Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب النكاح
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
21. بَابُ : خِطْبَةِ الرَّجُلِ إِذَا تَرَكَ الْخَاطِبُ أَوْ أَذِنَ لَهُ
باب: شادی کے لیے پہلے پیغام دینے والے کے دست بردار ہو جانے یا اجازت دینے پر دوسرا شخص پیغام دے۔
حدیث نمبر: 3246
أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنِ الْحَارِثِ بن عبد الرحمن , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَنَّهُمَا سَأَلَا فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، عَنْ أَمْرِهَا؟ فَقَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَكَانَ يَرْزُقُنِي طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ كَانَتْ لِي النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لَأَطْلُبَنَّهَا وَلَا أَقْبَلُ هَذَا فَقَالَ الْوَكِيلُ: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ، فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ، قَالَتْ: وَكَانَ يَأْتِيهَا أَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ أَعْمَى، فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ آذَنْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَنْ خَطَبَكِ؟" فَقُلْتُ: مُعَاوِيَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَإِنَّهُ غُلَامٌ مِنْ غِلْمَانِ قُرَيْشٍ لَا شَيْءَ لَهُ وَأَمَّا الْآخَرُ، فَإِنَّهُ صَاحِبُ شَرٍّ لَا خَيْرَ فِيهِ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ"، قَالَتْ: فَكَرِهْتُهُ، فَقَالَ لَهَا ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَنَكَحَتْهُ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا (کہ کیسے کیا ہوا؟) تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی (اچھا نہ تھا) تو میں نے کہا: اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ (ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز) نہ لوں گی، (میرے شوہر کے) وکیل نے کہا: نفقہ و سکنی کا تمہارا حق نہیں بنتا۔ (یہ سن کر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اس (بات چیت) کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: (وہ سچ کہتا ہے) تیرے لیے نفقہ و سکنی (کا حق) نہیں ہے ۱؎، تم فلاں عورت کے پاس جا کر اپنی عدت پوری کر لو ۲؎ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آتے جاتے رہتے تھے۔ (پھر کچھ سوچ کر کہ وہاں رہنے سے بےپردگی اور شرمندگی نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں رہ کر اپنی عدت پوری کر لو کیونکہ وہ نابینا ہیں ۳؎، پھر جب (عدت پوری ہو جائے اور) تو دوسروں کے لیے حلال ہو جاؤ تو مجھے آگاہ کرو، چنانچہ جب میں حلال ہو گئی (اور کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے قابل ہو گئی) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے شادی کا پیغام دیا ہے؟ میں نے کہا: معاویہ نے، اور ایک دوسرے قریشی شخص نے ۴؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا معاویہ تو وہ قریشی لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، رہا دوسرا شخص تو وہ صاحب شر اور لاخیرا ہے (اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے) ۵؎، ایسا کرو تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو فاطمہ کہتی ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو لیکن وہ مجھے جچے نہیں) میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن جب آپ نے مجھے اسامہ بن زید سے تین بار شادی کر لینے کے لیے کہا تو میں نے (آپ کی بات رکھ لی اور) ان سے شادی کر لی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن ابی داود/الطلاق 39 (2284، 2285، 2286، 2287، 2289)، (تحفة الأشراف: 18036، 18038)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/412، 413، 416)، ویأتي عند المؤلف بأرقام 3434، 3576 (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: نفقہ وسکنی (اخراجات اور رہائش) کا حق ان کے لیے ہے جن سے شوہر کو رجوع کا حق و اختیار رہتا ہے، بلکہ شوہر کے گھر میں اس کی رہائش اسی لیے رکھی جاتی ہے تاکہ اس کی مجبوری و بےقراری دیکھ کر اسے رحم آئے، اور رجوع کرے اور دونوں اعتدال و توازن اور اخلاص و محبت کی زندگی گزارنے لگیں۔ ۲؎: فلانہ سے مراد ام شریک رضی الله عنہا ہیں وہ ایک مہمان نواز خاتون تھیں۔ ۳؎: ان کے گھر میں رہتے وقت اگر دوپٹہ سر سے کھسک جائے یا سونے میں جسم کا کوئی حصہ کھل جائے تو رسوائی اور شرمندگی نہ ہو گی۔ ۴؎: اس سے مراد ابوالجہم رضی الله عنہ ہیں۔ ۵؎: یعنی عورتوں کے حقوق کی بابت وہ لاخیرا ہے، ایک روایت میں ان کے متعلق تو «ضرّاب للنّسائ» (عورتوں کی بڑی پٹائی کرنے والا) اور «لا يَضَعُ عصاه عن عاتقه» (اپنے کندھے سے لاٹھی نہ اتارنے والا) جیسے الفاظ وارد ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے تحت اس طرح کے اوصاف بیان کرنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3246 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3246  
