Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
3. بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْعَتَاقَةِ فِي الْكُسُوفِ وَالآيَاتِ:
باب: سورج گرہن اور دوسری نشانیوں کے وقت غلام آزاد کرنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 2519
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ:" أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَاقَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ". تَابَعَهُ عَلِيٌّ، عَنِ الدَّرَاوَرْدِيِّ، عَنْ هِشَامٍ.
ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدۃ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بن منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو علی بن مدینی نے بھی عبدالعزیز دراوردی سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے ہشام سے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2519 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2519  
حدیث حاشیہ:
علی سے مراد امام بخاری ؒ کے استاد علی بن مدینی ہیں اور دراوردی سے مراد عبدالعزیز بن محمد ہیں۔
موسیٰ بن مسعود اس روایت کو زائدہ بن قدامہ کے واسطے سے ہشام سے بیان کرتے ہیں جبکہ علی بن مدینی دراوردی کے واسطے سے ہشام سے بیان کرتے ہیں۔
گویا علی بن مدینی نے موسیٰ کے استاد کے استاد میں اس کی متابعت کی ہے۔
(فتح الباري: 186/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2519   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1192  
´گرہن لگنے پر غلام آزاد کرنے کا بیان۔`
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کسوف میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1192]
1192. اردو حاشیہ:
یہ امر استحباب اور ترغیب ہے اور کسی انسان کو معاشرے میں اس کا حق اور مقام دلانا بڑا عظیم عمل ہے، بالخصوص مسلمان کے لئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1192   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2520  
2520. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم دیاجاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2520]
حدیث حاشیہ:
چاند سورج کا گرہن آثار قدرت میں سے ہے۔
جن سے اللہ پاک اپنے بندوں کو ڈراتا اور بتلاتا ہے کہ یہ سارا عالم ایک نہ ایک دن اسی طرح تہ و بالا ہونے والا ہے۔
ایسے موقع پر غلام آزاد کرنے کا حکم دیاگیا جو بہت بڑی نیکی ہے اور نوع انسانی کی بڑی خدمت جس کا صلہ یہ کہ اللہ پاک اس غلام کے ہر عضو کو دوزخ سے آزاد کردیتا ہے۔
الحمدللہ اسلام کی اسی پاک تعلیم کا ثمرہ ہے کہ آج دنیا ایسی غلامی سے تقریباً سے ناپید ہوچکی ہے، نیکیوں کی ترغیب کے سلسلہ میں قرآن پاک و احادیث نبوی کا ایک بڑا حصہ غلام آزاد کرانے کی ترغیبات سے بھرپور ہے۔
اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں انسانی آزادی کی کس قدر قدروقیمت ہے اور انسانی غلامی کتنی مذموم شے ہے۔
تعجب ہے ان مغرب زدہ ذہنوں پر جو اسلام پر رجعت پسندی کا الزام لگاتے اور اسلام کو انسانی ترقی و آزادی کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں کو انصاف کی آنکھوں سے تعلیمات اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2520   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1054  
1054. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1054]
حدیث حاشیہ:
(1)
عام حالات میں غلام آزاد کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، لیکن گرہن کے وقت اس کا اہتمام کرنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ ہمیں گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
(صحیح البخاري، العتق، حدیث: 2520) (2)
جس انسان میں غلام آزاد کرنے کی ہمت نہ ہو اسے چاہیے کہ اس عام حدیث پر عمل کرے جس میں ہے:
آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1413، وصحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2347(1016)
بہرحال ایسے حالات میں صدقہ و خیرات کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1054   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2520  
2520. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم دیاجاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2520]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دونوں روایات انتہائی مختصر ہیں۔
پہلے متصل حدیث گزر چکی ہے۔
(صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1047) (2)
عنوان میں اللہ کی دوسری نشانیوں کا ذکر بھی ہے جبکہ حدیث میں صرف سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم ہے، امام بخاری ؒ نے اللہ کی نشانیوں کو سورج گرہن پر قیاس کیا ہے یا پھر ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا جس کے الفاظ یہ ہیں:
سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔
(صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1048)
کیونکہ ڈرانا اکثر و بیشتر آگ سے ہوتا ہے اس مناسبت سے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم ہے جو دوزخ سے آزادی کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 186/5)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2520