أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ" , قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟" فَقُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ:" فَهَلَّا بِكْرًا، تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3222
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”جابر! کیا تم مجھ سے اس سے پہلے ملنے کے بعد بیوی والے ہو گئے ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کیا کسی کنواری سے یا بیوہ سے؟“ میں نے کہا: بیوہ سے، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے شادی کیوں نہ کہ جو تمہیں کھیل کھلاتی؟۔“ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3222]
اردو حاشہ:
(1) تفصیلی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیوہ سے شادی کرنے کی وجہ بھی بیان کی ہے والدین فوت ہوچکے تھے اور گھر میں سات یا نو بہنیں تھیں۔ ان کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے تجربہ کار عورت چاہیے تھی۔ اس حسن نیت پر رسول اللہﷺ نے برکت کی دعا فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5367، وصحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 715)
(2) امام کو اپنے مقتدیوں کی خیر خبر رکھنی چاہیے۔
(3) جب ایک کام میں دو مصلحتیں باہم متضاد ہوں تو ان میں سے زیادہ اہم ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3222
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3228
´کیا چیز دیکھ کر عورت سے نکاح کیا جائے؟`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی پھر ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہو گئی تو آپ نے پوچھا: ”جابر! کیا تم نے شادی کی ہے؟“ جابر کہتے ہیں کہ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے یا بیوہ سے؟“ ۱؎ میں نے کہا: بیوہ سے، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے کیوں نہ کی؟ جو تجھے (جوانی کے) کھیل کھلاتی“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میری چند بہنیں میرے ساتھ ہیں، مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3228]
اردو حاشہ:
”تیرے ہاتھ“ یہ جملہ محاورے کے طور پر بولا جاتا ہے جس سے مراد بددعا نہیں ہوتی۔ اس طرح کے محاورے ہر زبان میں ہی پائے جاتے ہیں۔ باقی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3228
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4641
´بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: ”اسے ایک اوقیہ (۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو“، میں نے کہا: نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے)، آپ نے فرمایا: ”اسے مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4641]
اردو حاشہ:
مندرجہ ذیل فوائد و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اہم بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ اس باب کے تحت مذکور حدیث حدیثِ جابر کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے طرق ہیں، لہٰذا ان طرق کے لحاظ سے الفاظ کی کمی بیشی اور تفصیل واجمال سب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فوائد و مسائل تحریر کیے گئے ہیں۔
(1) سودا کرتے ہوئے اگر ایسی شرط لگائی جائے جو مقصودِ عقد کے منافی نہ ہو تو اس صورت میں بیع اور شرط جائز ہو گی، خواہ اس شرط سے خرید نے یا بیچنے والے کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔
(2) جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو اس سے اس چیز کا سودا کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث سفر میں سودا کرنے کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خرید و فروخت کے وقت، خریدار چیز کی قیمت بتا سکتا ہے کہ میں تمھاری چیز اتنی رقم میں خریدوں گا، یا تم مجھے اپنی فلاں چیز اتنی رقم کے عوض دے دو، اسی طرح سودا پکا ہونے سے پہلے، بیع (سودے) کی قیمت کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ نا جائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم کرانے کے لیے اپنا اثر ور سوخ اور منصب و اختیار استعمال کیا جائے اور مالک کو نقصان پہنچایا جائے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت بیع (سودا درست ہونے) کے لیے مبیع قبضے میں لینا شرط نہیں جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سودا کرکے مبیع، یعنی اونٹ اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ وہ مدینے تک سواری کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ہی رہا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے ایسا کرنا شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔
(4) عمر اور مرتبے میں بڑی شخصیت کو جائز معاملے میں ”نہیں“ کہا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے جواب میں پہلے کہا: یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں۔
(5) یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نیک اور صالح عمل کا اظہار کرنا جبکہ وہ افراط و تفریط اور فخر و ریا، نیز اپنی بڑائی بیان کرنے کی غرض سے نہ ہو شرعاً مباح اور جائز ہے۔ اگر ایسا کرنے کا مقصد اپنی نیکی اور پارسائی کا اظہار ہو یا بطور فخر ایسا کیا جائے تو یہ نا جائز اور انتہائی قبیح عمل ہے۔ اس سے احتراز کرنا ضروری اور واجب ہے۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے، بوقت ضرورت جانوروں کو مارنے کا جواز نکلتا ہے۔ اگرچہ جانور غیر مکلف ہیں، تا ہم ان کی ”اصلاح“ کے لیے انھین ”سزا“ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود، اپنے دستِ مبارکہ سے اونٹ کو مارا تھا۔ یہ یاد رہے کہ یہ طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے جب جانور تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے تنگ کر رہا ہو۔
(7) حاکم وقت، یا دیگر ذمہ داران کو اپنے ماتحت اشخاص کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے، نیز ہر وقت احساس کے جذبے سے معمور رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت جابر کے ساتھ۔