اردو حاشہ:
(1) تین طلاق دے دیں ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں لیکن حقیقت میں ایسے نہیں، بلکہ تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی تھیں جیسا کہ روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ یہ حدیث پیچھے (3224کے تحت) گزر چکی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ انہوں نے جو طلاق باقی رہ گئی تھی وہ دی، یعنی تیسری طلاق، جبکہ اس سے پہلے دو طلاقیں دے چکے تھے۔
(2) پچھلی احادیث میں پیغام پر پیغام سے روکا گیا ہے۔ اس روایت میں رسول اللہﷺ نے معاویہ اور ابوجہم کے پیغامات نکاح پر اسامہ سے نکاح کا پیغام ارشاد فرمایا۔ دراصل وہ آپ سے مشورہ لینے آتی تھیں۔ آپ مخلصانہ مشورہ ارشاد فرمایا۔ حضرت اسامہؓ سے ان کا نکاح بابرکت ثابت ہوا۔
(3) آپ حضرت فاطمہ بنت قیس کی طبیعت سے واقف تھے کہ یہ کم مال والے کے ساتھ گزارہ نہ کرسکے گی اس لیے آپ نے معاویہ کے ساتھ نکاح سے روک دیا۔ ورنہ نکاح میں مال کی بجائے خلق اور دین دیکھا جاتا ہے۔
(4) صاحب شر ہے یہاں شر سے مراد شرارتی نہیں بلکہ اس کی وضاحت بعض دوسری روایات میں آتی ہے کہ وہ سخت ہے، مارتا پیٹتا ہے، اس کے ساتھ بھی تیرا گزارہ نہ ہوگا۔
(5) اچھی نہ لگی کیونکہ حضرت اسامہؓ آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ بھی آزاد شدہ لونڈی تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3246   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 369  
´مطلقہ عورت کے لئے نان نفقہ ہے نہ سکونت`
«. . . 379- وعن عبد الله بن يزيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن فاطمة بنت قيس أن أبا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب، فأرسل إليها وكيله بشعير فسخطته، فقال: والله، ما لك علينا من شيء، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ليس لك عليه من نفقة فأمرها أن تعتد فى بيت أم شريك ثم قال: تلك امرأة يغشاها أصحابي، اعتدي عند ابن أم مكتوم، فإنه رجل أعمى، تضعين ثيابك، فإذا حللت فآذنيني، قالت: فلما حللت ذكرت له أن معاوية بن أبى سفيان وأبا جهم بن هشام خطباني فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه، وأما معاوية فصعلوك لا مال له، ولكن انكحي أسامة بن زيد قالت: فكرهته، ثم قال: انكحي أسامة فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت به. . . .»
. . . سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں (آخری تیسری طلاق) طلاق بتہ دی اور وہ (مدینے سے) غیر حاضر تھے پھر انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے سے کچھ جَو بھیجے تو وہ (کم مقدار ہونے پر) ناراض ہوئیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم پر تمہارے لئے کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے ان پر کوئی نان نفقہ (لازم) نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا پھر فرمایا: اس عورت کے پاس (اس کی سخاوت کی وجہ سے) میرے صحابہ کثرت سے جاتے رہتے ہیں، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں دوپٹا وغیرہ اتار سکتی ہو۔ پھر جب عدت ختم ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔ (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: جب میری عدت ختم ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم بن ہشام رضی اللہ عنہ نے میری طرف شادی کا پیغام بھیجا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجہم تو کندھے سے عصا نہیں اتارتے اور معاویہ فقیر ہیں ان کے پاس کوئی مال نہیں ہے، لیکن تم اسامہ بن زید سے شادی کر لو۔ (فاطمہ) کہتی ہیں: میں نے اسے ناپسند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسامہ سے شادی کر لو، پھر میں نے ان سے شادی کر لی تو اللہ نے اس میں خیر رکھی اور میں ان پر قابل رشک حد تک خوش رہی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 369]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1480/36، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ مبتوتہ (جسے تیسری طلاق دی گئی ہو) کے لئے طلاق دینے والے کے ذمہ نہ کوئی نان نفقہ ہے اور نہ سکونت ہے۔
➋ خبر واحد صحیح کے ساتھ قرآن و احادیث متواترہ کی تخصيص جائز ہے۔
➌ سیدنا ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو مختلف اوقات میں تین طلاقیں دی تھیں۔
➍شرعی عذر ہو تو خیر خواہی کے طور پر کسی مسلمان پرتنقید کی جاسکتی ہے۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم خیر و بھلائی پر مبنی ہے۔
➏ طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد میاں بیوی میں مکمل جدائی ہو جاتی ہے۔
