صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
35. بَابُ إِذَا هَدَمَ حَائِطًا فَلْيَبْنِ مِثْلَهُ:
باب: اگر کسی نے کسی کی دیوار گرا دی تو اسے ویسی ہی بنوانی ہو گی۔
حدیث نمبر: 2482
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ رَجُلٌ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُقَالُ لَهُ جُرَيْجٌ يُصَلِّي، فَجَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ، فَأَبَى أَنْ يُجِيبَهَا، فَقَالَ: أُجِيبُهَا أَوْ أُصَلِّي، ثُمَّ أَتَتْهُ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ وُجُوهَ الْمُومِسَاتِ، وَكَانَ جُرَيْجٌ فِي صَوْمَعَتِهِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: لَأَفْتِنَنَّ جُرَيْجًا، فَتَعَرَّضَتْ لَهُ فَكَلَّمَتْهُ، فَأَبَى، فَأَتَتْ رَاعِيًا، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا، فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ: هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ، فَأَتَوْهُ وَكَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ فَأَنْزَلُوهُ وَسَبُّوهُ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى، ثُمَّ أَتَى الْغُلَامَ، فَقَالَ: مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ؟ قَالَ: الرَّاعِي، قَالُوا: نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: لَا، إِلَّا مِنْ طِينٍ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور (غصے میں) بددعا کر گئیں، اے اللہ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے (جو جریج کے عبادت خانے کے پاس اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا۔ بچے! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا! (قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھر تو مٹی ہی سے بنے گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2482 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2482
حدیث حاشیہ:
حدیث جریج حضرت امام بخاری ؒ کئی جگہ لائے ہیں۔
اور اس سے مختلف مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
یہاں آپ یہ ثابت فرمانے کے لیے یہ حدیث لائے کہ جب کوئی شخص یا اشخاص کسی کی دیوار ناحق گراد یں تو ان کو وہ دیوار پہلی ہی دیوار کے مثل بنانی لازم ہوگی۔
جریج کا واقعہ مشہور ہے۔
ان کے دین میں ماں کی بات کا جواب دینا بحالت نماز بھی ضروری تھا۔
مگر حضرت جریج نماز میں مشغول رہے، حتی کہ ان کی والدہ نے خفا ہو کر ان کے حق میں بددعا کر دی، آخر ان کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اللہ پاک نے اسی ولد الزنا بچے کو گویائی دے۔
حالانکہ اس کے بولنے کی عمر نہ تھی۔
مگر اللہ نے حضرت جریج کی دعا قبول کی اور اس بچے کو بولنے کی طاقت بخشی۔
قسطلانی نے کہا کہ اللہ نے چھ بچوں کو کم سنی میں بولنے کی قوت عطا فرمائی۔
ان میں حضرت یوسف ؑ کی پاکدامنی کی گواہی دینے والا بچہ اور فرعون کی بیٹی کی مغلانی کا لڑکا اور حضرت عیسیٰ ؑ اور صاحب جریج اور صاحب اخدود اور بنی اسرائیل کی ایک عورت کا بیٹا جس کو وہ دوھ پلا رہی تھی۔
اچانک ایک شخص جاہ وحشم کے ساتھ گزرا اور عور ت نے بچے کے لیے دعا کی کہ اللہ میرے بچے کو بھی ایسی قسمت والا بنائیو۔
اس شیر خوار بچے نے فوراً کہا کہ الٰہی! مجھے ایسا نہ بناؤ۔
کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ؑ نے بھی کم سنی میں باتیں کی ہیں۔
تو کل سات بچے ہوں گے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ حضرت جریج نے اپنا گھر مٹی ہی کی پہلی حالت کے مطابق بنوانے کا حکم دیا۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ ماں کی دعا اپنی اولاد کے لیے ضرور قبول ہوتی ہے۔
ماں کا حق باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔
جو لڑکے لڑکی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں بھی خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی نجات پاتے ہیں اور ماں کو ناراض کرنے والے ہمیشہ دکھ اٹھاتے ہیں۔
تجربہ اور مشاہدہ سے اس کا بہت کچھ ثبوت موجود ہے۔
جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ماں کے بعد باپ کا درجہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
اسی لیے قرآن مجید میں عبادت الٰہی کے لیے حکم صادر فرمانے کے بعد ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (البقرة: 83)
کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔
کہ اللہ کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو، یہاں تک کہ ﴿فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23)
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ (بني إسرائیل: 24)
یعنی ماں باپ زندہ موجود ہوں تو ان کے سامنے اف بھی نہ کرو اور نہ انہیں ڈانٹو ڈپٹو بلکہ ان سے نرم نرم میٹھی میٹھی باتیں جو رحم و کرم سے بھر پور ہوں کیا کرو اور ان کے لیے رحم و کرم والے بازو بچھا دیا کرو وہ بازو جو ان کے احترام کے لیے عاجزی انکساری کے لیے ہوئے ہوں اوران کے حق میں یوں دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر اسی طرح رحم فرمائیو جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھ کو اپنے رحم و کرم سے پروان چڑھایا۔
