أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنِ الْحَارِثِ بن عبد الرحمن , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَنَّهُمَا سَأَلَا فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، عَنْ أَمْرِهَا؟ فَقَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَكَانَ يَرْزُقُنِي طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ كَانَتْ لِي النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لَأَطْلُبَنَّهَا وَلَا أَقْبَلُ هَذَا فَقَالَ الْوَكِيلُ: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ، فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ، قَالَتْ: وَكَانَ يَأْتِيهَا أَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ أَعْمَى، فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ آذَنْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَنْ خَطَبَكِ؟" فَقُلْتُ: مُعَاوِيَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَإِنَّهُ غُلَامٌ مِنْ غِلْمَانِ قُرَيْشٍ لَا شَيْءَ لَهُ وَأَمَّا الْآخَرُ، فَإِنَّهُ صَاحِبُ شَرٍّ لَا خَيْرَ فِيهِ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ"، قَالَتْ: فَكَرِهْتُهُ، فَقَالَ لَهَا ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَنَكَحَتْهُ.
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3224
´غلام کی آزاد عورت سے شادی کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ مروان کے دور حکومت میں ایک نوجوان شخص عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی (جن کی ماں بنت قیس ہیں) کو طلاق بتہ دے دی ۱؎، تو اس کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہو جاؤ، یہ بات مروان نے سنی (کہ سعید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو کے گھر سے چلی گئی ہے)۔ تو اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم اپنے اس گھر کو واپس چلی جاؤ (جہاں سے نکل کر آئی ہو) اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3224]
اردو حاشہ:
1) ”بتہ طلاق“ تیسری طلاق بھی بتہ ہے کیونکہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا کیونکہ بتہ کے معنیٰ منقطع کردینے والی کے ہیں۔
(2) ”تصدیق فرمائی“ کیونکہ جب خاوند رجوع نہیں کرسکتا تو وہ عدت کے دوران میں اخراجات اور رہائش کا ذمہ دار کیوں ہو؟ یہ حدیث اس مسئلے میں بالکل واضح اور صریح ہے کہ مطلقہ ثلاثہ غیر حاملہ کے لیے نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت علی، ابن عباس، جابر رضی اللہ عنہ اور عطاء، طاوس، حسن، عکرمہ، اسحاق، ابوثور وغیرہ فقہاء محدثین رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے اور یہی صحیح ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”مرد پر عورت کا نان ونفقہ اور رہائش اس صورت میں ہے جب طلاق رجعی نہ ہو تو پھر مردے کے ذمے نہ اس کا نان ونفقہ ہے اور نہ رہائش۔“ (مسند أحمد: 6/ 416، 417) اور طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ ”جب عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کیے بغیر پہلے کے لیے حلال نہ ہوسکتی ہو تو اس عورت کے لیے (پہلے خاوند کے ذمے) نان ونفقہ ہے نہ رہائش۔“ (المعجم الکبیر للطبراني: 24/ 382، 383) احناف کا موقف ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں ملیں گے۔ حضرت عمر، ابن مسعودؓ، ابن ابی لیلیٰ اور سفیان ثوری کا بھی یہی موقف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہؓ کی بات تسلیم نہ کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں، نیز نبی اکرمﷺ کے صریح فرامین ان کے اجتہاد پر مقدم ہیں۔ احناف نے اس حدیث کو رد کرنے کے لیے بہت زیادہ تاویلات کی ہیں جو قابل التفات نہیں، مثلاً: یہ کسی راوی کی غلطی ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ خاوند کے رشتہ داروں سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھی، روز روز کی توتکار سے انہیں خاوند کے گھر سے منتقل کیا گیا۔ وہ گھر ویران جگہ تھا اور خطرہ تھا کہ کوئی اوباش دیوار نہ پھلانگ آئے۔ جو نفقہ خاوند نے ان کے لیے متعین کیا تھا، وہ اس سے زائد مانگتی تھیں، اور انکار زائد سے تھا نہ کہ اصل نفقہ سے رسول اللہﷺ کی تصدیق بھی زائد کی نفی سے تعلق رکھتی ہے، وغیرہ۔ امام مالک شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اسے رہائش ملے گی نفقہ نہیں ملے گا۔ لیکن دلائل کی رو سے صحیح موقف پہلا ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) عبداللہ بن ام مکتومؓ ان محترمہ کے محرم رشتہ دار ہوں گے۔ یا پھر نابینا اور بوڑھے ہونے کی وجہ سے آپ نے فاطمہ بنت قیس کو ان کے ہاں رہنے کی اجازت دی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے مردوں کا دیکھنا جائز ہے، تاہم جہاں فتنے کا امکان ہو، وہاں اس کا جواز نہیں ہوگا۔