➐ بعض علماء کا سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی طرف وہم و خطا منسوب کر کے اس حدیث کو رد کرنا غلط ہے۔
➑ عورت کے لئے غیروں سے پردہ کرنا ضروری ہے لیکن نابینا سے پردہ ضروری نہیں ہے۔ اگر نابینا سے بھی پردہ کرلیا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ حدیث ام سلمه رضی اللہ عنہا: «أفعما وان أَنتما؟» کیا تم دونوں اندھی ہو؟ سے ثابت ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 4112، وسنده حسن و أخطا من ضعفه]
● حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں نیہان مجہول نہیں ہے بلکہ ترمذی، ابن حبان، حاکم اور ذہبی [الكاشف 175/3] نے اس کی توثیق کر رکھی ہے۔ والحمد للہ
➒ عورت ضرورت کے وقت غیر مردوں سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے کلام کرسکتی ہے۔
➓ طلاق یافتہ عورت معاشرے کا حصہ ہے لہٰذا اسے معیوب یا کمتر سمجھنا غلط ہے بلکہ اس کی دلجوئی اور دوسری جگہ شادی کرانے کا بندوبست کرنا چاہیے، یہ بھی واضح رہے کہ بہتر یہی ہے کہ دوسری شادی کا پیغام ایام عدت کے بعد دیا جائے۔ «وغير ذلك من الفوائد»
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 379   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3224  
´غلام کی آزاد عورت سے شادی کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ مروان کے دور حکومت میں ایک نوجوان شخص عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی (جن کی ماں بنت قیس ہیں) کو طلاق بتہ دے دی ۱؎، تو اس کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہو جاؤ، یہ بات مروان نے سنی (کہ سعید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو کے گھر سے چلی گئی ہے)۔ تو اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم اپنے اس گھر کو واپس چلی جاؤ (جہاں سے نکل کر آئی ہو) اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3224]
اردو حاشہ:
1) بتہ طلاق تیسری طلاق بھی بتہ ہے کیونکہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا کیونکہ بتہ کے معنیٰ منقطع کردینے والی کے ہیں۔
(2) تصدیق فرمائی کیونکہ جب خاوند رجوع نہیں کرسکتا تو وہ عدت کے دوران میں اخراجات اور رہائش کا ذمہ دار کیوں ہو؟ یہ حدیث اس مسئلے میں بالکل واضح اور صریح ہے کہ مطلقہ ثلاثہ غیر حاملہ کے لیے نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت علی، ابن عباس، جابر رضی اللہ عنہ اور عطاء، طاوس، حسن، عکرمہ، اسحاق، ابوثور وغیرہ فقہاء محدثین رحمہم اللہ  کا بھی یہی موقف ہے اور یہی صحیح ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مرد پر عورت کا نان ونفقہ اور رہائش اس صورت میں ہے جب طلاق رجعی نہ ہو تو پھر مردے کے ذمے نہ اس کا نان ونفقہ ہے اور نہ رہائش۔ (مسند أحمد: 6/ 416، 417) اور طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جب عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کیے بغیر پہلے کے لیے حلال نہ ہوسکتی ہو تو اس عورت کے لیے (پہلے خاوند کے ذمے) نان ونفقہ ہے نہ رہائش۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 24/ 382، 383) احناف کا موقف ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں ملیں گے۔ حضرت عمر، ابن مسعودؓ، ابن ابی لیلیٰ اور سفیان ثوری کا بھی یہی موقف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہؓ کی بات تسلیم نہ کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں، نیز نبی اکرمﷺ کے صریح فرامین ان کے اجتہاد پر مقدم ہیں۔ احناف نے اس حدیث کو رد کرنے کے لیے بہت زیادہ تاویلات کی ہیں جو قابل التفات نہیں، مثلاً: یہ کسی راوی کی غلطی ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ خاوند کے رشتہ داروں سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھی، روز روز کی توتکار سے انہیں خاوند کے گھر سے منتقل کیا گیا۔ وہ گھر ویران جگہ تھا اور خطرہ تھا کہ کوئی اوباش دیوار نہ پھلانگ آئے۔ جو نفقہ خاوند نے ان کے لیے متعین کیا تھا، وہ اس سے زائد مانگتی تھیں، اور انکار زائد سے تھا نہ کہ اصل نفقہ سے رسول اللہﷺ کی تصدیق بھی زائد کی نفی سے تعلق رکھتی ہے، وغیرہ۔ امام مالک شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اسے رہائش ملے گی نفقہ نہیں ملے گا۔ لیکن دلائل کی رو سے صحیح موقف پہلا ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) عبداللہ بن ام مکتومؓ ان محترمہ کے محرم رشتہ دار ہوں گے۔ یا پھر نابینا اور بوڑھے ہونے کی وجہ سے آپ نے فاطمہ بنت قیس کو ان کے ہاں رہنے کی اجازت دی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے مردوں کا دیکھنا جائز ہے، تاہم جہاں فتنے کا امکان ہو، وہاں اس کا جواز نہیں ہوگا۔