(8) قرض کی ادائیگی میں کسی دوسرے شخص کو وکیل بنانا درست ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ جابر کو ادائیگی کر دو۔ ثمن کا وزن کرنا مشتری کے ذمے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادھار چیز خریدنا شرعاً درست اور جائز ہے۔
(9) ضرورت کے وقت چوپائے مسجد کے صحن میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سازو سامان بھی مسجد کے صحن میں رکھا جا سکتا ہے۔
(10) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا عطیہ قبول کرنے سے پہلے، اس پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اونٹ کی بابت کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے لیکن آپ نے فرمایا: لا، بَلْ بعْنِيهِ ”نہیں (میں بلا قیمت قبول نہیں کرتا) بلکہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔“
(11) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے تبرکات کی حفاظت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: [لَمْ يُفارِقنِي فجعلْتُه في كِيسٍ] ”رسول اللہ ﷺ کی جانب سے زیادہ دیا ہوا قیراط مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوا، میں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال دیا۔“ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہے کہ تبرکات مستند ذریعے سے ثابت ہوں، خود ساختہ نہ ہوں، نیز تبرکات کے ناقلین بھی ثقہ ہوں، غیر معتبر لوگوں کے قصے کہانیوں پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
(12) حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت بھی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی فرماں برداری کرتے ہوئے، ذاتی ضرورت کے باوجود اونٹ آپ کو بیچ دیا۔
(13) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے معجزے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یاد رہے معجزے میں قدرت الہٰی کار فرما ہوتی ہے۔ اس میں انسانی اختیار نہیں ہوتا۔
(14) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے حسن اخلاق کا اثبات بھی بھی ہوتا ہے۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ صرف یہ کہ طے شدہ قیمت سے قیراط زیادہ دیا بلکہ وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ ’
(15) ”شرط لگا لی“ گویا ایسی شرط بیع کے پکا ہونے کے منافی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ احناف اس شرط کو مقتضائے عقد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شرط نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کے لیے رعایت تھی۔ کسی راوی نے غلطی سے شرط کہہ دیا لیکن احناف کی یہ توجیہ محدثین کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اکثر راوی شرط بیان کرتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4641
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4642
´بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے سینچائی کرنے والے اونٹ پر بیٹھ کر جہاد کیا، پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، پھر ایک چیز کا تذکرہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ تھک گیا تو اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا تو وہ تیز ہو گیا یہاں تک کہ سارے لشکر سے آگے نکل گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! تمہارا اونٹ تو لگ رہا ہے کہ بہت تیز ہو گیا ہے“، میں نے عرض کیا: آپ کے ذریعہ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4642]
اردو حاشہ:
(1) ”شام کے وقت گھر پہنچ جانا“ یعنی رات کو گھر نہ جانا کیونکہ لمبے سفر کے بعد رات کے وقت گھر واپسی منع ہے کیونکہ غالب گمان یہ ہے کہ بیوی سادہ حالت میں ہو گی، صفائی وغیرہ نہ کی ہو گی، غسل بھی نہ کیا ہو گا۔ دیر کے بعد واپسی ہو تو جماع کی خواہش قدرتی بات ہے اور یہ حالت جماع کے لیے مناسب نہیں، لہٰذا شام سے پہلے گھر جائے تا کہ رات بیوی کو غسل، صفائی اور زینت کا موقع مل جائے۔ مرد زیادہ خوش ہو گا۔
(2) اس حدیث کے تفصیلی فوائد سابقہ حدیث: 4641 کے تحت ذکر ہو چکے ہیں، وہاں ملا حظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4642
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4643
´بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو؟“ میں نے عرض کیا: میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لیے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4643]
اردو حاشہ:
(1) ”قیراط“ دینار کا بیسواں حصہ یا جدیدد اعشاری نظام کے مطابق 1۔255 ملی گرام کا ہوتا ہے۔
(2) ”جدا نہیں ہو گا“ رسول اللہ ﷺ کا تبرک تھا۔
(3) ”حرہ والے دن“ یہ یزید کے دور کی بات ہے۔ مدینے والوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد یزید کی بیعت توڑ دی تھی۔ یزید نے سزا دینے کے لیے شام سے لشکر بھیجا۔ اہل مدینہ سے حرہ کے پتھریلے میدان میں لڑائی ہوئی۔ مدینے والوں کو شکست ہوئی۔ شامی لشکر نے خوب خون ریزی کی۔ اور مدینہ منورہ میں لوٹ مار کی۔ صحابہ تک کی توہین کی۔ اسی غدر میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی ان وحشیوں نے وہ ”تبرک“ لوٹ لیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4643
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4645
´بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، میں سینچائی کرنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے“، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہی ہے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے“، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ ہی ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4645]
اردو حاشہ:
(1) وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ آپ کا بار بار فرمانا دراصل اس کو زیادہ دعا دینے کے لیے تھا اور شفقت کے طور پر بھی۔ یہ جملہ دعائیہ ہے۔ مسلمانوں کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص دوسرے کو کسی بات کا حکم دیتا یا اس سے کوئی معاملہ کرتا تو اس وقت یہ دعائیہ جملے بولا کرتا تھا۔ یہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے فضیلت کی بات ہے۔ رضي الله عنه و أرضاه۔
