , مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ , مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ: لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى تِسْعِينَ امْرَأَةً , كُلُّهُنَّ يَأْتِي بِفَارِسٍ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ , فَلَمْ يَقُلْ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ , فَطَافَ عَلَيْهِنَّ جَمِيعًا , فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ , جَاءَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ , وَأَيْمُ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , لَوْ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُرْسَانًا أَجْمَعِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلیمان بن داود علیہ السلام نے (قسم کھا کر) کہا: آج رات میں نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر کوئی ایک سوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا، تو ان کے ساتھی نے ان سے کہا: ”ان شاءاللہ“ (اگر اللہ نے چاہا) مگر خود انہوں نے نہیں کہا، پھر وہ ان تمام عورتوں کے پاس گئے لیکن ان میں سوائے ایک عورت کے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی ایک ادھورے بچے کو جنم دیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر انہوں نے ”ان شاءاللہ“ کہا ہوتا تو وہ تمام بیٹے اللہ کی راہ میں سوار ہو کر جہاد کرتے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان 3 (6639)، تحفة الأشراف: 13731)، صحیح مسلم/الأیمان 5 (1654)، سنن الترمذی/الأیمان 7 (1532- تعلیقاً)، مسند احمد (2/229، 275، 506) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ قسم کھانے والے نے اگر بذات خود ”ان شاءاللہ“ نہیں کہا ہے بلکہ کسی اور نے کہا ہے تو یہ استثناء قسم کھانے والے کے حق میں مفید نہ ہو گا (یعنی: اگر قسم توڑی تو حانث ہو جائے گا)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3862 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3862
اردو حاشہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دفعہ حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام نے فرمایا: میں رات کو اپنی نوے (90) عورتوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ان میں سے ہر ایک شہسوار جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ آپ کے ساتھی نے آپ سے (بطور تلقین) کہا: ان شاء اللہ‘ لیکن آپ نے ان شاء اللہ نہ کہا‘ پھر آپ ان سب عورتوں کے پاس گئے لیکن ان میں سے کسی کو بھی حمل نہ ٹھہرا سوائے ایک عورت کے۔ اس نے بھی ناقص بچہ جنا۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر وہ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو سب بچے شہسوار بن کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3862
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3887
´قسم میں استثنا یعنی ”ان شاءاللہ“ کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلیمان علیہ السلام نے کہا: آج رات میں نوے (۹۰) عورتوں (بیویوں) کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر عورت ایک ایسا بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان سے کہا گیا: آپ ان شاءاللہ کہیں، لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ سلیمان علیہ السلام اپنی عورتوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک عورت نے آدھا بچہ جنا“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر انہوں نے ”ان [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3887]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 3824 اور 3862۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3887
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1208
1208- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”سیدنا سلیمان علیہ السلام نے قسم اٹھاتے ہوئے یہ کہا: آج رات میں اپنی ستر(70) بیویوں کے ساتھ صحبت کروں گا اور و ہ سب لڑکوں کو جنم دیں گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ان کے ساتھی نے (راوی کو شک ہے شاید یہ ا لفاظ ہیں) فرشتے نے ان سے کہا: آپ ان شاءاللہ کہہ دیجئے! لیکن انہیں خیال نہیں رہا اور انہوں نے اپنی ستر(70) بیویوں کے ساتھ صحبت کی، تو ان میں صرف ایک کے ہاں بچہ پیدا ہوا، جونا مکمل تھا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ان کی قسم نہ ٹوٹتی اور وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1208]
فائدہ:
اس حدیث سے ہر کام کے ساتھ ان شاءاللہ کہنے کی فرضیت ثابت ہوتی ہے، اگر کوئی نبی کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور اس ارادے کو عملی جامہ بھی پہنا تا ہے لیکن ان شاء اللہ نہیں کہتا تو اس نبی کا کام بھی نہیں ہوتا، چہ جائیکہ کوئی عام انسان کسی کام کا ارادہ کرے اور اس کے ساتھ ان شاء اللہ نہ کہے۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نیت اور کام کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، اس کے ساتھ ان شاءاللہ ضرور کہنا چاہیے، اگر کوئی آدمی ان شاء اللہ کہنا بھول جائے تو دوسرے کو اسے یاد کرا دینا چاہیے
۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام مشکل کشا نہیں ہوتے مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، انبیاء علیہم السلام میں عام انسانوں سے چالیس گنا زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
انسان کے اپنی اولاد کے بارے میں اچھے جذبات ہونے چاہئیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اولاد دے گا تو وہ مجاہد بنے گی، یا محدث محقق، امام کعبہ، پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرے گی، اے اللہ! ہماری اولاد کو ایسا ہی کرنا، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1207
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4285
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ساٹھ بیویاں تھیں، تو انہوں نے کہا، ”آج رات میں سب کے ہاں جاؤں گا، اور ان میں سے ہر ایک کو حمل ٹھہرے گا، اور ان میں سے ہر ایک شاہسوار جوان جنے گی، جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا“ تو ان میں سے صرف ایک کو حمل ٹھہرا اور ادھرنگ بچہ پیدا ہوا، یعنی ناقص الخلقت انسان پیدا ہوا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اگر ان شاءاللہ کہہ لیتے تو ان میں سے ہر ایک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4285]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیویوں کی تعداد میں احادیث میں اختلاف ہے،
آپﷺ کا اصل مقصود،
ان کی کثرت بیان کرنا تھا،
اس لیے روایت بالمعنی کی بنا پر راویوں نے کثرت پر دلالت کرنے والے مختلف اعداد بیان کر دئیے،
چونکہ حدیث کا اصل مخرج،
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں،
اس لیے قطعیت اور یقین کے ساتھ تعداد متعین نہیں ہو سکتی۔
ہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد آزاد اور لونڈیوں کو ملا کر نوے سے زائد اور سو سے کم تھی،
بعض راویوں نے صرف آزاد بیویوں کا تذکرہ کیا،
تو تعداد کم بیان کی اور بعض نے آزاد اور لونڈیوں کو ملایا،
اور نوے سے زائد کو نظرانداز کر کے ان کی تعداد نوے بیان کر دی،
اور بعض نے کمی کو پورا کرتے ہوئے سو (100)
کر دیا اور ہر بیوی کے حاملہ ہونے کی خواہش اور آرزو کا اظہار کرتے وقت،
فرشتہ کے یاد دلانے کے باوجود،
ان کے مجاہد فی سبیل اللہ ہونے کی تمنا کی،
ان شاءاللہ کہنا بھول گئے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا،
وگرنہ اگر وہ ان شاءاللہ کہہ لیتے،
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق،
اللہ کے ہاں ان کی یہ آرزو اور تمنا شرف قبولیت حاصل کر لیتی اور ہر بیوی جوان شہسوار جنتی،
اور یہ بات آپ نے اللہ تعالیٰ کے بتانے کی بنا پر بتائی،
وگرنہ یہ لازم نہیں ہے کہ جس آرزو اور خواہش کے ساتھ انسان ان شاءاللہ کہہ لے وہ آرزو و ضرور پوری ہو گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ﴿سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ صَابِرًا﴾ کہا تھا،
لیکن اس کے باوجود خضر علیہ السلام نے کہا،
﴿ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴾ یہ اس معاملہ کی حقیقت ہے،
جس پر آپ صبر نہیں کر سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4285
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5242
5242. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا سلیمان بن داود ؑ نے فرمایا: آج رات میں اپنی سو بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ہر بیوی ایک لڑکا جنم دے گی تو سو لڑکے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے فرشتے نے ان سے کہا: ان شاءاللہ کہہ لیجیے لیکن انہوں نے ان شاء اللہ نہ کہا اور وہ بھول گئے، چنانچہ وہ تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کسی کے ہاں بچہ نہ پیدا ہوا۔ اس نے بھی ادھورا بچہ جنم دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ان کی مراد بر آتی اور ان کی خواہش پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5242]
حدیث حاشیہ:
لم یحنث مرادہ قال ابن التین لأن الحنث لا یکون إلا عن یمین قال و یحتمل أن یکون سلیمان في ذالك قلت أو نزل التأکید المستفاد من کونه لأطوفن اللیلة (فتح)
یعنی لفظ لم یحنث کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد کے خلاف نہ ہوتا۔
ابن تین نے کہا کہ حنث قسم سے ہوتی ہے لہٰذا احتمال ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس امر پر قسم کھائی ہو یا ان کا جملہ لأطوفن اللیلة ہی قسم کی جگہ ہے جو ان شاءاللہ نہ کہنے سے پوری نہ ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5242
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6639
6639. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت سلیمان ؑ نے کہا: میں آج رات نوے بیویوں سے جماع کروں گا ہر ایک بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ انہیں ان کے ساتھی نے کہا: ان شاء اللہ کہو لیکن انہوں نے ان شاء اللہ نہ کیا، چنانچہ سلیمان ؑ نے تمام عورتوں سے جماع کیا تو ان میں سے ایک عورت کے علاوہ کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی ناتمام بچے کو جنم دیا۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! اگر وہ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو سب بچے شہسوار بن کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6639]
