Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب النكاح
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
74. بَابُ : دُعَاءِ مَنْ لَمْ يَشْهَدِ التَّزْوِيجَ
باب: شادی کے وقت غیر موجود شخص کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 3374
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) کے کپڑے پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: کھجور کی گٹھلی کے وزن برابر سونا دے کر میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: «بارك اللہ لك» اللہ تمہیں اس نکاح میں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 56 (5155)، الدعوات 53 (6386)، صحیح مسلم/النکاح 13 (1427)، سنن الترمذی/النکاح 10 (1094)، سنن ابن ماجہ/النکاح 24 (1907)، (تحفة الأشراف: 288)، مسند احمد (3/226) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3374 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3374  
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے ح نمبر3353۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3374   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 362  
´شادی پر حسب استطاعت ولیمہ کرنا مسنون ہے`
«. . . فقال: زنة نواة من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولم ولو بشاة . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 362]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5153، من حديث مالك به، ورواه مسلم 81/1427، من حديث حميد الطّويل به وصرّح حميد بالسماع عند البخاري 5072]

تفقه:
➊ شادی پر حسب استطاعت ولیمہ کرنا مسنون ہے۔
➋ افضل یہی ہے کہ نکاح یا شادی کے وقت ہی حق مہر ادا کر دیا جائے۔
➌ اپنی قوم سے باہر دوسری قوم میں شادی کرنا جائز ہے۔ دیکھئے: [تفقه نمبر: 5]
➍ حق مہر زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی، اس میں کوئی خاص مقدار ثابت نہیں ہے۔ تاہم اس میں بہت زیادہ اسراف اور غلو نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 2106، ومسند امام أحمد 1/48 ح340 وهو حسن]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «خير النكاح أيسره» بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4060 دوسرا نسخه 4072 وسنده صحيح، سنن ابي داؤد: 2117، وصححه الحاكم 2/181، 182، عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي]
➎ اپنے قبیلے میں اور قبیلے سے باہر دونوں طرح شادی کرنا بالکل صحیح اور جائز ہے۔
➏ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
➐ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں مروجہ بارات کا کوئی تصور نہیں ہے، وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ اپنی محبوب ترین شخصیت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بارات کے ساتھ لے کر نہ جاتے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 150   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3353  
´کھجور کی گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کرانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنا مہر دیا ہے اسے؟ انہوں نے کہا: ایک «نواۃ» (کھجور کی گٹھلی) برابر سونا ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ ۲؎ کرو چاہ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3353]
اردو حاشہ:
(1) صفرۃ یہ ایک رنگ دار خوشبو تھی جسے عورتیں استعمال کرتی تھیں۔ رنگ دار خوشبو مردوں کے لیے جائز نہیں‘ اس لیے نبیﷺ کو پوچھنا پڑا۔
(2) شادی کرلے اس کا اندازہ آپ کو رنگ دار خوشبو سے ہوگیا‘ یہ خوشبو مردوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ انہیں یہ خوشبو بیوی کے ساتھ اپنے بیٹھنے کی وجہ سے لگی تھی‘ انہوں نے قصداً نہ لگائی تھی۔ اسی لیے اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دی گئی۔
(3) نواۃ یہ سونے کا ایک سکہ تھا جس کی قیمیت تین یا بقول بعض پانچ درہم تھی۔ گویا اتنا مہر بھی ہوسکتا ہے۔ احناف کے نزدیک کم از کم مہردس درہم ہے۔ ان کی دلیل دار قطنی کی ایک ضعیف حدیث ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں مطلق مال کا ذکر ہے اور صحیح احادیث میں لوہے کی انگوٹھی تک کو مہر کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔ تعارض کی صورت میں صحیح احادیث پر عمل کرنا چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ چوتھائی دینار (تقریباً تین درہم) کو کم ازکم مہرمانتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نہ معمول ولیمہ ہے۔ عرب تو کئی کئی اونٹوں سے ولیمہ کرتے تھے مگر وہ تنگی کا دور تھا‘ لہٰذا اتنا بھی کافی تھا۔ جمہور اہل علم ولیمے کو مستحب سمجھتے ہیں‘ البتہ اہل ظاہر نے ظاہر الفاظ کی رعایت سے واجب کہا ہے۔ ولیمہ شادی کے بعد دوسرے دن کرنا مسنون ہے‘ البتہ کسی شرعی مجبوری کی بنا پر تاخیر ہوسکتی ہے۔ شادی سے پہلے ولیمہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دلھا کی طرف سے شادی کی خوشی کے موقع پر دعوت ہوتی ہے۔
(4) حق مہر ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3353   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3375  