(4) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ موالی سے تھے کیونکہ ان کے والد آزاد کردہ غلام تھے۔ ویسے بنیادی طور پر حضرت زیدؓ آزاد تھے اور خالص عربی تھے، مگر دشمنوں نے قید کر کے بیچ دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہی الفاظ ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کا نکاح، جو ایک مرتبہ آزاد خاتون تھیں، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کردیا، اگر چہ وہ مولیٰ تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3224
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3247
´شادی کا پیغام دینے والے سے متعلق مشورہ طلب کرنے والی عورت کو آدمی جو کچھ جانتا ہے بتا دینے کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی اور وہ موجود نہ تھے۔ (شہر سے باہر سفر پر تھے) پھر ان کے پاس اپنے وکیل کو کچھ جو دے کر بھیجا تو وہ ان پر غصہ اور ناراض ہوئیں، تو وکیل نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کا تو ہم پر کوئی حق ہی نہیں بنتا (یوں سمجھئے کہ یہ جو تو تمہاری دلداری کے لیے ہے)۔ تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3247]
اردو حاشہ:
(1) مشورہ طلب کرنے کی صورت میں متعلقہ شخص کے اچھے اور برے اوصاف بیان کیے جا سکتے ہیں۔ یہ چغلی یا غیبت کے ذیل میں نہیں آتا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، نیز چونکہ نکاح ایک اہم مسئلہ ہے جس پر باقی زندگی کا مدار ہے، لہٰذا خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورہ دینا اور صحیح معلومات سے آگاہ کرنا فرض ہے۔
(2) ”رشک کیا گیا“ کہ خاوند ملے تو ایسا۔ حضرت اسامہ بہت حسن خلق کے حامل تھے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3247
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3432
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: میں آل خالد کی بیٹی ہوں اور میرے شوہر فلاں نے مجھے طلاق کہلا بھیجی ہے، میں نے ان کے گھر والوں سے نفقہ و سکنی (اخراجات اور رہائش) کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھے دینے سے انکار کیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے ج [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3432]
اردو حاشہ:
یہ روایت اس سے پہلے بھی مختلف مقامات پر آچکی ہے۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقیں دیں۔ کسی میں ہے: مجھے بتہ طلاق دی۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی‘ لہٰذا اس روایت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے پر استدلال درست نہیں کیونکہ روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند نے تیسری طلاق بھیجی تھی۔ دو طلاقیں وہ پہلے دے چکا تھا‘ اس لیے ظاہراً اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ”اخراجات ورہائش“ کا مسئلہ حدیث:3224 میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3432
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3433
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین طلاق پائی ہوئی عورت کو نہ سکنی ملے گا اور نہ نفقہ۔“ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3433]
اردو حاشہ:
اس روایت میں بھی تین طلاقیں اکٹھی دینے کا ذکر نہیں ہے، لہذا اس کا باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3433
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3434
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تین طلاقیں دیں، تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول! ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے (عدت کے دوران) نفقہ ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکنی۔“ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3434]
اردو حاشہ:
اس روایت میں بھی یہ صراحت نہیں کہ انہیں تین طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں یا الگ الگ۔ الفاظ دونوں معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ دوسری روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل تیسری طلاق دی تھی۔ اسے بتہ بھی کہا گیا ہے۔ پہلی طلاقوں کو ساتھ ملا کر تین کہہ دیا گیا۔ تمام روایات کا ظاہری تضاد ختم کرنے کے لیے یہ تطبیق ضروری ہے‘ خصوصاً جب کہ تین اکٹھی دینے پر رسول اللہﷺ نے سخت ناراضی ظاہر فرمائی تھی۔(دیکھیے،روایت:3430)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3434
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3447
´شوہر دوسرے سے بیوی کو طلاق بھیج دے اس کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کہلا بھیجی تو میں اپنے کپڑے اپنے آپ پر لپیٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (نفقہ و سکنی کا مطالبہ لے کر) پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟“ میں نے کہا: تین، آپ نے فرمایا: ”پھر تو تمہیں نفقہ نہیں ملے گا تم اپنی عدت کے دن اپنے چچا کے بیٹے ابن ام مکتوم کے گھر میں پورے کرو کیونکہ وہ نابینا ہیں، تم ان کے پاس رہ کر بھی اپنے کپڑے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3447]
اردو حاشہ:
”کپڑے اتار سکتی ہے“ یعنی فالتو کپڑے نہ کہ سب کپڑے۔ (تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث:3424)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3447
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3575
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عاصم سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بنی مخزوم کے ایک شخص کی بیوی تھیں، وہ شخص انہیں تین طلاقیں دے کر کسی جہاد میں چلا گیا اور اپنے وکیل سے کہہ گیا کہ اسے تھوڑا بہت نفقہ دیدے۔ (تو اس نے دیا) مگر اس نے اسے تھوڑا اور کم جانا (اور واپس کر دیا) پھر ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس پہنچی اور وہ ان کے پاس ہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3575]
اردو حاشہ:
”م کلثوم“ یہ درست نہیں۔ دیگر روایات میں ”ام شریک“ ذکر ہے اور یہی درست ہے۔ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھئے‘ احادیث: 3224، 3239، 2346، 3247)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3575
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3576
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کی بیوی تھیں، انہوں نے انہیں تین طلاقوں میں سے آخری تیسری طلاق دے دی۔ فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنے گھر سے اپنے نکل جانے کا مسئلہ پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ مرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3576]
اردو حاشہ:
دیکھیے سابقہ حدیث کے حوالہ جات۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3576
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3577
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی (مجھے تنہا پا کر) اچانک میرے پاس گھس نہ آئے (اس لیے آپ مجھے کہیں اور منتقل ہو جانے کی اجازت دے دیجئیے) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے اپنی رہائش کی جگہ تبدیل کر لی۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3577]
اردو حاشہ:
خاوند کا گھر آبادی سے دور تھا۔ خاوند گھر پر نہیں تھا۔ عورت جوان تھی۔ گویا کئی خطرات تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3577
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3579
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں نے (شوہر کے گھر سے) منتقل ہو جانے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اجازت طلب کرنے کی غرض سے) آئی، آپ نے (اجازت عطا فرمائی) فرمایا: ”اپنے چچا زاد بھائی عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ اور وہیں عدت کے دن گزارو۔“ (یہ سن کر) اسود نے ان کی طرف (انہیں متوجہ کرنے کے لیے) کنکری پھینکی اور کہا: تم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3579]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: 3224۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزرا’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3579
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3581
´مطلقہ بائنہ کے نفقہ (اخراجات) کا بیان۔`
ابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ دونوں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور میرے نفقہ و سکنیٰ کا انتظام نہ کیا، اور اپنے چچیرے بھائی کے یہاں میرے لیے دس قفیز رکھ دیئے: پانچ قفیز جو کے اور پانچ قفیز کھجور کے ۱؎، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو یہ ساری باتیں بتائیں تو آپ نے فرمایا: ”اس نے صحیح کہا ہے اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں فلاں کے گھر میں رہ کر اپنی عدت پوری کر [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3581]
اردو حاشہ:
فقیز ایک پیمانہ ہے جو تقریباً 25 کلوکے برابر ہے۔ (متعلقہ مسئلہ دیکھے‘ حدیث: 4224‘ 3579میں۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3581
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3582
´قطعی طلاق والی حاملہ کے نفقہ کا بیان۔`
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ۱؎ لڑکی کی ماں کا نام حمنہ بنت قیس تھا، لڑکی کی خالہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو کے گھر سے (کہیں اور) منتقل ہو جا، یہ بات مروان (مروان بن حکم) نے سنی تو انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی بیوی کو کہلا بھیجا کہ اپنے گھر میں آ کر اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے، (اس کے جواب م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3582]
اردو حاشہ:
حمل کی حالت میں مطلقہ بائنہ نان ونفقہ کی مستحق ہے اور اس بات پر اتفاق ہے۔ روایت گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3582
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2284
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: ”اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2284]
فوائد ومسائل:
شوہر جب اپنی بیوی کو مختلف اوقات میں تین طلاقیں دے دے، تو اسے رجوع کا حق حاصل نہیں رہتا۔
ایسی طلاق کو بتہ کہتے ہیں، لغت میں بت کے معنی ہیں کاٹ دینا کسی امرکو نافذ کردینا۔
اردومیں مستعمل لفظ البتہ بمعنی یقین کا ماخذبھی یہی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2284
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2289
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ وہ ابوحفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور ابوحفص نے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق بھی دے دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے گھر نکلنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا ۱؎۔ مروان نے یہ حدیث سنی تو مطلقہ کے گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تصدیق کرنے سے انکار کیا، عروہ کہتے ہیں: ام المؤمنین عائ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2289]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں اختصار ہے جبکہ آگے آنے والی روایت میں وضاحت ہے مروا ن نے قبیصہ بن ذویب کو بھیج کر یہ تفصیل معلوم کی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2289
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2290
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ مروان نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو بلوایا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابوحفص رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا یعنی یمن کے بعض علاقے کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے شوہر بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے اور وہیں سے انہیں بقیہ ایک طلاق بھیج دی، اور عیاش بن ابی ربیعہ اور حارث بن ہشام کو انہیں نفقہ دینے کے لیے کہہ دیا تو وہ دونوں کہنے لگے: اللہ کی قسم حاملہ ہونے کی صورت ہی میں وہ نفقہ کی حقدار ہو سکتی ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2290]
فوائد ومسائل:
1: اس حدیث کا پس منظر آئندہ حدیث 2294 میں آرہا ہے۔
2: حضرت مروان بن حکم کا، جو اس دور میں حاکم مدینہ تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ اور ایسے ہی عمربن خطاب رضی اللہ کا موقف یہ تھا کہ مطلقہ کے لئے ایام عدت میں سکنی شوہر کے ذمے ہے (اور بعض لوگ ا ب بھی اسی کے قائل ہیں۔
) ان حضرات کا استدلال سورۃ طلاق کی آیات سے ہے اس میں ہے (لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ) (الطلاق 1) تم انہیں ان کے گھروں سے مت نکالواور نہ وہ از خود نکلیں۔
