سنن نسائي
كتاب الهبة
کتاب: ہبہ کے احکام و مسائل
1. بَابُ : هِبَةِ الْمَشَاعِ
باب: مشترکہ چیزوں کے ہبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3718
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَتْهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ إِنَّا أَصْلٌ وَعيرَةٌ وَقَدْ نَزَلَ بِنَا مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ فَامْنُنْ عَلَيْنَا مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ، فَقَالَ:" اخْتَارُوا مِنْ أَمْوَالِكُمْ أَوْ مِنْ نِسَائِكُمْ وَأَبْنَائِكُمْ، فَقَالُوا: قَدْ خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا بَلْ نَخْتَارُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ , فَإِذَا صَلَّيْتُ الظُّهْرَ، فَقُومُوا فَقُولُوا إِنَّا نَسْتَعِينُ بِرَسُولِ اللَّهِ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَوِ الْمُسْلِمِينَ فِي نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا صَلَّوْا الظُّهْرَ قَامُوا فَقَالُوا ذَلِكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَمَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ"، فَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ: وَمَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا، وَقَالَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو فَزَارَةَ فَلَا، وَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا، فَقَامَتْ بَنُو سُلَيْمٍ فَقَالُوا: كَذَبْتَ مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ تَمَسَّكَ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ فَلَهُ سِتُّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْنَا" , وَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ وَرَكِبَ النَّاسُ اقْسِمْ عَلَيْنَا فَيْئَنَا فَأَلْجَئُوهُ إِلَى شَجَرَةٍ فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لَكُمْ شَجَرَ تِهَامَةَ نَعَمًا قَسَمْتُهُ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ لَمْ تَلْقَوْنِي بَخِيلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا كَذُوبًا، ثُمَّ أَتَى بَعِيرًا فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ: هَا إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنَ الْفَيْءِ شَيْءٌ وَلَا هَذِهِ إِلَّا خُمُسٌ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ بِكُبَّةٍ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْدَعَةَ بَعِيرٍ لِي، فَقَالَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ" فَقَالَ: أَوَبَلَغَتْ هَذِهِ فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا فَنَبَذَهَا، وَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ فَإِنَّ الْغُلُولَ يَكُونُ عَلَى أَهْلِهِ عَارًا وَشَنَارًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ہوازن کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ہم آپ کے پاس تھے۔ انہوں نے کہا: اے محمد! ہم ایک ہی اصیل اور خاندانی لوگ ہیں اور ہم پر جو بلا اور مصیبت نازل ہوئی ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں، آپ ہم پر احسان کیجئے، اللہ آپ پر احسان فرمائے گا۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے مال یا اپنی عورتوں اور بچوں میں سے کسی ایک کو چن لو“، تو ان لوگوں نے کہا: آپ نے ہمیں اپنے خاندان والوں اور اپنے مال میں سے کسی ایک کے چن لینے کا اختیار دیا ہے تو ہم اپنی عورتوں اور بچوں کو حاصل کر لینا چاہتے ہیں، اس پر آپ نے فرمایا: ”میرے اور بنی مطلب کے حصے میں جو ہیں انہیں میں تمہیں واپس دے دیتا ہوں اور جب میں ظہر سے فارغ ہو جاؤں تو تم لوگ کھڑے ہو جاؤ اور کہو: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے آپ سارے مسلمانوں اور مومنوں سے اپنی عورتوں اور بچوں کے سلسلہ میں مدد کے طلب گار ہیں“۔ چنانچہ جب لوگ ظہر پڑھ چکے تو یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہی بات دہرائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ ہے وہ تمہارے حوالے ہے“، یہ بات سن کر مہاجرین نے کہا: جو ہمارے حصے میں ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد، اور انصار نے بھی کہا: جو ہمارے حصہ میں ہے وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد، اس پر اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اور بنو تمیم تو اپنا حصہ واپس نہیں کر سکتے۔ عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ میں اور بنو فزارہ بھی اپنا حصہ دینے کے نہیں۔ عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اور بنو سلیم بھی اپنا حصہ نہیں لوٹانے کے۔ (یہ سن کر) قبیلہ بنو سلیم کے لوگ کھڑے ہوئے اور کہا: تم غلط کہتے ہو، ہمارا حصہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! ان کی عورتوں اور بچوں کو انہیں واپس کر دو اور جو کوئی بغیر کسی بدلے نہ دینا چاہے تو اس کے لیے میرا وعدہ ہے کہ مال فیٔ میں سے جو اللہ تعالیٰ پہلے عطا کر دے گا میں اس کے ہر گردن (غلام) کے بدلے چھ اونٹ ملیں گے“، یہ فرما کر آپ اپنی سواری پر سوار ہو گئے، اور لوگوں نے آپ کو گھیر لیا (اور کہنے لگے:) ہمارے حصہ کا مال غنیمت ہمیں بانٹ دیجئیے، اور آپ کو ایک درخت کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا جس سے آپ کی چادر الجھ کر آپ سے الگ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ”لوگو! میری چادر تو واپس لا دو، قسم اللہ کی! اگر تمہارے لیے تہامہ کے درختوں کے برابر اونٹ بھی ہوں تو میں انہیں تم میں تقسیم کر دوں گا، تم لوگ مجھے بخیل، بزدل اور جھوٹا نہیں پاؤ گے، پھر ایک اونٹ کے پاس آئے اور اپنی انگلیوں کے درمیان اس کے کوہان سے بالوں کا ایک گچھا لے کر کہنے لگے: سن لو! فیٔ میں سے میرا کچھ نہیں ہے اور یہ بھی نہیں ہے (اونٹ کے بالوں کی طرف اشارہ کر کے کہا) سوائے خمس (۱/۵) کے اور خمس بھی (گھوم پھر کر) تمہیں لوگوں کو لوٹا دیا جاتا ہے“۔ یہ بات سن کر ایک آدمی بالوں کا ایک گچھا لے کر آپ کے پاس آ کھڑا ہوا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے بالوں کا یہ گچھا لیا ہے تاکہ اس سے اپنے اونٹ کی (پھٹے ہوئے) پالان (گدے) کو درست کر لوں، آپ نے فرمایا: ”میرا اور بنی مطلب کا جو حصہ ہے وہ تمہارے لیے ہے“ اس شخص نے کہا: کیا یہ اس حد تک سنگین اور اہم معاملہ ہے؟ تو مجھے اس سے کچھ نہیں لینا دینا، یہ کہہ کر اس نے بالوں کا گچھا مال فیٔ میں ڈال دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! ”سوئی اور دھاگا بھی لا کر جمع کرو، کیونکہ مال غنیمت میں چوری اور خیانت قیامت کے دن چوری اور خیانت کرنے والے کے لیے شرم و ندامت کا باعث ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد131 (2694)، (تحفة الأشراف: 8782)، مسند احمد (2/184، 218) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3718 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3718
اردو حاشہ:
(1) ”مصیبت نازل ہوئی“ یہ غزوۂ حنین کی بات ہے۔ فتح مکہ کے بعد نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو ہوازن وغیرہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں۔ آپ نے ان سے مقابلے کا فیصلہ فرمایا۔ جنگ ہوئی تو ہوازن وغیرہ کو شکست ہوئی اور ان کے بیوی‘ بچے‘ اونٹ‘ بکریاں غیرضیکہ ہر چیز مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ آپ نے تقسیم کرنے سے چودہ دن تک احتراز فرمایا کہ اگر یہ قبیلہ مسلمان ہوکر آجائے تو ان کا اہل ومال بھی انہیں واپس کردیا جائے۔ لیکن وہ ڈرتے نہ آئے۔ آخر آپ نے ان کا مال واہل تقسیم فرما دیا۔ تقسیم کے بعد تو لوگ وفد کی صورت میں آئے۔ اپنے اسلام کا بھی اعلان کیا اور اپنے اہل ومال کی تقسیم کی واپسی کی درخواست بھی کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ اگر تم پہلے آجاتے تو سب کچھ تمہیں مل جاتا۔ مگر اب تقسیم ہوچکی ہے۔ سب کچھ وپس لینا مشکل ہوگا‘ لہٰـذا اہل ومال میں سے ایک چیز کو پسند کرلو۔“
(2) اقرع بن حابس جاگزیں نہیں ہوئے تھے اور نہ انہیں رسول اللہ ﷺ کی تربیت سے فیض یاب ہونے کا موقع ہی ملا تھا‘ اس لیے انہوں نے ا س قسم کے الفاظ استعمال کیے ورنہ محض صحابہ تو ایسے انداز کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
(3) ”چھ چھ اونٹ مل جائیں گے“ آپ کا مقصد یہ تھا کہ میں ان کے بیوی بچوں کو واپسی کا فیصلہ کرچکا ہوں‘ لہٰذا سب کو واپس کرنے پڑیں گے‘ البتہ جو اپنا حصہ برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ اسے ہم آئندہ ملنے والی کسی غنیمت سے اس کے اس حصے کے عوض چھ اونٹ دے دیں گے۔ اب وہ ان کے بیوی بچے انہیں واپس کردے۔
(4) ”لوگوں نے گھیر لیا“ یہ غالبا۔ اسلامی لشکر میں شامل لوگ نہیں تھے کیونکہ انہیں تو حصہ مل چکا تھا‘ بلکہ یہ ارد گرد کے اعراب ہوں گے جوغنیمت کی خبر سن کر دوڑ آئے ہوں گے اور بلاوجہ مانگ رہے تھے‘ جبکہ غنیمت تقسیم ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود آپ نے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا اور گستاخی پر ان کا مواخذہ بھی نہیں کیا۔ ﷺ۔
(5) ”تمہیں ہی مل جاتا ہے“ کیونکہ خمس بیت المال میں جمع ہوتا تھا۔ آپ اپنی ضروریات کے مطابق اس سے لے لیتے تھے اور باقی مسلمانوں کے مصالح ہی پر صرف ہوتا تھا۔
(6) ”میرا اور خاندان عبدالمطلب اس سے لے لیتے تھے اور باقی مسئلہ پر دلالت ہوتی ہے کہ آپ اور خاندان عبدالمطلب کا حصہ الگ نہیں تھا بلکہ کل کے اندر ہی شامل تھا اور وہی آپ نے ہبہ یا معاف کیا ہے‘ لہٰذا مشترک چیز کا ہبہ کرنا جائز ہے۔
(7) اگر امام مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3718