حدیث حاشیہ:
حضرات انبیا ء علیہم السلام اگرچہ معصوم ہونےہیں مگر سہوونسیان انسانی فطرت ہےاس سے انبیاء کی شان میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6639
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7469
7469. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی سیدنا سلیمان ؑ کی ساٹھ بیویاں تھیں۔ انہوں نے کہا: میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ہر بیوی حاملہ ہوگی اور ایک ایک شہسوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ پھر وہ اپنی بیویوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک بیوی نے ناقص بچہ جنم دیا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ہر بیوی حاملہ ہوتی اور شہسوار کو جنم دیتی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7469]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب ان شاءاللہ سےنکلا کیونکہ اس میں مشیت الہی کا ذکرہے۔
اگر سلیمان ؑ مشیت الہی کا سہارا لیتے تو اللہ ضرور ان کی منشا پوری کرتا، مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا اس لیے وہ ان شاء اللہ کہنا بھی بھول گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7469
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3424
3424. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”حضرت سلیمان بن داود ؑ نے کہا: میں آج ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ہر عورت کو ایک گھوڑا سوار کاحمل ٹھرے گا (یعنی ہرہر عورت ایک شہسوار کو جنم دے گی) جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی نے کہا: آپ إن شاء اللہ کہہ دیں، لیکن انھوں نے إن شاء اللہ نہ کہا تو ایک عورت کے سوا کسی کو حمل نہ ٹھہرا۔ وہ بھی (ایسا کہ) جس کا ایک پہلو ساقط تھا۔“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ إن شاء اللہ کہہ دیتے تو وہ سب کے سب جوان ہوکر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔“ شعیب اور ابو زناد نے ستر کے بجائے نوے عورتوں کا ذکر کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3424]
حدیث حاشیہ: 1۔
قرآن کریم میں ہے کہ ہم نے حضرت سلیمان ؑ کو آزمائش میں ڈالا اور اس کے تخت پر ایک جسد لاکرڈال دیا۔
(ص: 34) کچھ لوگوں نے اس آیت کی تفسیر مذکورہ بالا حدیث سے کی ہے، حالانکہ اس حدیث کاآیت کریمہ سے کوئی تعلق نہیں جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
۔
یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ دیگرکتب حدیث میں بھی ہے لیکن کسی محدث نے اس حدیث کو مذکورہ آیت کی تفسیر میں بیان نہیں کیا۔
۔
خود امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے لیکن انھوں نے بھی اسے کتاب التفسیر میں بیان نہیں کیا۔
۔
کسی حدیث میں یہ اشارہ تک نہیں کہ یہ ادھورا بچہ کسی نے حضرت سلیمان ؑ کےتخت پر کرسی پر لاکرڈال دیاہو۔
یہ مفسرین کا اپنی طرف سے اضافہ ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کی آزمائش کا تعلق اسی بات سے ہے۔
اب اس بے جان دھڑسے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق کوئی معقول توجیہ ہمیں ابھی تک دستیاب نہیں ہوسکی، البتہ مفسرین کی بےسروپا اور غیر معقول باتوں سے ہمیں اتفاق نہیں ہے، جو انھوں نے حضرت سلیمان ؑ کی طرف منسوب کی ہیں۔
باعث تعجب ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ جیسے ثقہ محدث نے بھی انھیں نقل کرکے خاموشی اختیار کی ہے۔
2۔
روایات میں حضرت سلیمان ؑ کی بیویوں کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے۔
جمع کی صورت یہ ہے کہ بیویاں ساٹھ تھیں اور ان سے زائد عورتیں لونڈیاں تھیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3424
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5242
5242. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا سلیمان بن داود ؑ نے فرمایا: آج رات میں اپنی سو بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ہر بیوی ایک لڑکا جنم دے گی تو سو لڑکے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے فرشتے نے ان سے کہا: ان شاءاللہ کہہ لیجیے لیکن انہوں نے ان شاء اللہ نہ کہا اور وہ بھول گئے، چنانچہ وہ تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کسی کے ہاں بچہ نہ پیدا ہوا۔ اس نے بھی ادھورا بچہ جنم دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ان کی مراد بر آتی اور ان کی خواہش پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5242]
حدیث حاشیہ:
(1)
مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں ایک ہزار عورت تھی جن میں تین سوعورتیں آزاد اور سات سو باندیاں تھیں۔
چونکہ ایک عدد دوسرے عدد کے منافی نہیں ہوتا، اس لیے روایات میں تعداد کے متعلق تضاد نہیں ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہ السلام کو مردمی قوت بہت دی ہوئی تھی، اس لیے ان کا اتنی عورتوں سے ملاپ کرنا خلاف عقل نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5242