(4) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ موالی سے تھے کیونکہ ان کے والد آزاد کردہ غلام تھے۔ ویسے بنیادی طور پر حضرت زیدؓ آزاد تھے اور خالص عربی تھے، مگر دشمنوں نے قید کر کے بیچ دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہی الفاظ ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کا نکاح، جو ایک مرتبہ آزاد خاتون تھیں، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کردیا، اگر چہ وہ مولیٰ تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3224   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3247  
´شادی کا پیغام دینے والے سے متعلق مشورہ طلب کرنے والی عورت کو آدمی جو کچھ جانتا ہے بتا دینے کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی اور وہ موجود نہ تھے۔ (شہر سے باہر سفر پر تھے) پھر ان کے پاس اپنے وکیل کو کچھ جو دے کر بھیجا تو وہ ان پر غصہ اور ناراض ہوئیں، تو وکیل نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کا تو ہم پر کوئی حق ہی نہیں بنتا (یوں سمجھئے کہ یہ جو تو تمہاری دلداری کے لیے ہے)۔ تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3247]
اردو حاشہ:
(1) مشورہ طلب کرنے کی صورت میں متعلقہ شخص کے اچھے اور برے اوصاف بیان کیے جا سکتے ہیں۔ یہ چغلی یا غیبت کے ذیل میں نہیں آتا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، نیز چونکہ نکاح ایک اہم مسئلہ ہے جس پر باقی زندگی کا مدار ہے، لہٰذا خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورہ دینا اور صحیح معلومات سے آگاہ کرنا فرض ہے۔
(2) رشک کیا گیا کہ خاوند ملے تو ایسا۔ حضرت اسامہ بہت حسن خلق کے حامل تھے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3247   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3432  
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: میں آل خالد کی بیٹی ہوں اور میرے شوہر فلاں نے مجھے طلاق کہلا بھیجی ہے، میں نے ان کے گھر والوں سے نفقہ و سکنی (اخراجات اور رہائش) کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھے دینے سے انکار کیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے ج [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3432]
اردو حاشہ:
یہ روایت اس سے پہلے بھی مختلف مقامات پر آچکی ہے۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقیں دیں۔ کسی میں ہے: مجھے بتہ طلاق دی۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی‘ لہٰذا اس روایت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے پر استدلال درست نہیں کیونکہ روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند نے تیسری طلاق بھیجی تھی۔ دو طلاقیں وہ پہلے دے چکا تھا‘ اس لیے ظاہراً اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ اخراجات ورہائش کا مسئلہ حدیث:3224 میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3432   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3433  
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طلاق پائی ہوئی عورت کو نہ سکنی ملے گا اور نہ نفقہ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3433]
اردو حاشہ:
اس روایت میں بھی تین طلاقیں اکٹھی دینے کا ذکر نہیں ہے، لہذا اس کا باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3433   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3434  
´ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تین طلاقیں دیں، تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول! ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے (عدت کے دوران) نفقہ ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکنی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3434]
اردو حاشہ:
اس روایت میں بھی یہ صراحت نہیں کہ انہیں تین طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں یا الگ الگ۔ الفاظ دونوں معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ دوسری روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل تیسری طلاق دی تھی۔ اسے بتہ بھی کہا گیا ہے۔ پہلی طلاقوں کو ساتھ ملا کر تین کہہ دیا گیا۔ تمام روایات کا ظاہری تضاد ختم کرنے کے لیے یہ تطبیق ضروری ہے‘ خصوصاً جب کہ تین اکٹھی دینے پر رسول اللہﷺ نے سخت ناراضی ظاہر فرمائی تھی۔(دیکھیے،روایت:3430)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3434   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3447  
´شوہر دوسرے سے بیوی کو طلاق بھیج دے اس کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کہلا بھیجی تو میں اپنے کپڑے اپنے آپ پر لپیٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (نفقہ و سکنی کا مطالبہ لے کر) پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟ میں نے کہا: تین، آپ نے فرمایا: پھر تو تمہیں نفقہ نہیں ملے گا تم اپنی عدت کے دن اپنے چچا کے بیٹے ابن ام مکتوم کے گھر میں پورے کرو کیونکہ وہ نابینا ہیں، تم ان کے پاس رہ کر بھی اپنے کپڑے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3447]