´شادی میں زرد (پیلے) رنگ کے استعمال کی اجازت کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور ان پر زعفران کے رنگ کا اثر تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے (یہ اسی کا اثر و نشان ہے)۔ آپ نے پوچھا؟ مہر کتنا دیا؟ کہا: کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر سونا، آپ نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3375]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی کے موقع پر دلھا کے رنگ دار خوشبو کا استعمال جائز سمجھتے ہیں۔ شاید اسی حدیث کی بنیاد پر بعض فقہاء نے شادی کرنے والے شخص کے لیے مہندی لگانا جائز قراردیا ہے لیکن اس حدیث سے یہ دلیل لینا محل نظر ہے کیونکہ انہوں نے یہ خوشبو عمداً نہیں لگائی تھی بلکہ بیوی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے ان سے لگی تھی‘ ورنہ وہ جانتے تھے کہ رنگ دار خوشبو کا استعمال مرد کے لیے جائز نہیں۔ اسی لیے تو رسول اللہﷺ نے انہیں منع فرمایا ورنہ آپ وضاحت ضرور فرماتے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3375   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3390  
´دولہا کو ہدیہ و تحفہ دینے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور انصار کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کر دیا، تو سعد بن ربیع اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ سعد (انصاری) رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے پاس مال ہے اس کا آدھا تمہارا ہے اور آدھا میرا اور میری دو بیویاں ہیں تو دیکھو ان میں سے جو تمہیں زیادہ اچھی لگے اسے میں طلاق دے دیتا ہوں، جب وہ عدت گزار کر پاک و صاف ہو جائے تو تم اس سے شادی کر لو۔ عبدال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3390]
اردو حاشہ:
(1) مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا وسیع سلسلہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور بے مثال کارنامہ ہے۔ کوئی اور دین‘ نظریہ یا تحریک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس نے غیر رشتہ دار لوگوں کو ماں جائے بھائیوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا‘ خصوصاً اس دور میں جب لوگ بلاوجہ ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ کیا ہے کوئی شخص جو اپنے بھائی کو وہ پیش کش کرسکے جو حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کی؟ رَضِيَ اللّٰہ عَنْهمُ وَأَرْضَاهمُ۔
(2) انصاری عورت انہیں ام اوس بنت انس کہا جاتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3390   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2109  
´مہر کم رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے، پوچھا: اسے کتنا مہر دیا ہے؟ جواب دیا: گٹھلی (نواۃ ۱؎) کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2109]
فوائد ومسائل:
1: انسان کو اپنی اسطاعت کے مطابق حق مہر باندھنا چاہیے جو لینا دینا آسان ہو۔

2: زعفران اور دیگر رنگدار چیزیں (پاوڈر) مردوں کو استعمال کر نا جائز نہیں۔

3: شادی یا غمی کے موقع پر بھی قریب وبعید کے عزیزواقارب کو بلا کسی اہم مقصد کے جمع کرنا کوئی سنت نہیں ہے ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شادی ہوئی اور رسول ﷺکو خبر نہیں دی گئی۔

4: اصل سنت ولیمہ ہے حسب استطاعت جو میسر آئے بکری ہو یا کم و پیش کچھ اور جیسے کہ رسول ﷺنے سیدہ صفیہ رضی اللہ کے ولیمہ میں ستو ہی پیش فرمائے تھے۔

5: اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری شادیاں، سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
مثلا لمبی چوڑی براتیں اور پھر ان کی پر تکلف ضیافت۔
اسی طرح ولیمے میں انواع واقسام کے کھانوں کی بھر مار اور دیگر رسومات اس اسراف وتبذیر اور فضولیات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
(تفصیل کے لیےدیکھیں مسنون نکاح اور شادی بیاں کی رسومات، مطبوعہ دار السلام تالیف.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2109   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3743  
´نکاح ہونے پر ولیمہ کی دعوت کرنا مستحب ہے۔`
ثابت کہتے ہیں: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے کسی کے نکاح میں زینب کے نکاح کی طرح ولیمہ کرتے نہیں دیکھا، آپ نے ان کے نکاح میں ایک بکری کا ولیمہ کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3743]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ نکاح وحی کی بنیاد پر ہوا تھا۔
اس میں ولی حق مہر اور گواہیوں کا کوئی اہتمام نہ تھا۔
سورہ احزاب میں ہے۔
(فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ) (الأحزاب:37) پس جب زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لےپالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنا جی بھرلیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3743   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1907  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (کے جسم) پر پیلے رنگ کے اثرات دیکھے، تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بارك الله لك أولم ولو بشاة» اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1907]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
ارشاد نبوی ہے:
مردوں کی خوشبو وہ ہوتی ہے جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ غیر واضح ہو۔
اور عورتٔ کی خوشبو وہ ہوتی ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک غیر واضح ہو۔ (جامع الترمذي، الأدب، باب ماجاء فی طیب الرجال والنساء، حدیث: 2787)

(2)
رسول اللہ ﷺ نے صحابی کے لباس میں عورتوں کی خوشبو کا نشان دیکھا اس لیے دریافت کیا کہ تم نے عورتوں کی خوشبو کیوں لگا رکھی ہے؟ اس میں ایک لطیف انداز سے تنبیہ بھی ہے کہ اس کا استعمال تمہارے لیے مناسب نہیں۔
اور یہ اشارہ بھی ہے کہ اگر کوئی معقول عذر ہے تو بیان کرو۔

(3)
