Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب النكاح
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
47. بَابُ : الْجَمْعِ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا
باب: بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3293
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ أَرْبَعِ: نِسْوَةٍ يُجْمَعُ بَيْنَهُنَّ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، وَالْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عورتوں کو نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، عورت اور اس کی پھوپھی کو، عورت اور اس کی خالہ کو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی بھتیجی اور اس کی پھوپھی کو، بھانجی اور اس کی خالہ کو نکاح میں جمع نہیں کیا جا سکتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3293 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3293  
اردو حاشہ:
چارعورتیں ظاہر الفاظ سے غلط فہمی ہوسکتی ہے کیونکہ نکاح دو سے بھی بیک وقت حرام ہے جیسا کہ پیچھے تفصیل گزری، مگر چونکہ ا س کی دوصورتیں ہیں، اس لیے جمع کرکے چار کہہ دیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3293   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 354  
´بیوی اور اس کی خالہ یا پھوپھی کو ایک نکاح میں رکھنے کی ممانعت`
«. . . 352- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يجمع بين المرأة وعمتها، ولا بين المرأة وخالتها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوی اور اس کی پھوپھی کو (ایک نکاح میں) جمع نہ کیا جائے اور بیوی اور اس کی خالہ کو (ایک نکا ح میں) جمع نہ کیا جائے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 354]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5109، ومسلم 33/1408، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جس طرح بیک وقت ایک نکاح میں دو بہنوں کو اکٹھا رکھنا حرام ہے اسی طرح بیک وقت بھانجی اور اس کی خالہ یا بھتیجی اور اس کی پھوپھی سے نکاح حرام ہے۔
➋ حدیث قرآن کی شرح، بیان اور تفسیر ہے۔
➌ خاص عام پر مقدم ہوتا ہے۔
➍ دین اسلام میں عام انسانوں کے لئے خیر خواہی اور امن کا پیغام ہے۔
➎ یہ کہنا کہ ہر مسئلے کا ثبوت قرآن مجید سے پیش کرو، باطل اور مردود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 352   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3290  
´بیوی اور اس کی پھوپھی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نکاح میں) عورت اور اس کی پھوپھی کو نہ جمع کیا جائے گا، اور نہ ہی عورت اور اس کی خالہ کو اکٹھا کیا جائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3290]
اردو حاشہ:
بھتیجی، پھوپھی اور بھانجی، خالہ انتہائی قریبی رشتے ہیں۔ ایسے قریبی رشتوں کو سوکناپے میں بدلنا ظلم عظیم ہے جبکہ یہ رشتے انتہائی محبت اور خلوص کے متقاضی ہیں‘ لہٰذا انہیں بھی دوبہنوں والا حکم دیا گیا ہے کیونکہ دوبہنوں سے بیک وقت نکاح بھی اسی بنا پر حرام ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان سے بھی یکے بعد دیگرے نکاح جائز ہے جیسا کہ دو بہنوں سے جائز ہے۔ بیک وقت نکاح کرنا منع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3290   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3298  
´عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں، اور پھوپھی سے اس کی بھتیجی کی موجودگی میں شادی کی جائے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3298]
اردو حاشہ:
مقصود یہ ہے کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بیک وقت حرام ہے‘ خواہ پہلے پھوپھی سے نکاح کیا گیا ہو یا بھتیجی سے۔ خالہ اور بھانجی کا حکم بھی یہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3298   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2065  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھوپھی کے نکاح میں رہتے ہوئے بھتیجی سے نکاح نہیں کیا جا سکتا، اور نہ بھتیجی کے نکاح میں رہتے ہوئے پھوپھی سے نکاح درست ہے، اسی طرح خالہ کے نکاح میں رہتے ہوئے بھانجی سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی بھانجی کے نکاح میں رہتے ہوئے خالہ سے نکاح درست ہے، غرض یہ کہ چھوٹی کے رہتے ہوئے بڑی سے اور بڑی کے رہتے ہوئے چھوٹی سے نکاح جائز نہیں ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2065]
فوائد ومسائل:
ایک وقت میں پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی (یا ان کے برعکس) کو جمع کرنا حرام ہے اور یہ حرمت موقت (عارضی) ہے، ابدی نہیں۔
مختلف اوقات میں بعد ازطلاق یا وفات نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں اور آخری جملہ میں بڑی عورت سے مراد یا تو عمر میں بڑی ہے جو کہ عرفًا ماں، خالہ اور پھوپھی وغیرہ کا احترام پاتی ہے جبکہ چھوٹی لڑکی بیٹی کی طرح سمجھی جاتی ہے۔