اردو حاشہ:
کپڑے اتار سکتی ہے یعنی فالتو کپڑے نہ کہ سب کپڑے۔ (تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث:3424)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3447   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3575  
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عاصم سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بنی مخزوم کے ایک شخص کی بیوی تھیں، وہ شخص انہیں تین طلاقیں دے کر کسی جہاد میں چلا گیا اور اپنے وکیل سے کہہ گیا کہ اسے تھوڑا بہت نفقہ دیدے۔ (تو اس نے دیا) مگر اس نے اسے تھوڑا اور کم جانا (اور واپس کر دیا) پھر ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس پہنچی اور وہ ان کے پاس ہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3575]
اردو حاشہ:
م کلثوم یہ درست نہیں۔ دیگر روایات میں ام شریک ذکر ہے اور یہی درست ہے۔ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھئے‘ احادیث: 3224، 3239، 2346، 3247)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3575   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3576  
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کی بیوی تھیں، انہوں نے انہیں تین طلاقوں میں سے آخری تیسری طلاق دے دی۔ فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنے گھر سے اپنے نکل جانے کا مسئلہ پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ مرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3576]
اردو حاشہ:
دیکھیے سابقہ حدیث کے حوالہ جات۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3576   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3577  
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی (مجھے تنہا پا کر) اچانک میرے پاس گھس نہ آئے (اس لیے آپ مجھے کہیں اور منتقل ہو جانے کی اجازت دے دیجئیے) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے اپنی رہائش کی جگہ تبدیل کر لی۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3577]
اردو حاشہ:
خاوند کا گھر آبادی سے دور تھا۔ خاوند گھر پر نہیں تھا۔ عورت جوان تھی۔ گویا کئی خطرات تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3577   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3579  
´تین طلاق والی عورت کو عدت گزارنے کے لیے اپنے گھر سے دوسری جگہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں نے (شوہر کے گھر سے) منتقل ہو جانے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اجازت طلب کرنے کی غرض سے) آئی، آپ نے (اجازت عطا فرمائی) فرمایا: اپنے چچا زاد بھائی عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ اور وہیں عدت کے دن گزارو۔‏‏‏‏ (یہ سن کر) اسود نے ان کی طرف (انہیں متوجہ کرنے کے لیے) کنکری پھینکی اور کہا: تم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3579]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: 3224۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزرا’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3579   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3581  
´مطلقہ بائنہ کے نفقہ (اخراجات) کا بیان۔`
ابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ دونوں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور میرے نفقہ و سکنیٰ کا انتظام نہ کیا، اور اپنے چچیرے بھائی کے یہاں میرے لیے دس قفیز رکھ دیئے: پانچ قفیز جو کے اور پانچ قفیز کھجور کے ۱؎، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو یہ ساری باتیں بتائیں تو آپ نے فرمایا: اس نے صحیح کہا ہے اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں فلاں کے گھر میں رہ کر اپنی عدت پوری کر [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3581]
اردو حاشہ:
فقیز ایک پیمانہ ہے جو تقریباً 25 کلوکے برابر ہے۔ (متعلقہ مسئلہ دیکھے‘ حدیث: 4224‘ 3579میں۔)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3581   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3582  
´قطعی طلاق والی حاملہ کے نفقہ کا بیان۔`
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ۱؎ لڑکی کی ماں کا نام حمنہ بنت قیس تھا، لڑکی کی خالہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو کے گھر سے (کہیں اور) منتقل ہو جا، یہ بات مروان (مروان بن حکم) نے سنی تو انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی بیوی کو کہلا بھیجا کہ اپنے گھر میں آ کر اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے، (اس کے جواب م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3582]