ماں باپ کی خدمت، اطاعت، فرمانبردرای کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن کا نقل کرنا طوالت ہے۔
خلاصہ یہی ہے کہ اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی نیک دعائیں ہمیشہ حاصل کرے۔
حضرت جریج کے واقعہ میں اور بھی بہت سی عبرتیں ہیں۔
سمجھنے کے لیے نور بصیرت درکار ہے، اللہ والے دنیا کے جھمیلوں سے دور رہ کر شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہنے والے بھی ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے جھمیلوں میں رہ کربھی یاد خدا سے غافل نہیں ہوتے۔
نیز جب بھی کوئی حادثہ سامنے آئے صبر و استقلال کے ساتھ اسے برداشت کرتے اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔
ہماری شریعت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز کی نیت باندھے ہوئے ہو اور حضرت رسول کریم ﷺ اسے پکار دیں تو وہ نماز توڑ کر خدمت میں حاضری دے۔
آج کل اولاد کے لیے یہی حکم ہے نیز بیوی کے لیے بھی کہ وہ خاوند کی اطاعت کو نفل نمازوں پر مقدم جانے۔
و باللہ التوفیق
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2482
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2482
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کی ناحق دیوار گرا دے تو اسے پہلی دیوار کی طرح بنا کر دینی چاہیے جبکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ دیوار گرانے والے کو قیمت ادا کرنا ہو گی۔
استدلال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ پہلی امتوں کے احکام ہمارے لیے مشروع ہیں بشرطیکہ ہماری شریعت میں ان کے خلاف کوئی حکم نہ ہو۔
چونکہ لوگوں نے حضرت جریج سے کہا تھا کہ ہم تمہارا عبادت خانہ ایسا بنا دیتے ہیں۔
اس سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر گرانے والا اس کے اعادے کا التزام کرے اور اس کا مالک راضی ہو جائے تو بالاتفاق ایسا کرنا جائز ہے۔
اکثر محدثین کا یہی موقف ہے کہ جس نے کسی کی دیوار گرائی تو اس جیسی دوبارہ بنا دے۔
اگر اس جیسی بنانا ممکن نہ ہو تو پھر قیمت ادا کر دی جائے۔
(2)
اس حدیث سے والدہ کے حقوق کا پتہ چلتا ہے۔
ماں کا حقِ خدمت باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 5971)
جو لوگ اپنی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔
ماں کو ناراض کرنے والے دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔
مشاہدے سے بھی اس حقیقت کو ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2482
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6509
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"پنگھوڑے میں صرف تین افراد نے گفتگو کی ہے، ایک عیسیٰ ؑ دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6509]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يتمثل بحسنها:
اس کا حسن و جمال ضرب المثل تھا۔
(2)
دابة فارهة:
چاک و چوبند اور تیز رفتار جانور۔
(3)
شارة:
اچھی شکل و صورت اور عمدہ لباس والا۔
(4)
لاتجعلني مثله:
مجھے اس جیسا نہ بنانا،
بچہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو نمایاں کیا کہ محض کسی کے ظاہر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے،
اس کے باطن اور اصلیت کو بھی جاننے کی کوشش کرنا چاہیے،
گھوڑ سوار انسان بظاہر اچھی شکل و صورت والا اور مالدار تھا،
اس لیے ماں نے،
بیٹے کے لیے اس جیسا بنانے کی دعا کی،
حالانکہ وہ درحقیقت بہت خود پسند اور جابر و سرکش تھا اور لونڈی جس کو لوگ لعن طعن کر کے مار پیٹ رہے تھے اور ماں نے اسی وجہ سے اس جیسا نہ بنانے کی دعا کی تھی،
درحقیقت ایک نیک اور پارسا عورت تھی،
اس لیے بچے نے،
اس کی نیکی اور پارسائی کی خواہش کی،
کیونکہ تشبیہ میں کسی ایک صفت میں تشبیہ مقصود ہوتی ہے،
ہر حیثیت میں مشابہت نہیں ہوتی کہ یہ کہا جا سکے،
بچے نے یہ خواہش کی،
مجھے بھی مار پیٹ سے دوچار ہونا پڑے اور مجھ پر بھی الزامات لگیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6509
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6509
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"پنگھوڑے میں صرف تین افراد نے گفتگو کی ہے، ایک عیسیٰ ؑ دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6509]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يتمثل بحسنها:
اس کا حسن و جمال ضرب المثل تھا۔
(2)
دابة فارهة:
چاک و چوبند اور تیز رفتار جانور۔
(3)
شارة:
اچھی شکل و صورت اور عمدہ لباس والا۔
(4)
لاتجعلني مثله:
مجھے اس جیسا نہ بنانا،
بچہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو نمایاں کیا کہ محض کسی کے ظاہر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے،
اس کے باطن اور اصلیت کو بھی جاننے کی کوشش کرنا چاہیے،
گھوڑ سوار انسان بظاہر اچھی شکل و صورت والا اور مالدار تھا،
اس لیے ماں نے،