(2) ایک ہی واقعہ اسانید کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام تفصیلات و جزئیات واضح ہو جاتی ہیں اور لفظی فرق کا پتا بھی چل جاتا ہے۔ جب روایات میں لفظی فرق ہو تو کسی ایک فریق کا لفظ سے استد لال کرنا کمزور ہو جاتا ہے، جیسے اس حدیث میں اختلاف ہے کہ مدینہ منورہ تک استدلال کی شرط حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیع میں لگائی تھی یا رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ رعایت فرمائی تھی لہٰذا شرط پر استدلال کمزور ہو جائے گا، البتہ امام بخاری جیسے عظیم محدث نے فیصلہ فرمایا ہے کہ شرط لگانے کے الفاظ زیادہ اور قوی ہیں، اس لیے ترجیح اسی کو ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4645
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3637
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے ایک عورت سے شادی کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تو نے شادی کر لی ہے؟“ میں نے کہا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کنواری لڑکیوں اور ان کی ملاعبت (ہنسی مذاق) سے کیوں غافل رہے؟“ شعبہ کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار کو سنائی تو اس نے کہا میں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا: ”دوشیزہ سے شادی کیوں نہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3637]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عَذَاريٰ:
عَذْرَاء کی جمع ہے۔
کنواری دوشیزہ کو کہتے ہیں،
لِعَاب کے لام پر اگر کسرہ (زیر)
پڑھیں تو یہ لَاعَبَ کا مَلاَعبَہ کے معنی میں مصدر ہوگا۔
مراد باہمی پیارو محبت کا اظہار ہے اور اگر لام پر پیش پڑھیں تو مراد ہو گا بوس و کنار۔
اس کا لُعاب دہن چوسنا،
لیکن معلوم ہوتا ہے،
عمروبن دینار سے اس کو لُعاب ہی قرار دیا تھا۔
اس لیے اس پر اعتراض کیا اور اپنے الفاظ سنائے۔
اور یہ عورت حضرت سہلہ بنت مسعود رضی اللہ عنہما تھیں جو انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتی تھیں اور یہ واقعہ غزوہ تبوک یا ذات الرقاع سے واپسی پر پیش آیا۔
(یعنی سوال،
جواب کا)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3637
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3638
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے والد عبداللہ فوت ہو گئے اور نو یا سات بیٹیاں چھوڑ گئے تو میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی، اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے جابر! تو نے شادی کر لی ہے؟“ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کنواری ہے یا بیوہ؟“ میں نے کہا: وہ تو بیوہ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا: ”دوشیزہ سے شادی کیوں نہ کی، تو اس سے کھیلتا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3638]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کنواری عورت سے شادی کرنا بہتر ہے،
کیونکہ اس کا کسی پہلے خاوند سے واسطہ نہیں پڑا ہوتا،
جس کے ساتھ بسا اوقات اس کا دل ملا ہوتا ہے اور اس کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔
جس کے سبب وہ دوسرے خاوند کو پورا پورا مقام نہیں دے سکتی لیکن کسی مصلحت اورحکمت کے تحت بیوہ سے شادی کرنا بہتر ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سات یا چھ بہنیں کنواری تھیں اور دویا تین شادہ شدہ تھیں اس لیے بعض جگہ نو آیا ہے اور بعض جگہ سات یا چھ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3638
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3640
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، ہم ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو جب ہم واپس آئے، تو میں نے اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز کرنا چاہا۔ تو مجھے پیچھے سے ایک سوار ملا، اور اس نے اپنی چھڑی سے اسے کچوکا لگایا، تو میرا اونٹ انتہائی تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ جتنا تیز رفتار اونٹ کبھی تو نے چلتے دیکھا ہو گا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے جابر!... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3640]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
قَطُوْفٍ:
سست رفتار۔
(2)
شَعِثَةُ:
پراگندہ بال۔
(3)
مُغِيْبَةُ:
جس کا شوہر غائب ہو۔
(4)
اَلْكَيْسَ:
جماع،
اولاد طلب کرنا،
عقل ودانش،
حزم واحتیاط اور نرمی وقناعت اور سکون وٹھہراؤ۔
فوائد ومسائل:
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھڑی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے لی تھی اس پر کچھ پڑھا تھا اور اس کے منہ پر پانی بھی چھڑکا تھا اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر خاوند کچھ مدت کے بعد گھر آئے اور اس کی آمد کا وقت معلوم نہ ہو تو وہ آمد کی اطلاع دے کر کچھ توقف کرے تاکہ عورت کو اپنے بناؤسنوار کا موقع مل جائے،
اس صورت میں رات کو بھی گھرجا سکتا ہے،
اگرآنے کا وقت معلوم ہو تو پھر توقف اورانتظار کی ضرورت نہیں ہے اور کسی وقت بھی گھر میں داخل ہو سکتا ہے اور بیوی کے پاس جاتے وقت حزم واحتیاط اور سکون واطمینان کو اختیار کرے گا۔
عجلت بازی اور تیزی اختیار نہیں کرے گا کیونکہ اصل مقصد اولاد کا حصول ہو گا محض پانی کا بہانا مقصد نہیں ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3640
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3641