یعنی ان سے نکاح نہیں ہو سکتا۔
یا رتبے کا فرق مراد ہے، پھوپھی اور خالہ بڑی ہوتی ہیں جب کہ بھتیجی اور بھانجی بالعموم چھوٹی ہوتی ہیں۔
اس صورت میں یہ پہلی بات کی بہ انداز دیگر تاکید ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2065   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1126  
´پھوپھی کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بھتیجی سے نکاح کرنے اور خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بھانجی سے نکاح کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ عورت سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی پھوپھی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کیا جائے جبکہ اس کی بھتیجی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا بھانجی سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو یا خالہ سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی بھانجی پہلے سے نکاح میں ہو۔ اور نہ نکاح کیا جائے کسی چھوٹی سے جب کہ اس کی بڑی نکاح میں ہو اور نہ بڑی سے نکاح کیا جائے جب کہ چھوٹی نکاح میں ہو ۱؎۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1126]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی خالہ پھوپھی نکاح میں ہوتو اس کی بھانجی یا بھتیجی سے اور بھانجی یا بھتیجی نکاح میں ہوتواس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح نہ کیاجائے،
ہاں اگرایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدے تودوسری سے شادی کرسکتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1126   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1056  
1056- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: مصنوعی بولی: نہ لگاؤ۔ کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجے۔ شہری شخص دیہاتی کے لیے سودا نہ کرے۔ عورت اپنی بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے حصے کی نعمتیں بھی اسے حاصل ہو جائیں۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1056]
فائدہ:
اس حدیث میں بیع کے بعض مسائل کا ذکر ہے:
① بولی میں قیمت زیادہ کرنے کی دو صورتیں ہیں، پہلی صورت یہ ہے کہ جب اس میں دھوکا نہ ہو تب جائز ہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اس میں دھوکا مقصود ہو تب ناجائز ہے۔
② بیع پر بیع اور منگنی پرمنگنی کر نا منع ہے، اگر ایک کے ساتھ بیع یا منگنی پکی ہو جائے تو بلا وجہ اس کو تو ڑ نا درست نہیں ہے، اسی طرح اگر بات پکی ہو جائے تو دوسرے کا بیع کرنا اور دوسرے کا منگنی کا پیغام بھیجنا بھی درست نہیں ہے۔
③ شہری دیہاتی سے صرف اس صورت میں بیع کر سکتا ہے جس میں دھوکا نہ ہو، اگر دھوکا ہو تو نا جائز ہے۔
④ آباد گھر کو بے آباد کرنا اور حسد کی آڑ میں اپنی مسلمان بہن کو اجاڑ نے کی غرض سے اس کو طلاق دلوانا درست نہیں ہے، یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ خواتین اکثر جہنم میں جائیں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین کے خلاف کام کرنے میں نڈر ہوتی ہیں، اور شیطان کی آلہ کار بنتی ہیں، بس اللہ تعالیٰ خواتین کو دین اسلام کا پابند بنائے، آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1055   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1058  
1058- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ا رشاد فرمائی ہے: اونٹوں اور بکریوں کو فروخت کرنے کے لیے ان کا تصریہ (تھنوں میں دودھ جمع) نہ کرو۔ تم میں سے جو شخص اس طرح کا کوئی جانور خریدے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہوگا، اگر وہ چاہے، تو اسے اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے، تو اسے واپس کردے اور اسے ساتھ کھجور کا ایک صاع دے، گندم نہ دے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1058]
فائدہ:
بعض لوگ جانور کو فروخت کرنے سے پہلے اس کا دودھ روک لیتے ہیں اور اس سے گا ہک کو دھوکا دینا مقصود ہوتا ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔ اگر اس صورت میں کوئی جانور فروخت ہو جائے تو خریدنے والے کو اختیار ہے کہ اگر رکھنا چاہے تو رکھ لے، اور اگر وہ واپس کرنا چاہے تو واپس کر دے لیکن جانور کو واپس کرنے کے ساتھ ایک صاع (اڑھائی کلو) کھجور بھی ساتھ دے۔ یہی مسئلہ حق ہے، اور رہے ہمارے بعض بھائی کہ انہوں نے ایک جانور واپس کرنے کے ساتھ ایک صاع کھجور دینے سے صرف تقلید کی بنیاد پر انکار کیا ہے، تو ان کی شیخ الاسلام علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’اعلام الموقعین میں خوب خبر لی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1058