ایک اور آیت میں ہے: (أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ) (الطلاق: 2) اپنی حیثیت کے مطابق انہیں سکونت مہیا کرو مگراس مناقشے میں حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ کی بات واضح اور راجح ہے کہ رسول ﷺنے تین طلاق والی کے لئے کوئی نفقہ وسکنی نہیں فرمایا اورچونکہ یہ خود صاحب واقعہ ہیں تو انہی کی بات قابل قبول ہو گی۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیات کا مفہوم ان عورتوں کے متعلق ہے جنہیں رجعی طلاق ہوئی ہو۔
3: حضرت مروان نے جو یہ کہا کہ: ہم ایک عورت سے یہ حدیث سن رہے ہیں تو یہ جرح قابل سماع نہیں ہے امام ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں اور علامہ شوکانی ؒ نے کیا خوب لکھا ہےکہ یہ جرح یا جماع مسلمین باطل ہے، کیونکہ کسی بھی عالم سے یہ منقول نہیں کہ کوئی حدیث کسی عورت کی روایت ہونے کی بناپر مرد قرار پاتی ہے کتنی ہی مقبول ومعمول سنتیں ہیں جن کی رادی صحابیات ہیں اور وہ ان کی روایت میں اکیلی ہیں علم حدیث سے ادنی واقفیت رکھنے والا یہ انکار نہیں کرسکتا اور مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی حدیث محض اس بنا پر رد نہیں کی ممکن ہے اس کا راوی بھول گیا ہو اگر یہ نقد قابل اعتنا سمجھا جائے تو احادیث نبویہ میں سے کوئی حدیث بھی مقبول نہ رہے گی کیو نکہ بھول سکنے سے کون سا انسان مبرا ہے اس طرح تو تما م سنن نبویہ سے معطل قرار دینا پڑے گا اور زیربحث حدیث کی راویہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ ان جلیل القدر صحابیات میں سے ہیں جہنوں نے ابتدا ہی میں ہجرت کرلی تھی اور وہ اپنے حفظ ودانش میں مشہورتھیں۔
وجال کے متعلق طویل حدیث ان ہی کی روایت کردہ ہے جو انہوں نے رسول ﷺسے اثنائے خطبہ میں ایک ہی بار سنی اور یاد کر لی تھی اور کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ طلاق اور نان ونفقہ اور سکنی جیسا جو ان کی زندگی کا اپنا اہم واقعہ تھا وہ بھول گئی ہوں۔
بھول جانے کا اعتراض خود اعتراض کرنے والے پر وارد کیا جا سکتا ہے۔
4: اور جو بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے بیان کیا تھا کہ عورت مطلقہ کے لئے سکنی اور نفقہ ہے یہ حدیث قطعاباطل اور غیر صحیح ہے۔
5: حضرت فاطمہ رضی اللہ پر زبان کی تیز ہونے کا کو عیب لگایا جاتا ہے (جیسے کی اگلے باب میں آرہا ہے) وہ بھی محل نظر ہے ایک طرف تو نبی ﷺنفقہ وسکنی کے بارے میں حکم زبانی بتا رہے ہیں مگراسے زبان پر کنٹرول کرنے کی نصیحت نہیں فرماتے جس کا تعلق اس کے اپنے دین واخلاق کے ساتھ ساتھ تکمیل عدت میں بھی معاون ہے۔
ذخیرہ احادیث میں اس قسم کی کوئی بات ثابت نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2290
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3697
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو عمرو بن حفص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے الگ کرنے والی طلاق دے دی یعنی تیسری طلاق دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھا۔ اس لیے اس کے وکیل نے، اس کے پاس کچھ جو بھیجے، جو اس (فاطمہ) نے پسند نہ کیے، تو وکیل نے کہا، اللہ کی قسم! تیرا ہمارے ذمہ کوئی حق نہیں ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا، تو آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3697]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فَلَايَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقَهِ:
کی تفسیر وتشریح دوسری روایت کر رہی ہے کہ وہ ضَرَّابُ،
(لِلنِّسَاءِ)
وہ عورتوں کو بہت مارتا ہے يا يَضْرِبُ النِّسَاءَ:
وہ عورتوں کو مارتا ہے،
اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ ہر وقت سفر پر رہتا ہے۔
صَعْلُوْكٌ:
فقیرو تنگدست (جبکہ تم مال کی حریص اور خواہشمند ہو۔
)
فوائد ومسائل:
اگر عورت کو طلاق رجعی ملی ہو،
یعنی خاوند رجوع کر سکتا ہو،
تو وہ اس کو نان و نفقہ اور رہائش دینے کا پابند ہے لیکن اگر خاوند رجوع نہیں کر سکتا،
تو پھر رخصت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کی روسے وہ نان ونفقہ اور مسکن (رہائش)
دینے کا پابند نہیں ہے الایہ کہ وہ حاملہ ہو اور قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،
اور آئمہ کا اس میں اختلاف ہے،
احناف آئمہ کے نزدیک مطلقہ ثلاثہ اور مبتوتہ کو ہر صورت میں وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ نفقہ اور مسکن ملے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف بھی یہی تھا،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک مسکن (رہائش)