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6720
6720. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا: میں ضرور ایک رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان میں سے پر ایک بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی نے ”فرشتے“ نے کہا: ان شاء اللہ کہہ دیں۔ لیکن وہ بھول گئے، چنانچہ وہ تمام بیویوں کے پاس گئے اور ان میں کسی بیوی کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوا مگر ایک عورت نے ناقص بچہ جنم دیا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے آپ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو حانث نہ ہوتے اور اپنا مقصد حاصل کر لیتے۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے: ”اگر وہ استشناء کہہ لیتے۔“ ہم سے ابو زناد نے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی طرح حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6720]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حنث سے مراد قسم ٹوٹنا نہیں بلکہ عدم وقوع ہے، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو ارادہ کیا تھا وہ پورا نہ ہوا اور ''لم يحنث'' کے معنی یہ ہیں کہ اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہہ لیتے تو اس طرح ہوتا جیسا کہ انہوں نے ارادہ کیا تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے:
”امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر عام حالات و واقعات میں ان شاءاللہ کہا جا سکتا ہے تو ایسی خبریں جنہیں قسم سے پختہ کر دیا گیا ہو ان میں ان شاءاللہ کہنا کیوں جائز نہیں، یعنی قسم میں ان شاءاللہ کہنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔
(فتح الباري: 738/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6720
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7469
7469. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی سیدنا سلیمان ؑ کی ساٹھ بیویاں تھیں۔ انہوں نے کہا: میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ہر بیوی حاملہ ہوگی اور ایک ایک شہسوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ پھر وہ اپنی بیویوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک بیوی نے ناقص بچہ جنم دیا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ہر بیوی حاملہ ہوتی اور شہسوار کو جنم دیتی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7469]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے عزم کا اظہار کیا تو ان کے ساتھی نے کہا:
ان شاء اللہ کہہ دیں لیکن اس یاد دہانی کے باوجود انھوں نے ان شاء اللہ نہ کہا۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2819)
دوسری روایت میں ہے کہ فرشتے نے ان شاء اللہ کہنے کی یاد دہانی کرائی لیکن انھوں نے یہ کلمہ نہ کہا بلکہ بھول گئے۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5242)
دراصل انھیں اپنے آپ پر اس قدر خود اعتمادی تھی اور ظاہری اسباب پر بھروسا تھا کہ یاد دہانی کے باوجود اس پر عمل نہ کر سکے انھیں اپنی مراد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جس قدر بھی اسباب مہیا ہوں اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا سہارا ضرور لینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
اگر حضرت سلیمان علیہ السلام مشیت الٰہی کا سہارا لیتے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی منشا پوری کرتا مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا اس لیے یاد دہانی کے باوجود وہ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔
2۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔
”کسی چیز کے متعلق یہ کبھی نہ کہیں کہ میں یہ ضرور کروں گا الا یہ کہ اللہ چاہے۔
“ (الکھف18۔
23)
مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے لہٰذا اس قاعدے کو ہر وقت کو ہرملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ فلاں وقت کام کر سکے گا یا نہیں اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہی ہے کہ جو چاہے کر سکے لہٰذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل سے متعلق کوئی بات کرے تو اسے ان شاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیے مگر افسوس کہ کچھ بد نیت قسم کے لوگوں نے ان شاء اللہ کو اپنی بدینتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے۔
ان کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام چلائیں بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
ان لوگوں نے اس بابرکت کلمے کو اس قدر بد نام کردیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدےکے ساتھ ان شاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نیت میں فتور ہے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا ایمان دار آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7469