کسی میں غلطی دیکھ کر فوراً سختی کرنا درست نہیں بلکہ غلطی کرنے والے سے اس کی وجہ دریافت کرنی چاہیے تاکہ اسے اتنی ہی تنبیہ کی جائے جتنی ضروری ہے۔

(4)
گٹھلی سے مراد کجھور کی گٹھلی ہے۔
یہ اس دور کا ایک معروف وزن تھا۔
جس کی مقدار پانچ درہم (تقریبا ڈیڑھ تولہ)
ذکر کی گئی ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکاۃ، النکاح، باب الولیمة، حدیث: 3210)

(5)
ارشاد نبوی اگرچہ ایک بکری ہو۔
میں اشارہ ہے کہ ان میں زیادہ کی استطاعت تھی اس سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی گنجائش کے مطابق جس قدر اہتمام آسانی سے اور زیر بار ہوئے بغیر ہو سکے وہ کافی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1907   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1094  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1094]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: (أولم ولو بشأة) میں لو تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم ازکم ایک بکری ذبح کرو،
لیکن نبی اکرمﷺ نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستواورکجھورپر اکتفاکیا،
اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو،
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حالت کے پیش نظرایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپﷺ نے اُن سے أَولِم وَلَو بِشَأة فرمایا۔

2؎:
شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں،
یہ ولم (واؤکے فتحہ اورلام کے سکون کے ساتھ) سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں،
چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں،
ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اوربعض نے اسے واجب کہا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1094   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1252  
1252- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے۔ لوگوں کو مختلف جگہ پر ٹہرایا گیا سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ، سیدنا سعد بن ابی ربیع رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آئیے میں اپنا مال آپ کے ساتھ تقسیم کر لیتا ہوں اور آپ میری جس بیوی کے بارے میں چاہیں گے میں اس سے دستبردار ہو جاؤں گا اور آپ کی جگہ کام میں کر لیا کروں گا۔ تو سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل خانہ میں آپ کے مال میں برکت نصیب کرے! آپ بازار کی طرف میری رہنمائی کردیں، پھر سیدنا عبدالرح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1252]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے اوپر دوسروں کو زیادہ ترجیح دیتے تھے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خود محنت کرنا پسند کرتے تھے کسی پر بوجھ نہیں بنتے تھے۔
عورت کو مرد نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے، اور مہر دینا فرض ہے۔ اور دعوت ولیمہ بھی فرض ہے۔ قرعہ ڈالنا ٹھیک ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1250   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3490  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے (کپڑوں) پر زرد رنگ کے آثار دیکھے، تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک عورت سے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، کے عوض شادی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3490]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کپڑوں پر زعفران چھڑکنا جائز ہے،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک جائز نہیں ہے اور بعض حضرات کے نزدیک شادی کے وقت رنگدار خوشبو کا استعمال مرد کے لیے بھی جائز ہے،
لیکن عام طور پر یہی کیا جاتا ہے یہ رنگ عورت کی خوشبو سے لگ گیا تھا۔
کیونکہ عورتوں کی خوشبو رنگدار اور بلا مہک ہونی چاہیے اور گٹھلی کے برابر سونا،
پانچ درہم ہوتا ہے۔

نکاح کے بعد ولیمہ کرنا سنت ہے اگرچہ اہل ظاہر اور بعض شوافع نے اسے فرض قرار دیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ شب زفاف کے بعد ہو،
اور بعض مالکیوں کے نزدیک نکاح کے فوراً بعد بہتر ہے اور ولیمہ کے لیے کوئی مقدار معین نہیں ہے اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3490   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5155  
5155. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے گٹھلی کی مقدار سونے کے عوض نکاح کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5155]
حدیث حاشیہ:
نکاح کے بعد سب لوگ دولہا کو یوں دعا دیں (بَارَكَ اللهُ لكَ و بَاركَ عليكَ، و جَمَعَ بينَكُمَا في الخيرِ)
ترمذی کی روایت میں یوں ہے۔
(بَارَكَ اللهُ لكَ و بَاركَ عليكَ، و جَمَعَ بينَكُمَا في خير)
بقی بن مخلد کی روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں حضرت عبد الرحمن نے زردی نہیں لگائی تھی بلکہ ان کی دولہن کی زردی ان کولگ گئی ہوگی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5155   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5167  