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا اونٹ سست رفتار چلنے لگا، میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”جابر ہو؟“ میں نے عرض کیا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا معاملہ ہے؟“ میں نے عرض کیا، میرا اونٹ آہستہ آہستہ چلنے لگا ہے وہ تھک گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور اسے خمیدہ چھڑی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3641]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہی ایک اونٹ تھا جس سے وہ پانی ڈھونے کا کام لیتے تھے،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتکرار واصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت قیمت دی،
اس لیے اب اس کو واپس لینا پسند نہیں تھا اور یہ خطرہ بھی تھا کہ اس کی سست رفتاری لوٹ نہ آئے،
یا وہ سمجھتے تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کےساتھ قیمت بھی دیں گے اور دونوں چیزیں لینا مناسب نہیں ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جو ایک قیراط زیادہ دلوایا تھا وہ اس کو ہمیشہ اپنی تھیلی میں رکھتے تھے حتی کہ وہ واقعہ حرہ میں ضائع ہو گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3641
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3642
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں چل رہے تھے اور میں پانی پلانے والے اونٹ پر سوار تھا۔ جو سب لوگوں کے پیچھے تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی چیز سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی مارا یا کچوکا لگایا تو وہ اس کے بعد سب لوگوں سے آ گے نکلنے لگا۔ وہ میرے روکنے پر مجھ سے کشمکش کرتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”کیا تم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3642]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ نکاح سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں مجلس نکاح قائم کرنے اور اس میں دوست واحباب یاعلماء اور مشائخ کو دعوت دینے کا رواج اور اہتمام نہ تھا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا،
”تم نےشادی کرلی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خصوصی تعلق اور رابطہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی خبر سن کر ان کے لیے دعائے خیر بھی کی،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک کوئی محبوب اورمحترم اور با برکت شخصیت نہ تھی۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ نہیں فرمایا:
بھائی تم نے مجھے کیوں دعوت نہ دی۔
اگر یہ شرعاً مطلوب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اہتمام کی تلقین وتاکید فرماتے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم یا کپڑوں پر زرد رنگ کی چھاپ دیکھ کر پوچھا:
اور ان کےبتانے پر اس کو برکت کی دعا دی،
کیونکہ شریعت میں اصل مطلوب نکاح میں سہولت اور آسانی پیداکرنا ہے اور فریقین کوخرچہ کی مشقت سے بچانا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3642
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4098
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سفر کر رہے تھے، جو چلتے چلتے تھک چکا تھا، تو میں نے چاہا کہ اس کو چھوڑ دوں، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دعا کی اور اسے مارا، تو وہ اس قدر تیز چلنے لگا، اس قدر تیز کبھی نہیں چلا تھا، آپﷺ نے فرمایا: ”مجھے یہ ایک اوقیہ میں بیچ دو،“ میں نے کہا، نہیں، آپﷺ نے پھر فرمایا، ”یہ مجھے بیچ دو۔“ تو میں نے آپﷺ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4098]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أراد أن يسيبه:
اسے چھوڑ دینے اور آزاد کر دینے کا ارادہ کیا۔
(2)
حملانه:
اس پر سوار ہونا۔
(3)
ما كستك:
قیمت کم لگانا۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت جابر اور اس کے اونٹ کے حق میں دعا فرمائی،
اور اسے کچوکا بھی لگایا،
تو آپﷺ کی دعا اور کچوکے کی برکت سے اونٹ بہت تیز چلنے لگا،
تو آپﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیار و محبت کا اظہار کرنے کے لیے اونٹ خریدنے کی خواہش کا اظہار فرمایا،
اور اس کی قیمت بھی لگا دی،
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے تحفہ دینے کی پیشکش کر دی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمتاً لینے پر اصرار کیا،
اور قیمت میں اضافہ فرماتے رہے،
اس لیے اس قیمت میں بہت اختلاف واقع ہوا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اوقیہ (چالیس درہم)
کو ترجیح دی ہے،
کیونکہ اکثر راویوں سے یہی منقول ہے،
آخر کار حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ فروخت کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے،
اور عرض کی،
کہ میں ہی اس پر سوار ہو کر مدینہ جاؤں گا،
اور وہیں جا کر قیمت وصول کروں گا،
آپﷺ نے ان کی اس بات کو قبول کر لیا۔
اس حدیث سے امام احمد،
امام اسحاق،
امام اوزاعی وغیرہم محدثین نے اس قسم کی شرط کے جواز پر استدلال کیا ہے،
کیونکہ یہ شرط استثناء کے حکم میں ہی ہے،
کیونکہ مسافت معلوم اور متعین تھی،
اور احناف کے موقف کے مطابق ایسی شرط لگانا جائز ہے،
جريٰ بها التعامل،
لوگوں میں جس کا رواج ہو،
تکملہ ج 1،
ص 629،
اور ص 635 اور یہ شرط ایسی ہے،
نیز یہ شرط مقتضائے عقد کے منافی نہیں ہے،
کیونکہ اس میں کسی قسم کا نقصان،
دھوکا یا ظلم و زیادتی نہیں ہے،
بلکہ اس حدیث کے مطابق ہے،
جس سے اس کے مخالفین استدلال کرتے ہیں،
(نهي النبي صلي الله عليه وسلم عن الثنيا الا ان يعلم)
”کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نامعلوم یا مجہول استثناء سے منع فرمایا۔
“ جس کا مطلب ہوا،
معلوم استثناء جائز ہے،
اس لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی شرط لگانے کے بعد آپ نے فرمایا،
انقرناك ظهرة يا تبليغ عليه الي اهلك،
کہ ہم نے تیری شرط کو قبول کر لیا،
ہم تمہیں اس کی پشت پر سوار ہونے یا اس پر گھر پہنچنے کی اجازت دیتے ہیں،
باقی رہا یہ مسئلہ کہ آپﷺ کا مقصد سودا کرنا تھا ہی نہیں،
تو یہ بات آپ کے ذہن میں تو ہو سکتی ہے،
حضرت جابر کو یہ معلوم نہ تھا،
ائمہ ثلاثہ،
امام ابو حنیفہ،
امام مالک اور امام شافعی نے،
اس حدیث کو تبرع اور احسان پر محمول کیا ہے،
شرط تسلیم نہیں کیا،
حالانکہ اس روایت میں شرط کا تذکرہ موجود ہے،