اردو حاشہ:
حمل کی حالت میں مطلقہ بائنہ نان ونفقہ کی مستحق ہے اور اس بات پر اتفاق ہے۔ روایت گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3582   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2284  
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2284]
فوائد ومسائل:
شوہر جب اپنی بیوی کو مختلف اوقات میں تین طلاقیں دے دے، تو اسے رجوع کا حق حاصل نہیں رہتا۔
ایسی طلاق کو بتہ کہتے ہیں، لغت میں بت کے معنی ہیں کاٹ دینا کسی امرکو نافذ کردینا۔
اردومیں مستعمل لفظ البتہ بمعنی یقین کا ماخذبھی یہی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2284   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2289  
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ وہ ابوحفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور ابوحفص نے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق بھی دے دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے گھر نکلنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا ۱؎۔ مروان نے یہ حدیث سنی تو مطلقہ کے گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تصدیق کرنے سے انکار کیا، عروہ کہتے ہیں: ام المؤمنین عائ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2289]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں اختصار ہے جبکہ آگے آنے والی روایت میں وضاحت ہے مروا ن نے قبیصہ بن ذویب کو بھیج کر یہ تفصیل معلوم کی تھی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2289   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2290  
´تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ مروان نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو بلوایا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابوحفص رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا یعنی یمن کے بعض علاقے کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے شوہر بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے اور وہیں سے انہیں بقیہ ایک طلاق بھیج دی، اور عیاش بن ابی ربیعہ اور حارث بن ہشام کو انہیں نفقہ دینے کے لیے کہہ دیا تو وہ دونوں کہنے لگے: اللہ کی قسم حاملہ ہونے کی صورت ہی میں وہ نفقہ کی حقدار ہو سکتی ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2290]
فوائد ومسائل:
1: اس حدیث کا پس منظر آئندہ حدیث 2294 میں آرہا ہے۔

2: حضرت مروان بن حکم کا، جو اس دور میں حاکم مدینہ تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ اور ایسے ہی عمربن خطاب رضی اللہ کا موقف یہ تھا کہ مطلقہ کے لئے ایام عدت میں سکنی شوہر کے ذمے ہے (اور بعض لوگ ا ب بھی اسی کے قائل ہیں۔
)
ان حضرات کا استدلال سورۃ طلاق کی آیات سے ہے اس میں ہے (لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ) (الطلاق 1) تم انہیں ان کے گھروں سے مت نکالواور نہ وہ از خود نکلیں۔
ایک اور آیت میں ہے: (أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ) (الطلاق: 2) اپنی حیثیت کے مطابق انہیں سکونت مہیا کرو مگراس مناقشے میں حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ کی بات واضح اور راجح ہے کہ رسول ﷺنے تین طلاق والی کے لئے کوئی نفقہ وسکنی نہیں فرمایا اورچونکہ یہ خود صاحب واقعہ ہیں تو انہی کی بات قابل قبول ہو گی۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیات کا مفہوم ان عورتوں کے متعلق ہے جنہیں رجعی طلاق ہوئی ہو۔

3: حضرت مروان نے جو یہ کہا کہ: ہم ایک عورت سے یہ حدیث سن رہے ہیں تو یہ جرح قابل سماع نہیں ہے امام ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں اور علامہ شوکانی ؒ نے کیا خوب لکھا ہےکہ یہ جرح یا جماع مسلمین باطل ہے، کیونکہ کسی بھی عالم سے یہ منقول نہیں کہ کوئی حدیث کسی عورت کی روایت ہونے کی بناپر مرد قرار پاتی ہے کتنی ہی مقبول ومعمول سنتیں ہیں جن کی رادی صحابیات ہیں اور وہ ان کی روایت میں اکیلی ہیں علم حدیث سے ادنی واقفیت رکھنے والا یہ انکار نہیں کرسکتا اور مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی حدیث محض اس بنا پر رد نہیں کی ممکن ہے اس کا راوی بھول گیا ہو اگر یہ نقد قابل اعتنا سمجھا جائے تو احادیث نبویہ میں سے کوئی حدیث بھی مقبول نہ رہے گی کیو نکہ بھول سکنے سے کون سا انسان مبرا ہے اس طرح تو تما م سنن نبویہ سے معطل قرار دینا پڑے گا اور زیربحث حدیث کی راویہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ ان جلیل القدر صحابیات میں سے ہیں جہنوں نے ابتدا ہی میں ہجرت کرلی تھی اور وہ اپنے حفظ ودانش میں مشہورتھیں۔
وجال کے متعلق طویل حدیث ان ہی کی روایت کردہ ہے جو انہوں نے رسول ﷺسے اثنائے خطبہ میں ایک ہی بار سنی اور یاد کر لی تھی اور کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ طلاق اور نان ونفقہ اور سکنی جیسا جو ان کی زندگی کا اپنا اہم واقعہ تھا وہ بھول گئی ہوں۔
