Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب النكاح
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
13. بَابُ : كَرَاهِيَةِ تَزْوِيجِ الزُّنَاةِ
باب: زناکار عورت سے شادی کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3232
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تُنْكَحُ النِّسَاءُ لِأَرْبَعَةٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں سے شادی چار چیزیں دیکھ کر کی جاتی ہے: اس کا مال دیکھ کر، اس کی خاندانی وجاہت (حسب) دیکھ کر، اس کی خوبصورتی دیکھ کر اور اس کا دین دیکھ کر، تو تم دیندار عورت کو پانے کی کوشش کرو ۱؎، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 15 (5090)، صحیح مسلم/الرضاع 15 (1466)، سنن ابی داود/النکاح 2 (2047)، سنن ابن ماجہ/النکاح 6 (1858)، (تحفة الأشراف: 14305)، مسند احمد (2/428)، سنن الدارمی/النکاح 4 (22116) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ دیندار عورت مالدار بھی ہو سکتی ہے، حسب والی بھی ہو سکتی ہے اور خوبصورت بھی ہو سکتی ہے لیکن بدکار نہیں ہو سکتی، ورنہ پھر اسے دیندار نہ کہیں گے۔ لیکن دیندار نہیں ہے تو مالدار عورت بھی بدکار ہو سکتی ہے، حسب والی بھی زانیہ ہو سکتی ہے اور جمال والی بھی بدکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے دیندار عورت کے مقابل میں گرچہ ان سے شادی جائز ہے مگر اس جواز کی حیثیت مکروہ کی ہو گی، اسی بنا پر صاحب کتاب نے «کراہیۃ تزویج الزناۃ» کا عنوان قائم کیا ہے۔ ۲؎: یعنی اگر ایسا نہ کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3232 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3232  
اردو حاشہ:
1) اس روایت میں صراحتاً تو زنا کار عوتوں سے نکاح کا ذکر نہیں، البتہ آپ کا فرمان: دین والی کو حاصل کر کا نتیجہ یہی ہے کہ زانیہ سے نکاح نہ کیا جائے کیونکہ وہ دین والی نہیں۔ دین والی سے مراد دین کے واجبات وجواہی کی پابند عورت ہے۔
(2) ہر معاملے میں دین دار لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے کہ ان کے اخلاق، عادات اور فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
(3) حسب و نسب، جمال اور مال دار خاتون سے شادی کرنا ممنوع نہیں بلکہ اہم صفت دین دار کو اہمیت نہ دینا معیوب ہے۔ دین داری کے ساتھ اگر باقی صفات بھی ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن ایک دین دار خاتون کا رشتہ محض اس بنا پر ٹھکرا دینا کہ وہ مال دار یا حسب ونسب والی نہیں، درست نہیں ہے۔
(4) کلمات کا وہی مفہوم مراد لیا جائے گا جو معاشرے میں رائج ہے، وہ اچھا ہو یا برا۔ ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھا جائے گا، جیسے تربَت يداكَ اور ثكلتكَ أمكَ وغیرہ۔ بظاہر الفاظ سے بددعائیہ کلمات ہیں مگر ان کا ظاہری مفہوم مراد نہیں۔
(5) آدمی کو مستقبل اور انجام کار سوچ کر کسی کام کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ نیک عورت کی وجہ سے آدمی مستقبل میں سعادت مند ہوگا کیونکہ وہ خاوند کے گھر، اہل، مال اور اس کی عزت کی حفاظت کرے گی، نیز اطاعت اور فرمابرداری کو اپنی سعادت سمجھے گی۔ اس کے برعکس غیر صالح عورت بہت سی پریشانیوں کا باعث بنے گی۔
(6) لوگوں کی اکثریت نکاح کے لیے انتخاب میں غلطی کرتی ہے۔ یہ اکثریت دلیل نہیں بن سکتی۔ درست معیار وہی ہے جو شریعت نے مقرر فرمایا، یعنی دینداری کو ترجیح۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3232   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 827  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے نکاح چار اسباب و وجوہ سے کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنا پر۔ پس تو دیندار سے ظفر مند (نکاح کر) ہو۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ (بخاری و مسلم) نیز باقی ساتوں نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 827»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب الأكفاء في الدين، حديث:5090، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح ذات الدين، حديث:1466، وأبوداود، النكاح، حديث:2047، والنسائي، النكاح، حديث:3232، وابن ماجه، النكاح، حديث:1858، والترمذي: لم أجده، وعند حديث جابر رضي الله تعالي عنه، حديث:1086، وأحمد:2 /428.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی کے لیے ہر صورت میں دین دار عورت کا انتخاب کرنا چاہیے۔
کسی کے مال و دولت یا حسن و جمال پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عورت محض بیوی نہیں ہوگی بلکہ بچوں کی ماں بھی ہوگی۔
اور ظاہر ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تربیت اسی وقت کر سکے گی جب خود نیک اور دین سے وابستہ ہوگی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 827   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2047  
´دیندار عورت سے نکاح کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنا پر کیا جاتا ہے: ان کے مال کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کی خوبصورتی کی بنا پر، اور ان کی دین داری کے سبب، تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بن جاؤ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2047]
فوائد ومسائل:
جملہ (تربت يداك) تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں بدعا کےلئے نہیں بلکہ عربی محاورے کے تحت دعا اور ترغیب کے مفہوم کا حامل ہے۔
کسی خاتون سے تعلق ازدواج میں اسی آخری نکتے کو اہمیت ہونی چاہیے۔
دیگر امور ضمنی اور اضافی ہیں۔
اگر حاصل ہوں تو فبہا اور یہ عظیم نعمت ہیں۔
ورنہ اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے اصل چیز دین داری کو نظرانداز کردیا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2047   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1858  
´نیک اور دیندار عورت سے شادی کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، ان کے مال و دولت کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی وجہ سے، اور ان کی دین داری کی وجہ سے، لہٰذا تم دیندار عورت کا انتخاب کر کے کامیاب بنو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1858]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح کا تعلق زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے اس لیے زندگی کا ساتھی تلاش کرنے میں کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایسا فرد ہو جس کے ساتھ زندگی خوش گوار ہو جائے۔