اس لیے آج کل اس پر عمل ہے،
جیسا کہ خود علامہ تقی نے اعتراف کیا ہے،
اس لیے حنبلی موقف کو قبول کر لینے کی تلقین کی ہے۔
(تکملہ ج 1،
ص 636)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4098
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4100
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، جبکہ میں پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا، جو تھک چکا تھا، اور تقریبا چلنے سے عاجز آ چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پوچھا، ”تمہارے اونٹ کو کیا ہوا؟“ میں نے عرض کیا، وہ بیمار ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے ہو کر اس کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، تو پھر وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4100]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آج کل مشینی اشیاء کی خرید و فروخت میں یہ شرط لگائی جا رہی ہے کہ اتنے عرصہ تک اگر اس مشین (پنکھا،
فرج،
کپڑے دھونے کی مشین،
ائیر کنڈیشن وغیرہ)
میں خرابی پیدا ہو گی تو اس کی اصلاح و درستی یا مرمت کا ذمہ دار دوکاندار ہو گا،
اور اس شرط پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا،
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اگر کسی شرط سے ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہے،
لیکن اس میں غرر،
ضرر،
سود یا نزاع کا خطرہ نہیں ہے،
تو وہ شرط صحیح ہو گی،
علامہ تقی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ (فان هذا الشرط جائز لشيوع التعامل بها)
تو یہ شرط جائز ہے کیونکہ اس پر معاملہ کرنا رواج پا چکا ہے۔
(تکملة «ج 1،
ص 635)
یہ واقعہ جنگ تبوک یا غزوہ ذات الرقاع میں پیش آیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4100
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4105
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ دو اوقیہ اور ایک درہم یا دو درہم میں خریدا، تو جب آپﷺ (مدینہ کے قریب) صرار نامی جگہ پر پہنچے، تو آپﷺ کے حکم سے گائے ذبح کی گئی، سب نے اسے کھایا، تو جب ہم مدینہ پہنچے، آپﷺ نے مجھے، مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا، اور مجھے اونٹ کی قیمت تول دی اور پلڑا جھکا کر دی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4105]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
سفر سے واپسی پر،
مسجد میں دو رکعت پڑھنا بہتر ہے،
یا مسجد میں پہنچ کر دو رکعت پڑھنا چاہیے،
کیونکہ،
وہ اپنے گھر پہنچنے کے بعد آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے،
یہ نہیں ہے کہ ابھی گھر گئے ہی نہیں تھے،
نیز یہ بھی ثابت ہوا،
اپنے طور پر کسی کو قیمت سے زیادہ ادا کرنا پسندیدہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4105
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2309
2309. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ کون ہے:“ میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: ” کیا ماجرا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا: ”تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ مجھے دو۔“ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔“ جب ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2309]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔
مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔
الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔
امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر ؓ سے چھین لیا تھا۔
حضرت جابر ؓ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
اس حدیث سے آیت قرآنی ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ﴾ کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ ﷺ کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔
آپ نے حضرت جابر ؓ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔
اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر ؓ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔
اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔
آپ نے حضرت جابر ؓ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔
معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔
حضرت جابر ؓ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔
حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔
مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:
فیه حدیث جابر و هو حدیث مشهور احتج به أحمد ومن وافقه في جواز بیع الدابة و یشترط البائع لنفسه رکوبها یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔
امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔
اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔
اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی ؒدوسری جگہ فرماتے ہیں:
و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا:
وَاعْلَمْ أَنَّ فِي حَدِيثِ جَابِرٍ هَذَا فَوَائِدَ كَثِيرَةً إِحْدَاهَا هَذِهِ الْمُعْجِزَةُ الظَّاهِرَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْبِعَاثِ جَمَلِ جَابِرٍ وَإِسْرَاعِهِ بَعْدَ إِعْيَائِهِ الثَّانِيَةُ جَوَازُ طَلَبِ الْبَيْعِ مِمَّنْ لَمْ يَعْرِضْ سِلْعَتَهُ لِلْبَيْعِ الثَّالِثَةُ جَوَازُ الْمُمَاكَسَةِ فِي الْبَيْعِ وَسَبَقَ تَفْسِيرُهَا الرَّابِعَةُ اسْتِحْبَابُ سُؤَالِ الرَّجُلِ الْكَبِيرِ أَصْحَابَهُ عَنْ أَحْوَالِهِمْ وَالْإِشَارَةِ عَلَيْهِمْ بِمَصَالِحِهِمْ الْخَامِسَةُ اسْتِحْبَابُ نِكَاحِ الْبِكْرِ السَّادِسَةُ اسْتِحْبَابُ مُلَاعَبَةِ الزَّوْجَيْنِ السَّابِعَةُ فَضِيلَةُ جَابِرٍ فِي أَنَّهُ تَرَكَ حَظَّ نَفْسِهِ مِنْ نِكَاحِ الْبِكْرِ وَاخْتَارَ مَصْلَحَةَ أَخَوَاتِهِ بِنِكَاحِ ثَيِّبٍ تَقُومُ بِمَصَالِحِهِنَّ الثَّامِنَةُ اسْتِحْبَابُ الِابْتِدَاءِ بِالْمَسْجِدِ وَصَلَاةِ رَكْعَتَيْنِ فِيهِ عِنْدَ الْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ التَّاسِعَةُ اسْتِحْبَابُ الدَّلَالَةِ عَلَى الْخَيْرِ الْعَاشِرَةُ اسْتِحْبَابُ ارجاح الميزان فيما يدفعه الحادية عشر أَنَّ أُجْرَةَ وَزْنِ الثَّمَنِ عَلَى الْبَائِعِ الثَّانِيَةَ عَشْرَةَ التَّبَرُّكُ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ لِقَوْلِهِ لَا تُفَارِقُهُ زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّالِثَةَ عَشْرَةَ جَوَازُ تَقَدُّمِ بَعْضِ الْجَيْشِ الرَّاجِعِينَ بِإِذْنِ الْأَمِيرِ الرَّابِعَةَ عَشْرَةَ جَوَازُ الْوَكَالَةِ فِي أَدَاءِ الْحُقُوقِ وَنَحْوِهَا وَفِيهِ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا سبق والله أعلم (نووی)
یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔
اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔
دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔
تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔
چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔
پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔
چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔
ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔
آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔
نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔
دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ (یابصورت نقد کچھ زیادہ)
دینا مستحب ہے۔
گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔
بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔
تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔
چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔
آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر ؓ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت ﷺ نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔
اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کردیا ہے۔
پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔
ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔
اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔
کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔
حضرت جابر ؓ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔
مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔
اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔
ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر ؓ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔
شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔
ثم آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2309
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2385
2385. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک جنگ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا آپ نے میرے اونٹ کے متعلق پوچھا: ”تم اسے کیسا پارہے ہو؟ کیا تم اسے میرے ہاتھ بیچتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپ کو فروخت کردیا۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میں آپ کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس کی قیمت ادا کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2385]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ معاملہ ادھار کرنا بھی درست ہے مگر شرط یہ کہ وعدہ پر رقم ادا کردی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2385
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2470
2470. ابو المتوکل کہتے ہیں۔ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ مسجد میں تشریف فر تھے اس لیے میں بھی مسجد میں چلا گیا اور اپنے اونٹ کو (مسجد کے سامنے)بچھے ہوئے پتھروں کے کنارے باندھ دیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپ کا اونٹ آپ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے پاس گھومنے لگے پھر فرمایا: ”قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہوئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2470]
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش تھا۔
اسی کو بلاط کہتے تھے۔
اسی جگہ اونٹ باندھنا مذکو رہے اور دورازے کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔
حافظ نے کہا اس حدیث کے دوسرے طریق میں مسجد کے دوازے کا بھی ذکر ہے۔
امام بخاری نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2470
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2718
2718. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہے تھے جو تھک چکا تھا۔ نبی ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے اس اونٹ کو مارا اور اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ اتنا تیز چلنے لگا کہ اس جیسا کبھی نہیں چلا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”تم اسے ایک اوقیے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔“ میں نے عرض کیا: نہیں آپ نے دوبارہ فرمایا: ”ایک اوقیے کے عوض یہ اونٹ مجھے فروخت کر دو۔“ چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ اسے فروخت کر دیا لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس کی قیمت مجھے نقد ادا کردی لیکن جب میں واپس ہو نے لگا تو آپ نے میرے پیچھے آدمی بھیجا۔ (میرے پہنچنے پر)آپ نے فرمایا: ”میں تو تمھارا اونٹ لینا نہیں چاہتا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ یہ تمھارا ہی مال ہے۔“ شعبہ کی روایت کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2718]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کی وسعت علم یہاں سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طریق ان کو محفوظ تھے۔