5167. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا: جب انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی: تم نے اسے کتنا مہر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گٹھلی کی مقدار سونا (بطور مہر دیا ہے)، ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا انس ؓ نے کہا: جب لوگ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آئے تو مہاجرین نے انصار کے ہاں قیام کیا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے سیدنا سعد بن ربیع ؓ کے گھر رہائش اختیار کی۔ سیدنا سعد ؓ نے ان سے کہا کہ میں آپ کو آدھا مال دیتا ہوں اور آپ کے لیے اپنی ایک بیوی سے دستبردار ہو جاتا ہوں۔ سیدنا عبدالرحمن ؓ نے ان كو برکت كى دعا دى، پھر وہ بازار گئے اور خرید و فروخت کرنے لگے، انہوں نے وہاں سے پینیر اور گھی نفع میں کمایا۔ اس کے بعد انہوں نے شادی کی تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: دعوت ولیمہ کا اہتمام کرو، خواہ ایک بکری ہی سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5167]
حدیث حاشیہ:
ولیمہ میں بکری کا ہونا بطور شرط نہیں ہے۔
گوشت نہ ہو تو جو بھی دال دلیہ ہو اسی سے ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5167   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5168  
5168. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے سیدہ زینب جیسا ولیمہ اپنی بیویوں میں سے کسی کا نہیں کیا۔ ان کا ولیمہ آپ نے ایک بکری ذبح کر کے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5168]
حدیث حاشیہ:
قاضی عیاض نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ولیمہ میں کمی بیشی کی کوئی قید نہیں ہے، حسب ضرورت اور حسب توفیق ولیمہ کا کھا نا پکایا جا سکتا ہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
آج خطرناک گرانی کے دور میں درج ذیل حدیث سے بھی کافی آسانی ملتی ہے۔
نیز آگے ایک حدیث بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5168   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5171  
5171. سیدنا ثابت سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا انس ؓ کے سامنے سیدہ زینب بنت حجش ؓ کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو کسی بیوی کا اس قدر ولیمہ کرتے نہیں دیکھا جس قدر آپ نے سیدہ زینب‬ ؓ ک‬ا ولیمہ کیا تھا۔ آپ نے ان کا ولیمہ ایک بکری سے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5171]
حدیث حاشیہ:
یہی خوش نصیب زینب رضی اللہ عنہا ہیں جن کے نکاح کے لئے آسمان سے اللہ پاک نے لفظ زوجناكھا سے بشارت دی اور اللہ نے فرمایا کہ ا ے نبی! زینب کا تم سے نکاح ہم نے خود کر دیا ہے۔
اس سے متبنیٰ کی غلط رسم کا انسداد ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5171   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6386  
6386. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ پر زردی کا نشان دیکھا فرمایا: یہ نشان کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کی ہے۔ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے۔ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6386]
حدیث حاشیہ:
شادی کے موقع پر برکت کی دعا میں اشارہ ہے کہ شادی ہر دو کے لئے باعث برکت ہو۔
روزی رزق آل اولاد دین ایمان سب میں برکت مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6386   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2049  
2049. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ مدینہ طیبہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا۔ حضرت سعد مالدار تھے، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ سے کہا: میں تجھے اپنا مال آدھا آدھا تقسیم کردیتا ہوں، اس کے علاوہ آپ کی شادی کا بھی بندوبست کرتا ہوں۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارےاہل وعیال اور مال واسباب میں برکت فرمائے، مجھے بازار کا راستہ بتاؤ، چنانچہ وہ منڈی سے واپس نہ آئے حتیٰ کہ پنیر اور گھی بطور نفع حاصل کرلیا اور وہ لے کر اپنے گھر والوں کے پاس آئے۔ ہم چند دن ٹھہرے یاجس قدر اللہ کو منظور تھا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ آئے اور ان پر رنگ دار خوشبو لگی ہوئی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے ایک انصاری خاتون سے نکاح کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2049]
حدیث حاشیہ:
حدث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد یہاں اس حدیث کے لانے سے یہ ہے کہ عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں اہل اسلام تجارت کیا کرتے تھے۔
اور ان کا بہترین پیشہ تجارت ہی تھا۔
چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ جو قریشی ہیں ہجرت فرما کر جب مدینہ آئے تو انہوں نے غور و فکر کے بعد اپنے قدیمی پیشہ تجارت ہی کو یہاں بھی اپنایا اور اپنے اسلامی بھائی سعد ؓ بن ربیع کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی پیش کش کی تھی بازار کا راستہ لیا۔
اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آپ نے تیل اور گھی کا کاروبار شروع کیا، اللہ نے آپ کو تھوڑی ہی مدت میں ایسی کشادگی عطا فرمائی کہ آپ نے ایک انصاری عورت سے اپنا عقد بھی کر لیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
یہ شروع دور میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صحبت سے داخل اسلام ہوئے اور دو مربتہ حبش کی طرف ہجرت بھی کی۔
تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔
طویل القامت گورے رنگ والے تھے۔
غزوہ احد میں ان کے بدن پر بیس سے زائد زخم لگے تھے۔
جن کی وجہ سے پیروں میں لنگ پیدا ہو گئی تھی۔
یہ مدینہ میں بہت ہی بڑے مالدار مسلمان تھے اور رئیس التجار کی حیثیت رکھتے تھے۔
ان کی سخاوت کے بھی کتنے ہی واقعات مذکو رہیں۔
72 سال کی عمر میں32ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
انہوں نے مہر میں اپنی بیوی کو نواة من الذهب یعنی سونے کی ایک گٹھلی دی جس کا وزن 5 درہم سے زائد بھی ممکن ہے۔