بیٹے کے لیے اس جیسا بنانے کی دعا کی،
حالانکہ وہ درحقیقت بہت خود پسند اور جابر و سرکش تھا اور لونڈی جس کو لوگ لعن طعن کر کے مار پیٹ رہے تھے اور ماں نے اسی وجہ سے اس جیسا نہ بنانے کی دعا کی تھی،
درحقیقت ایک نیک اور پارسا عورت تھی،
اس لیے بچے نے،
اس کی نیکی اور پارسائی کی خواہش کی،
کیونکہ تشبیہ میں کسی ایک صفت میں تشبیہ مقصود ہوتی ہے،
ہر حیثیت میں مشابہت نہیں ہوتی کہ یہ کہا جا سکے،
بچے نے یہ خواہش کی،
مجھے بھی مار پیٹ سے دوچار ہونا پڑے اور مجھ پر بھی الزامات لگیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6509
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3436
3436. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”صرف تین بچوں نے گہوارے (پنگوارے، جھولے) میں گفتگو کی ہے: حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ دوسرے بنی اسرائیل میں جریج نامی ایک شخص تھا، وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اس نے اسے بلایا۔ جریج نے (دل میں) سوچا کہ نماز پڑھوں یا والدہ کو جواب دوں (آخر اس نے جواب نہ دیا) اس کی والدہ نے بددعا دی اور کہا: اے اللہ! یہ اس وقت تک نہ مرے تا آنکہ تو اسے زنا کارعورتوں کی صورت دکھائے۔ پھر ایسا ہوا کہ جریج اپنے عبادت خانے میں تھا، ایک فاحشہ عورت آئی اور اس نے بدکاری کے متعلق گفتگو کی لیکن جریج نے انکار کردیا۔ پھر وہ ایک چرواہا ہےکے پاس گئی تو اس سے منہ کالا کیا۔ آخر اس نے ایک بچہ جنم دیا اور یہ کہہ دیاکہ بچہ جریج کا ہے، چنانچہ لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کے عبادت خانے کو توڑ پھوڑ دیا، اسے نیچے اتارا اور خوب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3436]
حدیث حاشیہ:
وہ پاک دامن خدا کی نیک بندی تھی۔
ان تینوں بچوں کےکلام کرنے کا تعلق صرف بنی اسرائیل سےہے۔
ان کےعلاوہ بعض دوسرے بچوں نےبھی بچپن میں کلام کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3436
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3436
3436. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”صرف تین بچوں نے گہوارے (پنگوارے، جھولے) میں گفتگو کی ہے: حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ دوسرے بنی اسرائیل میں جریج نامی ایک شخص تھا، وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اس نے اسے بلایا۔ جریج نے (دل میں) سوچا کہ نماز پڑھوں یا والدہ کو جواب دوں (آخر اس نے جواب نہ دیا) اس کی والدہ نے بددعا دی اور کہا: اے اللہ! یہ اس وقت تک نہ مرے تا آنکہ تو اسے زنا کارعورتوں کی صورت دکھائے۔ پھر ایسا ہوا کہ جریج اپنے عبادت خانے میں تھا، ایک فاحشہ عورت آئی اور اس نے بدکاری کے متعلق گفتگو کی لیکن جریج نے انکار کردیا۔ پھر وہ ایک چرواہا ہےکے پاس گئی تو اس سے منہ کالا کیا۔ آخر اس نے ایک بچہ جنم دیا اور یہ کہہ دیاکہ بچہ جریج کا ہے، چنانچہ لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کے عبادت خانے کو توڑ پھوڑ دیا، اسے نیچے اتارا اور خوب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3436]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث جریج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت میں عظمت ہے اور بچوں کے حق میں اس کی دعا قبول ہوتی ہے اس کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے،نیز وہ لونڈی جسے بلاوجہ ماراپیٹا جارہاتھا وہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی۔
2۔
ان تین بچوں کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں بچوں کی گفتگو کاذکر ہے، مثلاً:
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ گہوارے میں اس بچے نے بھی گفتگو کی تھی جس کی ماں کو "اصحاب الاخدود" آگ کے آلاؤ میں ڈالنے لگے تو وہ کچھ سہم گئی۔
اس وقت شیر خوار بچے نے کہا:
اے میری ماں! صبر کر تو حق پر ہے۔
"(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث: 7511(3005)
3۔
ممکن ہے کہ گہوارے میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہو اور باقی بچوں نے گہوارے کے علاوہ باتیں کی ہوں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ تین بچوں کے کلام کرنے کاتعلق صرف بنی اسرائیل سے ہو اور باقی بچے غیر بنی اسرائیل سے ہوں۔
امام بخاری ؒ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات سے آگاہی کے لیے اسے بیان کیا ہے۔
قرآن کریم میں بھی اس کی صراحت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”پھر وہ(مریم)
بچے کو اٹھائے اپنی قوم میں لے آئیں تو وہ کہنے لگے:
اے مریم ؑ! یقیناً تو نے بہت بُرا کام کیا ہے۔
اےہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔
مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا۔
وہ کہنے لگے:
ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے۔
وہ(بچہ)
بول اٹھا:
بے شک میں اللہ کابندہ ہوں۔
اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔
“ (مریم: 27-
30)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3436