(2)
اچھی بیوی یا اچھے خاوند کی خواہش ایک جائز خواہش ہے تاہم اس انتخاب کا معیار درست ہونا چاہیے۔

(3)
اکثر لوگ ظاہری چیزوں کو افضلیت کا معیار سمجھتے ہیں۔
بہت سے لوگ مال دار خاندان میں شادی کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کی دولت میں حصے دار ہو سکیں، حالانکہ دولت ڈھلتی چھاؤں ہے۔
امیر آدمی دیکھتے دیکھتے مفلس ہو جاتے ہیں اور غریب آدمی کے دن پھر جاتے ہیں اور اسے دولت حاصل ہو جاتی ہے اس لیے دائمی تعلق قائم کرنے کے لیے یہ معیار قابل اعتماد نہیں۔

(4)
بہت سے لوگ معزز خاندان میں رشتہ کرنا پسند کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ دنیا میں معزز سمجھے جانے والے خاندان کا ہر فرد اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی اعلیٰ ہو۔

(5)
اکثر لوگ ظاہری حسن و جمال پر فریفتہ ہوتے ہیں لیکن یہ معیار انتہائی ناقابل اعتماد ہے کیونکہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ حسن میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔

(6)
اصل قابل اعتماد معیار نیکی اور تقویٰ ہے۔
نیک بیوی غریبی میں بھی باوقار رہتی ہے اور امارت میں مغرور ہو کر خاوند کی توہین نہیں کرتی اور نچلے خاندان کی عورت میں اکثر نخوت و تکبر کی بدعادت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے خاوند پر حکم چلانے کی کوششش کرتی ہے جس کی وجہ سے خاوند اور بیوی میں محبت پیدا نہیں ہو پاتی جو خوش گوار زندگی کے لیے ضروری ہے لیکن نیک بیوی جو خاوند کے حقوق و فرائض سے آگاہ ہے وہ اونچے خاندان کی ہو یا ادنیٰ خاندان کی، گھر کو جنت بنا دیتی ہے۔

(7) (تربت یداك)
کے لفظی معنی یہ ہیں:
تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے۔
یعنی تو مفلس ہو جائے، تیرے ہاتھ میں خاک کے سوا کچھ نہ رہے لیکن اہل عرب یہ محاورہ اس معنی میں نہیں بولتے بلکہ تعریف یا مذمت کے موقع پر یہ جملہ بولتے ہیں۔
یہاں تعریف مراد ہے کہ جسے نیک عورت مل گئی وہ قابل تعریف ہے کہ اس کی زندگی اچھی گزرے گی۔
اور نیکی میں تعاون کرنے والی نیک بیوی کی وجہ سے آخرت بھی اچھی ہو جائے گی اور ہر لحاظ سے اس کا بھلا ہو جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1858   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3635  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار بنیادوں یا اسباب کی بنا پر عورت سے نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی بنا پر، اس کے حسب و خاندان کی بنا پر، اس کے حسن و جمال کی خاطر اور اس کی دین داری کے سبب۔ تم دین دار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کرو۔ تمہارے ہاتھ خاک آ لود ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3635]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
لوگ عام طور پر نکاح کرتے وقت عورت کے حسن وجمال اور مال وخاندان کو دیکھتے ہیں اس کے دین واخلاق کی باری بالکل آخر میں آتی ہے۔
حالانکہ اسلامی رو سے اصل چیز عورت کا دین وایمان اور اس کا اخلاق ہے۔
دین کی بنیاد پر اگردوسری چیزیں بھی موجود ہوں تو نور علی نور ہے لیکن دین کو چھوڑ کر باقی خصائل یا وجوہ اسباب کو اختیار کرنا مرد کے لیے پریشانی کا باعث ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
عورت سے شادی محض حسن وجمال کی بنا پر نہ کرو کیونکہ ان کا حسن،
ان کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
نہ مال کی خاطر شادی کرو۔
مال سرکش اور طغیان کا سبب بن جاتا ہے۔
لیکن دین کی بنیاد پر شادی کرو،
دیندار سیاہ اور بد سلیقہ لونڈی بھی افضل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3635   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5090  
5090. سیدنا ابو ہریرۃ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: عورت سے چار خصلتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے: مال، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں! تم دیندار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5090]
حدیث حاشیہ:
(1)
نکاح کے موقع پر حسب ونسب کا خیال رکھنا مصالح اور فوائد سے خالی نہیں لیکن دینداری اور اخلاق و کردار کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
(2)
مال میں ہم پلہ ہونا کی ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جو ایک تاجر اور مال دار شخص تھے انھوں نے اپنی ہمشیر کا نکاح حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جو ایک حبشی غلام تھے۔
(سنن الدارقطني: 3/302)
اسی طرح حسب و نسب میں بھی ہم پلہ ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (جو کہ غلام تھے)
کا نکاح حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہما (جو ایک قریشی خاتون تھیں)
سے کر دیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔
(الأحزاب: 37)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5090