اس حدیث سے ولیمہ کرنے کی تاکید بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ میں بکرے یا بکری کا ذبیحہ بہتر ہے۔
زرد رنگ شاید کسی عطر کا ہو یا کسی ایسی مخلوط چیز کا جس میں کوئی زرد قسم کی چیز بھی شامل ہو اور آپ نے اس سے غسل وغیرہ کیا ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2049   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3937  
3937. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت سعد ؓ نے ان (حضرت عبدالرحمٰن ؓ) کو پیش کش کی کہ وہ اپنی بیویاں اور اپنا مال انہیں آدھا آدھا تقسیم کر دیتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال اور مال و اسباب میں برکت فرمائے! مجھے بازار کا راستہ بتائیں، چنانچہ انہیں (بازار جانے سے) کچھ پنیر اور گھی کا نفع ہوا۔ نبی ﷺ نے کچھ دنوں بعد حضرت عبدالرحمٰن پر زردی (خوشبو) کے اثرات دیکھے تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کتنا مہر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ولیمہ ضرور کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3937]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے انصار کا ایثار اور مہاجرین کی خود داری روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ وہ کیسے پختہ کار مسلمان تھے۔
اس حدیث سے تجارت کی بھی ترغیب ظاہر ہے۔
اللہ پاک علماء کو خصوصاً توفیق دے کہ وہ اس پر غور کر کے اپنے مستقبل کی فکر کریں۔
اللهم آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3937   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5072  
5072. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمن بن عوف ؓ (مدینہ طیبہ) آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا۔ انصاری کی دو بیویاں تھیں۔ انہوں نے بیویوں میں سے ایک اور مال میں نصف دینے کی انہیں پیش کش کی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہارے اہل و عیال اور مال و متاع میں برکت فرمائے! آپ مجھے بازار کا راستہ بتا دیں، چنانچہ وہ بازار گئے اور وہاں سے کچھ گھی اور کچھ پنیر کی خرید ق فروخت کی اور نفع حاصل کیا۔ نبی ﷺ نے چند دنوں کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کو دیکھا کو ان پر زعفران کی زردی لگی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: عبدالرحمن! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے پوچھا: ا سے مہر میں کیا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ آپ نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5072]
حدیث حاشیہ:
ولیمہ سنت نبوی ہے جو عورت سے ملاپ کے بعد کیا جانا چاہئے مگر افسوس کہ آج کل مسلمانوں نے عام طور پر إلا ماشاءاللہ اسے بھی ترک کر دیا ہے۔
زردی لگنے کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کی خوشبو میں زعفران پڑتا تھا اس وجہ سے وہ رنگ دارہوا کرتی تھی۔
چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مردوں کی خوشبو میں رنگ نہ ہو عورتوں کی خوشبو میں تیز بو نہ ہو۔
اسی لئے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بعد نکاح جب دلہن سے اختلاط کیا تو زوجہ کی تازہ خوشبو کہیں ان کے کپڑے میں لگ گئی۔
یہ نہیں کہ قصداً زعفران لگا یا ہو جس سے مردوں کے حق میں نہیں آئی ہے اور دولہا کو کیسری لباس پہنانے کا دستور جو بعض بت پرست اقوام میں ہے اس کا عرب میں نام و نشان بھی نہ تھا۔
پس یہ وہی زعفرانی رنگ تھا جو دلہن کے کپڑوں سے ان کے کپڑوں میں لگ گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دولہا کو ولیمہ کی دعوت کرنا سنت ہے، مگرصد افسوس کہ بیشتر مسلمانوں سے یہ سنت بھی متروک ہوتی جا رہی ہے اور بیاہ شادی میں قسم قسم کی شرکیہ بدعیہ شکلیں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔
اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری لغزشوں کو معاف کرے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5072   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5148  
5148. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے عوض نکاح کیا۔ نبی ﷺ نے شادی کی خوشی ان میں دیکھی تو ان سے پوچھا: انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے برابر(سونے کے عوض) نکاح کیا ہےسیدنا قتادہ نے سیدنا انس ؓ سے روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک عورت سے گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر نکاح کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5148]
حدیث حاشیہ:
اس میں سونے کی تصریح مذکور ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہر کی کمی بیشی کی کوئی حد نہیں ہے مگر بہتر یہ ہے کہ طاقت ہونے پر مہر دس درہم سے کم اور پانچ سو در ہم سے زیادہ نہ ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور صاحبزادیوں کا یہی مہر تھا۔
(وحیدی)
آج کل لوگ نام و نمود کے لئے ہزاروں کا مہر باندھ دیتے ہیں بعد میں ادائیگی کا نام نہیں لیتے إلا ماشاءاللہ۔
ایسے لوگوں کو چاہئے کہ اتنا ہی مہر بندھوائیں جسے بخوشی ادا کر سکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2049  