ہر صورت میں دینا ہو گی اور نفقہ اس صورت میں دینا ہو گا۔
جب حاملہ ہو امام لیث رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا یہی نظریہ ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک نان ونفقہ اور مسکن صرف حاملہ ہونے کی صورت میں ملے گا۔
اس کے بغیر نہیں،
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ،
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کا یہی مسلک ہے اور یہی درست ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3697
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3699
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں، میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا، تو اس نے مجھے بتایا کہ میرے مخزومی خاوند نے، مجھے طلاق دے دی، اور پورا خرچ دینے سے انکار کر دیا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے نفقہ نہیں ہے، خاوند کے گھر سے منتقل ہو جا، اور ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں چلی جا، اور وہاں رہ، کیونکہ وہ نابینا آدمی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3699]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس قدر مرد کے لیے عورت کو دیکھنے کی پابندی ہے،
اسی قدر شدت کے ساتھ عورت پر پابندی نہیں ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں عدت گزارنے کی تلقین کی۔
کیونکہ وہ اندھا ہونے کی وجہ سے اس کو دیکھ نہیں سکیں گے۔
اس لیے وہ وہاں پردہ اتارسکے گی اور وہ خود ان کو نظرشہوت سے نہ دیکھے اور فتنہ انگیز نظرنہ ڈالے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3699
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3704
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن حفص بن مغیرہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ یمن روانہ ہوا، اور اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کو آخری طلاق جو باقی رہ گئی تھی بھیج دی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو اسے نفقہ دینے کا کہہ دیا، تو ان دونوں نے اسے کہا، اللہ کی قسم! تجھے صرف حاملہ ہونے کی صورت میں نفقہ ملے گا، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کی بات آپﷺ کو بتائی۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3704]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فائدہ عام لوگوں کا نظریہ،
یہ تھا کہ مطلقہ ثلاثہ کو سکنی ملے گا۔
اور نفقہ نہیں ملے گا،
اس لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اس کو نفقہ نہیں ملنا ہے،
تو پھر روکنے کا سبب کیا ہے اور سکنی اور نفقہ میں فرق کرنے کی دلیل کون سی ہے؟ اور آیت سے استدلال اس طرح ہے کہ آیت کا آخری حصہ گھر میں روکنے کا سبب یہ بیان کرتا ہے ممکن ہے ایک گھر میں رہنے سے رجوع کی صورت بن سکے اور تیسری طلاق کے بعد تو رجوع کا امکان ہی نہیں رہتا اس لیے سکنی اس کو کس بنیاد پر ملے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3704
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3713
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ نے عیاش بن ابی ربیعہ کے ذریعہ مجھے طلاق بھیجی اور اس کے ہاتھ پانچ صاع کھجور اور پانچ صاع جو بھی بھیجے، میں نے پوچھا، کیا مجھے یہی خرچ ملے گا؟ اور میں تمہارے مکان میں عدت نہیں گزار سکوں گی، اس نے جواب دیا، نہیں، تو میں نے اپنے کپڑے درست کیے، اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو آپﷺ نے پوچھا: ”اس نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟“ میں نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3713]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے یہ بات معروف تھی کہ مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنی نہیں ہے اس لیے یہ بات عیاش بن ابی ربیعہ نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہی اور اس کے مکان چھوڑنے کا اشارہ کرنے پر وہاں سے منتقل ہونا چاہا۔
اس لیے یہ کہنا وہ تیز طبیعت کی مالک تھی یا زبان دراز تھی یا اپنے دیوروں کو تنگ کرتی تھی۔
اس لیے آپﷺ نے اس کو رہائش چھوڑنے کا حکم دیا درست نہیں ہے۔
اگر یہ سبب تھا تو پھر اس بات کی شکایت خاوند کے گھروالوں کو کرنی چاہیے تھی مزید برآں اس کا مکان الگ تھا جیسا کہ حدیث نمبر53 سے محسوس ہوتا ہے،
اس لیے یہ سبب کیسے بن گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3713