بھول جانے کا اعتراض خود اعتراض کرنے والے پر وارد کیا جا سکتا ہے۔

4: اور جو بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے بیان کیا تھا کہ عورت مطلقہ کے لئے سکنی اور نفقہ ہے یہ حدیث قطعاباطل اور غیر صحیح ہے۔

5: حضرت فاطمہ رضی اللہ پر زبان کی تیز ہونے کا کو عیب لگایا جاتا ہے (جیسے کی اگلے باب میں آرہا ہے) وہ بھی محل نظر ہے ایک طرف تو نبی ﷺنفقہ وسکنی کے بارے میں حکم زبانی بتا رہے ہیں مگراسے زبان پر کنٹرول کرنے کی نصیحت نہیں فرماتے جس کا تعلق اس کے اپنے دین واخلاق کے ساتھ ساتھ تکمیل عدت میں بھی معاون ہے۔
ذخیرہ احادیث میں اس قسم کی کوئی بات ثابت نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2290   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2035  
´کیا تین طلاق پائی ہوئی عورت نفقہ اور رہائش کی حقدار ہے؟`
ابوبکر بن ابی جہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکنیٰ (جائے رہائش) اور نفقہ کا حقدار نہیں قرار دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2035]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طلاق بائن کے بعد عدت میں عورت کو خرچ دینا مرد کے ذمے نہیں۔

(2)
  بعض علماء نے طلاق بائن کے بعد بھی عدت میں عورت کا خرچ اور رہائش وغیرہ کا انتظام مرد کے ذمے قرار دیا ہے۔
ان کی دلیل سورۃ طلاق کی پہلی آیت ہے:
﴿لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾  انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو، نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کھلی برائی کا ارتکاب کریں۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آیت رجعی طلاق والی عورت کے بارے میں ہے کیونکہ اس کے بعد یہ فرمان ہے:
﴿لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذلِكَ أَمرً‌ا﴾ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے۔
اس آیت میں نئی بات سے مراد یہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے سے امید ہے کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کے جذبات پیدا ہو کر رجوع ہونے کا امکان ہوگا۔
بائن طلاق کے بعد یہ امکان نہیں کیونکہ رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔
تفصیل کےلیے دیکھئے: (نیل الأوطار، باب ماجاء فی نفقة المبتوتة وسکناها، وباب النفقة والسکني للمعتدۃ الرجعیة)

(3)
  اگر عورت حمل سے ہوتو عدت کے دوران میں اس کا خرچ مرد کے ذمےہے، خواہ طلاق بائن ہی کیوں نہ ہو۔
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَملٍ فَأَنفِقوا عَلَيهِنَّ حَتّى يَضَعنَ حَملَهُنَّ ﴾ (الطلاق6: 65)
اگر وہ حمل سے ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک انہیں خرچ دیتے رہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2035   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1180  
´تین طلاق پائی عورت کو نہ رہنے کے لیے گھر ملے گا اور نہ کھانے پینے کا خرچہ۔`
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں نہ «سکنی» (رہائش) ملے گا اور نہ «نفقہ» (اخراجات)۔‏‏‏‏ مغیرہ کہتے ہیں: پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر رضی الله عنہ کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1180   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3697  
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو عمرو بن حفص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے الگ کرنے والی طلاق دے دی یعنی تیسری طلاق دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھا۔ اس لیے اس کے وکیل نے، اس کے پاس کچھ جو بھیجے، جو اس (فاطمہ) نے پسند نہ کیے، تو وکیل نے کہا، اللہ کی قسم! تیرا ہمارے ذمہ کوئی حق نہیں ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا، تو آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3697]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فَلَايَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقَهِ:
کی تفسیر وتشریح دوسری روایت کر رہی ہے کہ وہ ضَرَّابُ،
(لِلنِّسَاءِ)
وہ عورتوں کو بہت مارتا ہے يا يَضْرِبُ النِّسَاءَ:
وہ عورتوں کو مارتا ہے،
اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ ہر وقت سفر پر رہتا ہے۔
صَعْلُوْكٌ:
فقیرو تنگدست (جبکہ تم مال کی حریص اور خواہشمند ہو۔
)

فوائد ومسائل:
اگر عورت کو طلاق رجعی ملی ہو،
یعنی خاوند رجوع کر سکتا ہو،
تو وہ اس کو نان و نفقہ اور رہائش دینے کا پابند ہے لیکن اگر خاوند رجوع نہیں کر سکتا،
تو پھر رخصت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کی روسے وہ نان ونفقہ اور مسکن (رہائش)
دینے کا پابند نہیں ہے الایہ کہ وہ حاملہ ہو اور قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،