2049. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ مدینہ طیبہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا۔ حضرت سعد مالدار تھے، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ سے کہا: میں تجھے اپنا مال آدھا آدھا تقسیم کردیتا ہوں، اس کے علاوہ آپ کی شادی کا بھی بندوبست کرتا ہوں۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارےاہل وعیال اور مال واسباب میں برکت فرمائے، مجھے بازار کا راستہ بتاؤ، چنانچہ وہ منڈی سے واپس نہ آئے حتیٰ کہ پنیر اور گھی بطور نفع حاصل کرلیا اور وہ لے کر اپنے گھر والوں کے پاس آئے۔ ہم چند دن ٹھہرے یاجس قدر اللہ کو منظور تھا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ آئے اور ان پر رنگ دار خوشبو لگی ہوئی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے ایک انصاری خاتون سے نکاح کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2049]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں بعض صحابۂ کرام ؓ پیشۂ تجارت سے منسلک تھے،اس سے خریدوفروخت اور تجارت وغیرہ کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے،نیز شریف آدمی کو تجارت کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
اس سے اخلاق کی پاکیزگی ہوتی ہے بشرطیکہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے اسے اختیار کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پیشے میں بہت خیرو برکت رکھی ہے جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ وغیرہ سے مال حاصل کرنا صحابۂ کرام ؓ کا مطمح نظر نہ تھا بلکہ انھوں نے اسے نطر انداز کر کے تجارت کو ذریعۂ معاش بنایا۔
امام بخاری ؒ نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2049   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3937  
3937. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت سعد ؓ نے ان (حضرت عبدالرحمٰن ؓ) کو پیش کش کی کہ وہ اپنی بیویاں اور اپنا مال انہیں آدھا آدھا تقسیم کر دیتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال اور مال و اسباب میں برکت فرمائے! مجھے بازار کا راستہ بتائیں، چنانچہ انہیں (بازار جانے سے) کچھ پنیر اور گھی کا نفع ہوا۔ نبی ﷺ نے کچھ دنوں بعد حضرت عبدالرحمٰن پر زردی (خوشبو) کے اثرات دیکھے تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کتنا مہر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ولیمہ ضرور کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3937]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے انصار کا ایثار اور مہاجرین کی خودداری روز روشن کی طرح واضح ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓنے کہا:
میری دوبیویاں ہیں۔
آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزارنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار نے بہت بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور بے انتہا ایثار وقربانی سے کام لیا تھا لیکن مہاجرین نے ان کی نوازشات سے کوئی غلط فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا حاصل کیا جس سے وہ اپنی کمزور معیشت کی کمر سیدھی کرسکتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کےباغات تقسیم کردیں۔
آپ نےفرمایا:
نہیں۔
انصار نے اپنے بھائیوں سے کہا:
آپ باغات میں محنت کیا کریں،ہم پیداوار میں آپ کو شریک رکھیں گے۔
انھوں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔
ہم اس پیش کش کوقبول کرتے ہیں۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3782۔
)


بہرحال ر سول اللہ ﷺ نے اس مؤاخات کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قراردیا جوخون اورمال سے مربوط تھا۔
اس بھائی چارے میں ایثار وہمدردی کے ملے جلے جذبات تھے، اس لیے سلسلہ مؤاخات نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3937   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5072  
5072. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمن بن عوف ؓ (مدینہ طیبہ) آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا۔ انصاری کی دو بیویاں تھیں۔ انہوں نے بیویوں میں سے ایک اور مال میں نصف دینے کی انہیں پیش کش کی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہارے اہل و عیال اور مال و متاع میں برکت فرمائے! آپ مجھے بازار کا راستہ بتا دیں، چنانچہ وہ بازار گئے اور وہاں سے کچھ گھی اور کچھ پنیر کی خرید ق فروخت کی اور نفع حاصل کیا۔ نبی ﷺ نے چند دنوں کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کو دیکھا کو ان پر زعفران کی زردی لگی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: عبدالرحمن! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے پوچھا: ا سے مہر میں کیا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ آپ نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5072]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ انصار میں کس قدر ایثار وہمدردی کے جذبات تھے! انھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی بیویوں تک کی پیش کش کر دی کہ جو بیوی تمھیں پسند ہو میں اسے طلاق دیتا ہوں، عدت ختم ہونے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں۔
لیکن مہاجرین کی خود داری اور عزت نفس بھی قابل تعریف ہے کہ انھوں نے اس پیش کش کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ بازار کا راستہ اختیار کیا تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو زردی لگنے کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کی خوشبو میں زعفران ہوتا تھا، اس بنا پر عورتوں کی خوشبو رنگدار ہوتی تھی۔
بیوی کے اختلاط سے تازہ خوشبو ان کے کپڑوں کو لگ گئی، انھوں نے جان بوجھ کر زعفرانی رنگ استعمال نہیں کیا تھا۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5072   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5148  
