صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
2. بَابُ أَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ:
باب: کیسا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟
حدیث نمبر: 2518
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ، قُلْتُ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَغْلَاهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ: تُعِينُ ضَايِعًا أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ: تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابومرواح نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے پوچھا اور کس طرح کا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں جو بہت زیادہ پسندیدہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ پھر کسی مسلمان کاریگر کی مدد کر یا کسی بے ہنر کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ بھی نہ کر سکا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2518 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2518
حدیث حاشیہ:
قیمتی غلام اچھا بہترین ماہر کاریگر خواہ کسی بھی مفید فن کا ماہر ہو ایسا غلام مالک کی نظر میں اس لیے پیارا ہوتا ہے کہ وہ روزانہ اچھی کمائی کرلیتا ہے۔
ایسے کو آزاد کرنا بڑا کار ثواب ہے یا پھر ایسے انسان کی مدد کرنا جو بے ہنر ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہو:
اللهم أید الإسلام و المسلمین۔
آمین حدیث میں صانع کا لفظ بمعنی کاریگر ہے کوئی بھی حلال پیشہ کرنے والا مراد ہے۔
بعضوں نے لفظ ضائعا روایت کیا ہے ضاد معجمہ سے تو اس کے معنے یہ ہوں گے جو کوئی تباہ حال ہو یعنی فقر و فاقہ میں مبتلا ہو کر ہلاک و برباد ہورہا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2518
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2518
� لغوی توضیح:
«أَغْلَاهَا» ان میں سب سے قیمتی۔
«أَنْفَسُهَا» ان میں سب سے عمدہ۔
«أَخْرَقَ» جو کوئی بھی ہنر نہ جانتا ہو۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 51
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2518
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ضائعا کے بجائے صانعا کے الفاظ ہیں (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 250 (84)
جس کے معنی ہنرمند اور کاریگر کے ہیں، اس کے متعلق شارح بخاری ابن منیر فرماتے ہیں کہ ہنرمند محتاج کی مدد کرنا بے ہنر کے تعاون سے افضل ہے کیونکہ بے ہنر کی ہر کوئی مدد کرتا ہے لیکن ہنر مند کی مدد کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا کیونکہ اس کی شہرت لوگوں کو اس کے تعاون سے غافل کر سکتی ہے، اس لیے ہنرمند کے لیے دست تعاون بڑھانا گویا سفید پوش اور خودار کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن کا اصل درجہ یہ ہے کہ وہ تکلیف پہنچانے سے بچے۔
(فتح الباري: 186/5)
گر قوت نیکی نہ داری بدی مکن، یعنی اگر تم کسی کے ساتھ بھلائی اور نیکی نہیں کر سکتے تو برائی بھی نہ کرو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2518
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1221
´(آزادی کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بہترین عمل کون سا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستہ میں جہاد کرنا“ میں نے عرض کیا کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے فرمایا ” وہ غلام جو قیمت میں زیادہ گراں اور مالکوں کی نظروں میں زیادہ نفیس و محبوب ہو۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1221»
تخریج: «أخرجه البخاري، العتق، باب أي الرقاب أفضل، حديث:2518، ومسلم، الإيمان، باب بيان كون الإيمان بالله تعالي أفضل الأعمال، حديث:84.»
تشریح:
1. افضل عمل کی بابت سوال کرنے والے مختلف لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جوابات دیے ہیں جس سے ظاہراً احادیث میں تعارض معلوم ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ تعارض نہیں بلکہ تمام جواب اپنی جگہ پر درست اور صحیح ہیں کیونکہ ہر سائل کا جواب اس کے حسبِ حال اور موقع کی مناسبت سے تھا۔
2. نفیس، مرغوب، قیمتی اور دل کو بھانے والی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی افضل عمل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1221
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2523
´غلام آزاد کرنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا غلام آزاد کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مالکوں کو سب سے زیادہ پسند ہو، اور جو قیمت کے اعتبار سے سب سے مہنگا ہو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2523]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کی راہ میں عمدہ مال دینا افضل ہے اس طرح قیمتی غلام یا لونڈی آزاد کرنا زیادہ افضل ہے۔
(2)
عمدہ سےمراد یہ ہے اس کی خوبیوں کی وجہ سے مالک کے دل میں اس کی قدر زیادہ ایسا غلام آزاد کرنے کو دل نہیں چاہتا جو مثلاً:
ہنرمند، باتمیز، اطاعت گزار ہو۔
قیمتی سے مراد وہ ہے جس کی ظاہری خوبیوں (ظاہری شکل وصورت طاقتور اورصحت مند ہونا وغیرہ)
کی وجہ سےاس کی زیادہ قیمت ملنے کی توتع ہو-
(3)
اگر کسی کو جانور صدقے کے طورپر دیا جائے تو اس صورت میں بھی عمده اور قیمتی جانور کا ثواب زیادہ ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2523
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:131
131- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کون سا عمل زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: کون سا غلام زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی قیمت زیادہ ہو جو اپنے مالک کے نزدیک عمدہ ہو۔“ میں نے عرض کی: اگر میں اس کی قدرت نہ رکھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کسی کام کرنے والے کی مدد کردو یا کسی جاہل یا (اپاہج)کے لیے کوئی کام کردو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:131]
فائدہ:
مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل قرار دیا گیا ہے، انسان کو ہمیشہ افضل اعمال کی تلاش میں رہنا چاہیے، اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ ٰ کی رحمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس حدیث میں زندگی گزارنے کے بعض اہم اصول بیان کیے گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ انسان فرائض کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بھی نہ کر سکے صرف لوگوں کو اپنی ایذا سے محفوظ رکھے، تو یہ بھی نیکی اور صدقہ ہے، سبحان اللہ۔ ”حقوق اللہ اور حقوق الناس کا خیال رکھنا“ مکمل دین کا خلاصہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 131