Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الأيمان والنذور
ابواب: قسم اور نذر کے احکام و مسائل
16. بَابُ : الْكَفَّارَةِ بَعْدَ الْحِنْثِ
باب: قسم توڑنے کے بعد کفارہ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3816
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيّ يُحَدِّثُ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے علاوہ کو اس سے بہتر پائے تو وہی کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9871)، مسند احمد (4/256، 378)، سنن الدارمی/النذور والأیمان 9 (2390) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی پچھلی حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے ہی کفارہ ادا کرنے کا ذکر ہے، اور عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں قسم توڑنے کے بعد کفارہ ادا کرنے کی بات ہے، امام نسائی اور امام بخاری نے ان دونوں حدیثوں سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ چاہے تو کفارہ پہلے ادا کر دے، یا چاہے تو بعد میں ادا کرے دونوں صورتیں جائز ہیں، بعض علماء قسم توڑنے کے بعد ہی کفارہ ادا کرنے کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ذکر میں تقدیم تاخیر اتفاقیہ ہے، یا رواۃ کی طرف سے ہے کیونکہ خود عبدالرحمٰن بن سمرہ کی حدیث (رقم: ۲۸۲۰، ۲۸۲۲) میں کفارہ کا تذکرہ بعد میں ہے، یعنی قسم کا ٹوٹنا پہلے ہونا چاہیئے، مگر یہ نص شریعت کے مقابلے میں قیاس ہے اور بس۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3816 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3816  
اردو حاشہ:
سابقہ احادیث میں کفارے کا ذکر قسم توڑنے سے پہلے تھا اور اس حدیث (اور آئندہ احادیث) میں قسم توڑنے کا ذکر پہلے ہے اور کفارے کا بعد میں۔ گویا دونوں جائز ہیں۔ کسی ایک کے ضروری ہونے کی صراحت نہیں۔ اگر کوئی ایک صورت ضروری ہوتی تو آپ صراحتاً اسے اختیار کرنے کی تلقین فرما دیتے‘ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ بہر حال یہ مسلک جمہور اہل علم کا ہے اور یہی درست ہے۔ احادیث صحیحہ پر عمل کرنا قیاسات پر عمل کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3816   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4279  
تمیم بن طرفہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، جبکہ ان کے پاس ایک آدمی سو درہم (100) مانگنے کے لیے آیا، تو انہوں نے کہا، تو مجھ سے سو (100) درہم مانگ رہا ہے، حالانکہ میں حاتم کا بیٹا ہوں؟ اللہ کی قسم! میں تمہیں نہیں دوں گا، پھر کہنے لگے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا، جس نے کسی کام کے لیے قسم اٹھائی، پھر اس کے سامنے بہتر سوچ آئی، تو وہ کام کرے جو بہتر ہے۔ (تو میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4279]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تسئلني مائة درهم؟ وانا ابن حاتم کا مقصد بقول امام قرطبی یہ ہے،
کہ میں حاتم کا بیٹا ہوں،
جو جودو سخاورت کی کثرت میں معروف و مشہور ہے،
اور تم مجھ سے اس قدر کم رقم کا مطالبہ کررہے ہو،
اور بقول قاضی عیاض،
سائل نے حضرت عدی سے اس وقت سوال کیا،
جبکہ اسے پتہ تھا کہ فی الحال ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے،
اور سائل کا مقصد حضرت عدی کے بخل اور کچھ دینے سے انکار کرنے کا اظہار تھا،
اس لیے حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے ناراضی کی حالت میں یہ کہا،
کہ تم جان بوجھ کر مجھے رسوا کرنے کے لیے کہ حاتم کا بیٹا بخیل و کنجوس ہے،
یہ سوال کر رہےہو،
حالانکہ تمہیں پتہ اس وقت میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے،
جاؤ میں اپنے گھر والوں کو لکھ دیتا ہوں،
وہ تمہارا سوال پورا کر دیں،
لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوا،
اس لیے انہوں نے کچھ نہ دینے کی قسم اٹھائی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4279