5148. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے عوض نکاح کیا۔ نبی ﷺ نے شادی کی خوشی ان میں دیکھی تو ان سے پوچھا: انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے برابر(سونے کے عوض) نکاح کیا ہےسیدنا قتادہ نے سیدنا انس ؓ سے روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک عورت سے گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر نکاح کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5148]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں کھجور کی گٹھلی کے برابر سونے کے حق مہر ہونے کا ذکر ہے لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ گٹھلی کتنی مقدار کی تھی، نیز بڑی تھی یا چھوٹی تھی اور اس کا وزن کتنا تھا۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وضاحت سن کر خاموشی اختیار کی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق مہر کی مقدار معین نہیں ہے، فریقین جس پر اتفاق کرلیں اور راضی ہو جائیں وہ مہر سمجھا جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مقصود ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ آج کل محض نام و نمود کی خاطر ہزاروں حق مہر باندھ لیتے ہیں، بعد میں اس کی ادائیگی کا نام تک نہیں لیتے۔
بیوی بے چاری رواداری میں خاموش رہتی ہے۔
ایسے حضرات کو چاہیے کہ وہ اتنا ہی حق مہر رکھیں جسے آسانی اور خوشی کے ساتھ ادا کرسکیں۔
اس سلسلے میں انانیت اور جھوٹی عزت نفس کو نظر انداز کریں۔
(3)
واضح رہے کہ حق مہر لڑکی کا حق ہے۔
اگر وہ کسی دباؤ کے بغیر اپنی رضا و رغبت سے تمام یا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اس کی فیاضی اور دریا دلی ہے، بصورت دیگر سارا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5153  
5153. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ رسول للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے پوچھا: اسے حق مہر کتنا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولیمہ ضرور کرو، ایک بکری ہی ذبح کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5153]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاري رحمہ اللہ نے دلھے کے لیے زرد رنگ کا جواز ثابت کیا ہے۔
دراصل انھوں نے اس انداز کی دو مختلف احادیث کے درمیان تطبیق دی ہے:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لیے زعفرانی رنگ ممنوع قرار دیا ہے۔
ان کے درمیان تطبیق اس طرح ہے کہ اس امتناعی حکم سے دلھا مستثنیٰ ہے۔
اس کے لیے اس رنگ کے استعمال کی رخصت معلوم ہوتی ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 276/9) (2)
نيز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد گرامي ہے:
مردوں کی خوشبو کا رنگ مخفی اور مہک نمایاں اور عورتوں کی خوشبو کی مہک مخفی اوررنگ نمایاں ہوتا ہے۔
(سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5120)
جس کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اس کے لیے رنگ دار خوشبو کے استعمال کی اجازت ہے تاکہ نکاح کا اعلان ہو جو شریعت کا مقصود ہے۔
اس امر کا اشارہ ایک دوسری حدیث سے بھی ملتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کو رنگین خوشبو لگی دیکھی تو آپ نے فرمایا:
کیا تیری بیوی ہے؟ اس نے کہا:
نہیں،ت و آپ نے فرمایا:
اسے دھو ڈالو اورآئندہ ایسا نہ کرنا۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دھو ڈالا اور آئندہ نہ لگانے کا عزم کر لیا۔
(سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5121)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5153   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5155  
5155. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے گٹھلی کی مقدار سونے کے عوض نکاح کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5155]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں دلھے کو رفاء اور بنین کے الفاظ سے دعا دی جاتی تھی جس کے معنی ہیں کہ تمہارے اندر اتفاق رہے اور تمہیں نرینہ اولاد ملے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے بجائے بارك الله لك......کے الفاظ سے دعا سکھائی ہے۔
چونکہ دور جاہلیت کی دعا میں اللہ کا نام نہیں تھا اور اس میں لڑکیوں سے بغض کی بو آتی تھی، اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلہے کے لیے اللہ کی طرف سے خیر و برکت کی دعا سکھائی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلہے کو ان الفاظ میں دعا دیتے (بَارَكَ اللهُ لكَ و بَاركَ عليكَ، و جَمَعَ بينَكُمَا في خير)
(جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1091) (2)
ایک دفعہ قاضی شریح کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آتے ہی اپنی شادی کی اطلاع دی تو انھوں نے بالرفاء و البنين کے الفاظ سے مبارک دی۔
ممکن ہے کہ قاضی شریح کو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی کا علم نہ ہوا ہو۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اس قدر جامعیت ہے کہ اس میں دنیا اور آخرت سے متعلق ہر قسم کی بھلائی آجاتی ہے۔
والله اعلم، (فتح الباري: 277/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5155   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5167  