اور آئمہ کا اس میں اختلاف ہے،
احناف آئمہ کے نزدیک مطلقہ ثلاثہ اور مبتوتہ کو ہر صورت میں وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ نفقہ اور مسکن ملے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف بھی یہی تھا،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک مسکن (رہائش)
ہر صورت میں دینا ہو گی اور نفقہ اس صورت میں دینا ہو گا۔
جب حاملہ ہو امام لیث رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا یہی نظریہ ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک نان ونفقہ اور مسکن صرف حاملہ ہونے کی صورت میں ملے گا۔
اس کے بغیر نہیں،
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ،
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کا یہی مسلک ہے اور یہی درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3697   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3699  
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں، میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا، تو اس نے مجھے بتایا کہ میرے مخزومی خاوند نے، مجھے طلاق دے دی، اور پورا خرچ دینے سے انکار کر دیا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے لیے نفقہ نہیں ہے، خاوند کے گھر سے منتقل ہو جا، اور ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں چلی جا، اور وہاں رہ، کیونکہ وہ نابینا آدمی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3699]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس قدر مرد کے لیے عورت کو دیکھنے کی پابندی ہے،
اسی قدر شدت کے ساتھ عورت پر پابندی نہیں ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں عدت گزارنے کی تلقین کی۔
کیونکہ وہ اندھا ہونے کی وجہ سے اس کو دیکھ نہیں سکیں گے۔
اس لیے وہ وہاں پردہ اتارسکے گی اور وہ خود ان کو نظرشہوت سے نہ دیکھے اور فتنہ انگیز نظرنہ ڈالے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3699   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3704  
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن حفص بن مغیرہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ یمن روانہ ہوا، اور اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کو آخری طلاق جو باقی رہ گئی تھی بھیج دی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو اسے نفقہ دینے کا کہہ دیا، تو ان دونوں نے اسے کہا، اللہ کی قسم! تجھے صرف حاملہ ہونے کی صورت میں نفقہ ملے گا، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کی بات آپﷺ کو بتائی۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3704]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فائدہ عام لوگوں کا نظریہ،
یہ تھا کہ مطلقہ ثلاثہ کو سکنی ملے گا۔
اور نفقہ نہیں ملے گا،
اس لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اس کو نفقہ نہیں ملنا ہے،
تو پھر روکنے کا سبب کیا ہے اور سکنی اور نفقہ میں فرق کرنے کی دلیل کون سی ہے؟ اور آیت سے استدلال اس طرح ہے کہ آیت کا آخری حصہ گھر میں روکنے کا سبب یہ بیان کرتا ہے ممکن ہے ایک گھر میں رہنے سے رجوع کی صورت بن سکے اور تیسری طلاق کے بعد تو رجوع کا امکان ہی نہیں رہتا اس لیے سکنی اس کو کس بنیاد پر ملے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3704   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3713  
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ نے عیاش بن ابی ربیعہ کے ذریعہ مجھے طلاق بھیجی اور اس کے ہاتھ پانچ صاع کھجور اور پانچ صاع جو بھی بھیجے، میں نے پوچھا، کیا مجھے یہی خرچ ملے گا؟ اور میں تمہارے مکان میں عدت نہیں گزار سکوں گی، اس نے جواب دیا، نہیں، تو میں نے اپنے کپڑے درست کیے، اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو آپﷺ نے پوچھا: اس نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟ میں نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3713]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے یہ بات معروف تھی کہ مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنی نہیں ہے اس لیے یہ بات عیاش بن ابی ربیعہ نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہی اور اس کے مکان چھوڑنے کا اشارہ کرنے پر وہاں سے منتقل ہونا چاہا۔
اس لیے یہ کہنا وہ تیز طبیعت کی مالک تھی یا زبان دراز تھی یا اپنے دیوروں کو تنگ کرتی تھی۔
اس لیے آپﷺ نے اس کو رہائش چھوڑنے کا حکم دیا درست نہیں ہے۔
اگر یہ سبب تھا تو پھر اس بات کی شکایت خاوند کے گھروالوں کو کرنی چاہیے تھی مزید برآں اس کا مکان الگ تھا جیسا کہ حدیث نمبر53 سے محسوس ہوتا ہے،
اس لیے یہ سبب کیسے بن گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3713