5167. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا: جب انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی: تم نے اسے کتنا مہر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: گٹھلی کی مقدار سونا (بطور مہر دیا ہے)، ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا انس ؓ نے کہا: جب لوگ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آئے تو مہاجرین نے انصار کے ہاں قیام کیا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے سیدنا سعد بن ربیع ؓ کے گھر رہائش اختیار کی۔ سیدنا سعد ؓ نے ان سے کہا کہ میں آپ کو آدھا مال دیتا ہوں اور آپ کے لیے اپنی ایک بیوی سے دستبردار ہو جاتا ہوں۔ سیدنا عبدالرحمن ؓ نے ان كو برکت كى دعا دى، پھر وہ بازار گئے اور خرید و فروخت کرنے لگے، انہوں نے وہاں سے پینیر اور گھی نفع میں کمایا۔ اس کے بعد انہوں نے شادی کی تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: دعوت ولیمہ کا اہتمام کرو، خواہ ایک بکری ہی سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5167]
حدیث حاشیہ:
(1)
دعوت ولیمہ میں افضل یہ ہے کہ گوشت کا اہتمام کیا جائے اور وہ بھی چھوٹا، یعنی بکری وغیرہ کا ہونا چاہیے لیکن ولیمے کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے۔
(2)
اس سلسلے میں درج ذیل امور کو پیش نظر رکھا جائے:
٭دعوت ولیمہ کا حسب توفیق اہتمام کرنا چاہیے، اس سلسلے میں قرض لینے سے اجتناب کرے۔
٭نمود و نمائش سے دور رہے کیونکہ ریا کاری سےنیکی، گناہ میں بدل جاتی ہے۔
٭فضول خرچی اور اسراف سے بھی کنارہ کش رہے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔
٭دعوت ولیمہ میں غرباء و مساکین کو نظراندازنہ کیا جائے بصورت دیگر یہ بد ترین کھانا شمار ہوگا۔
٭دعوت ولیمہ میں فواحش و منکرات کے اہتمام سے بچنا بھی ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5167   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5168  
5168. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے سیدہ زینب جیسا ولیمہ اپنی بیویوں میں سے کسی کا نہیں کیا۔ ان کا ولیمہ آپ نے ایک بکری ذبح کر کے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5168]
حدیث حاشیہ:
(1)
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر ہی کر دیا تھا، اس بنا پر اس نکاح کی آپ کو بہت زیادہ خوشی تھی۔
ولیمے کا اہتمام بھی فراخ دلی سے فرمایا۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے گوشت اور روٹی خوب پیٹ بھر کر کھائی۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی شیرینی کے طور پر حلوہ تیار کیا اور آپ کو بطور تحفہ پیش کیا۔
آپ نے وہ بھی مہمانوں کو کھلایا۔
(2)
ولیمے میں کمی بیشی کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
آج خطرناک گرانی کے دور میں ہمیں کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے، ریا کاری اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5168   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5171  
5171. سیدنا ثابت سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا انس ؓ کے سامنے سیدہ زینب بنت حجش ؓ کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو کسی بیوی کا اس قدر ولیمہ کرتے نہیں دیکھا جس قدر آپ نے سیدہ زینب‬ ؓ ک‬ا ولیمہ کیا تھا۔ آپ نے ان کا ولیمہ ایک بکری سے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5171]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت زینب رضی اللہ عنہما کے نکاح میں ولیمہ زیادہ کرنے میں راز یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا کیا کہ اس نے بذریعۂ وحی آپ کا نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہما سے کر دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے نبی! ہم نے اس (زینب رضی اللہ عنہا)
کا نکاح آپ سے کر دیا ہے۔
(الأحزاب: 37) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرۂ قضا کے موقع پر جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کے ولیمے میں کئی بکریاں ذبح کیں۔
شاید حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے ولیمے میں حاضر نہ تھے۔
اس لیے انھوں نے اپنے علم کے مطابق بیان کیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ولیمہ سب سے زیادہ تھا۔
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے فتح خیبر کے بعد نکاح کیا تھا، اس وقت فتح خیبر کے باعث وسعت زیادہ ہو گئی تھی، اس بنا پر یہ ولیمہ دوسروں کی نسبت زیادہ تھا۔
(فتح الباري: 296/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5171   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6082  
6082. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمارے پاس مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ نبی ﷺ نے (حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے) فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6082]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ بھائی چارے کے نتیجے میں انصار کی طرف سے جو ہمدردی اور ایثار کا مظاہرہ ہوا، اس کی مثال اقوام عالم میں نہیں چلتی، چنانچہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نصف جائیداد دینے کی پیش کش کی بلکہ ان کی دو بیویاں تھیں، انہوں نے مزید کہا:
تم کسی ایک بیوی کو پسند کر لو میں اسے طلاق دے کر فارغ کر دیتا ہوں تاکہ تم اس سے نکاح کر لو، لیکن انہوں نے ان کی پیش کش سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ ان سے بازار کا راستہ پوچھا، محنت و مزدوری کر کے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پالا، بالآخر ان کی شادی ایک انصاری عورت سے ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ذبح کرو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے سلسلۂ مؤاخات کو ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6082