حاصل ان سب روایات کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اکثر روایتوں میں سواری کی شرط کا ذکر ہے، جو ترجمہ باب سے معلوم ہوا کہ بیع میں ایسی شرط لگانا درست ہے۔
امام بخاری ؒ کے بعد ہمارے شیخ حافظ ابن حجر ؒ کا مرتبہ ہے۔
شاید کوئی کتاب حدیث کی ایسی ہو جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو اور صحیح بخاری تو الحمد کی طرح ان کو یاد تھی۔
یا اللہ! ہم کو عالم برزخ میں امام بخاری اور ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر کی زیارت نصیب کر اور حقیر محمد داؤد راز کو بھی ان بزرگوں کے خادموں میں شمار فرمانا۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2718
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4052
4052. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ”اے جابر! تم نے شادی کی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟“ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: ”بہتر تھا کہ کنواری سے شادی کرتے تاکہ وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں، وہ میری نو بہنیں ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور اان جیسی ناتجربہ کار لڑکی اپنے گھر لے آؤں، لہذا میں نے شادی کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی اور ان کی نگہداشت کا فریضہ بھی ادا کرتی رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4052]
حدیث حاشیہ:
حضرت جابر ؓ رسول کریم ﷺ کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔
قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کی جابر ؓ پر نظر عنایت ہے۔
اگر جابر ؓ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت ﷺ خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے۔
اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4052
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5245
5245. سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا۔ جب ہم وآپس آئے تو میں اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس دوران میں میرے پیچھے سے ایک سوار میرے قریب آیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اس قدر جلدی کیوں کررہے ہو؟“ میں نے عرض کی: میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کنواری عورت سے شادی کی ہے یا شوہر دیدہ کو بیاہ لائے ہو؟“ میں نے کہا: بیوہ سے نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہ شادی کی تاکہ تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے اور وہ تیرے ساتھ کھیلتی؟ سیدنا جابر ؓ نے کہا: پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے اور اپنے گھروں میں جانا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ذرا ٹھہر جاؤ، رات ہونے کے بعد گھر جانا تاکہ پراگندہ بالوں والی کنگھی کرلیں اور جن کے خاوند ٖغائب تھے وہ زیر ناف بال صاف کرلیں“ راوی کہتا ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5245]
حدیث حاشیہ:
دوسرے لوگوں نے کہا کہ الکیس الکیس سے یہ مراد ہے کہ خوب خوب جماع کیجیو۔
جابر کہتے ہیں کہ جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں نے اپنی جورو سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے۔
اس نے کہا کہ بخوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بجا لاؤ۔
چنانچہ میں ساری رات اس سے جماع کرتا رہا۔
اس فرمان سے اشارہ اسی طرف تھا کہ جماع کرنا اور طلب اولاد کی نیت رکھنا۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5245
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5367
5367. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہوئے تو انہوںنے سات یا نو بیٹیاں چھوڑیں۔ میں نے ایک شوہر دیدہ عورت سے نکاح کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے جابر! کیاتم نے شادی کرلی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے اپنا دل بہلاتی تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی؟ میں نے عرض کی: (میرے والد گرامی) سیدنا عبداللہ ؓ شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے کچھ بیٹیاں چھوڑ گئے۔ میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ ان کے پاس ان جیسی (کوئی با تجربہ کار) لے آؤں اس لیے میں نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو انکی نگہداشت اور اصلاح کرتی رہے یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت دے یا تمہیں بھلائی نصیب کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5367]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شادی کے لیے عورت کے انتخاب میں بہت کچھ سوچ بچار کرنا ضروری ہے۔
محض ظاہری حسن دیکھ کر کسی عورت پر فریفتہ ہو جانا عقلمندی نہیں ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے بہت برکت دی۔
ان کا قرض بھی سب ادا کر دیا ہمیشہ خوش رہے اور ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر رہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5367
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6387
6387. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا بیٹیاں چھوڑی تھیں۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو نبی ﷺ نے پوچھا: ”اے جابر! کیا تو نے شادی کرلی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟“ میں نے کہا: شوہر دیدہ عورت سے۔ آپ نے فرمایا: کسی کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا تو اس سے دل لگی کرتا اور وہ تجھ سے دل لگی کرتی؟ یا تو اسے ہنساتا اور وہ تجھے ہنساتی؟ میں نے کہا: میرے والد جب شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ ان کے ہاں ان جیسی کوئی ناتجربہ کار لے آؤں چنانچہ میں نے ایسی عورت سے نکاح کیا ہے جو ان کی دیکھ بھال کا اہتمام کرے۔ آپ نے دعا کی: اللہ تمہیں بھرپور برکت عطا فرمائے۔ ابن عینیہ اور محمد بن مسلم نے عمرو سے یہ روایت بیان کی تو اس میں باركَ اللہ علیكَ کے الفاظ نہیں کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6387]
حدیث حاشیہ:
شادی میں بھی جذبات سے زیادہ دوراندیشی کی ضرورت ہے۔
حضرت جابر کا یہ واقعہ عبرت ونصیحت کے لئے کافی ہے۔
اللہ ہرمسلمان کو سمجھنے کی توفیق دے۔
اپنی بہنوں کی پرورش کرنا بھی ایک بڑی سعادت مندی ہے۔
اللہ ہر جوان کو ایسی توفیق بخشے آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6387
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2097
2097. حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت انھوں نے فرمایاکہ میں کسی جنگ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا میرے اونٹ نے چلنے میں سستی کی اور تھک گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "جابر ہو؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "تیرا کیا حال ہے؟"میں نے عرض کیا: میرا اونٹ چلنے میں سستی کرتا ہے اور تھک بھی گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اترے اور اسے اپنی چھڑی سے مار کر فرمایا: " اب سوارہوجاؤ۔ "چنانچہ میں سوار ہو گیا، پھر تو اونٹ ایسا تیز ہوگیا کہ میں اسے رسول اللہ ﷺ (کے برابر ہونے)سے روکتا تھا۔ آپ نے پوچھا: "کیا تم نے شادی کرلی ہے۔؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "دوشیزہ سے یا شوہر دیدہ سے؟"میں نے عرض کیا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا "نو عمر سے شادی کیوں نہیں کی؟تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے خوش طبعی سے پیش آتی۔ "میں نے عرض کیا: میری بہت سی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2097]
حدیث حاشیہ:
باب کی دونوں حدیثوں میں کہیں گدھے کا ذکرنہیں جس کا بیان ترجمہ باب میں ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گدھے کو اونٹ پر قیاس کیا۔
دونوں چوپائے اور سواری کے جانو رہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیچتے وقت یہ شرط کر لی تھی کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سوار ہوں گا۔
امام احمد اور اہل حدیث نے بیع میں یہ شرط اسی حدیث سے درست رکھی ہے۔
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں بیس جگہوں کے قریب بیان کیا ہے۔
گویا اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2097
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2604
2604. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کےہاتھ اونٹ فروخت کیا۔ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: ”مسجد میں آؤ اور دو رکعت نماز ادا کرو۔“ اس وقت آپ نے اس کی قیمت تول کردی۔ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس کی قیمت جھکاؤ کے ساتھ تول کردی۔ اس نقدی سے کچھ نہ کچھ ہمیشہ میرے پاس رہا یہاں تک کہ حرہ کی لڑائی میں اہل شام کے ہاتھ لگ گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2604]
حدیث حاشیہ:
حضرت مجتہد اعظم امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب ثابت فرمانے کے لیے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کا معاملہ پیش کیا ہے کہ اسلامی لشکر کے قبضہ میں آنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے انہیں پھر ہوازن والوں کو ہبہ فرما دیا تھا۔
دوسرا واقعہ حضرت جابر ؓ کا ہے جن سے آنحضرت ﷺ نے اونٹ خریدا، پھر مدینہ واپس آکر اس کی قیمت ادا فرمائی اور ساتھ ہی مزید آپ نے اور بھی بطور بخشش ہبہ فرمایا۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2604
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2967
2967. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: ”تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ”اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟“ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ” کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔“ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔“ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2967]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہاں سے نکلا کہ حضرت جابر ؓاجازت لے کر آپ ﷺ سے جدا ہوئے۔
یہ حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امامؒ نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2967
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3089
3089. حضرت جابربن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب (تبوک سے) مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اونٹ یا گائے کو ذبح کیا۔ معاذ عنبری کی روایت میں کچھ اضافہ ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے دو اوقیہ اور ایک درہم یا دو درہم کے عوض اونٹ خریدا۔ جب آپ مقام صرار پر پہنچے تو آپ نے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے ذبح کیا گیا اور لوگوں نے اس کا گوشت کھایا۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مجھے حکم دیا کہ میں (پہلے) مسجد میں جاؤں اور وہاں دو رکعتیں ادا کروں۔ اس کے بعد مجھے میرے اونٹ کی قیمت وزن کرکے عطا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3089]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے نہ فرض نہ نفل‘ جب گھر پر ہوتے تو بکثرت روزے رکھا کرتے‘ اگرچہ ان کی عادت حالت اقامت میں بکثرت روزے رکھنے کی تھی‘ لیکن جب آپ سفر سے واپس آتے تو دو ایک دن اس خیال سے روزہ نہیں رکھتے تھے کہ ملاقات کے لئے لوگ آئیں گے اور ان کی ضیافت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ میزبان مہمان کے ساتھ کھائے‘ اس لئے آپ ایسے موقع پر نفل روزہ چھوڑ دیتے تھے۔
آپ تہجد ہمیشہ پڑھا کرتے‘ سنت نبوی سے بال برابر بھی تجاوز نہ کرتے‘ بدعت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ایک دفعہ ایک مسجد میں گئے‘ وہاں کسی نے الصلوٰۃ الصلوٰۃ پکارا‘ تو آپ یہ کہہ کر کھڑے ہو گئے‘ کہ اس بدعتی کی مسجد سے نکل چلو۔
معاذ کی سند بیان کرنے سے حضرت امام ؒ کی غرض یہ ہے کہ محارب کا سماع جابر سے ثابت ہو جائے۔
معاذ کی اس روایت کو امام مسلم نے وصل کیا ہے۔
اس روایت کو امام بخاری نے کئی جگہ بیان فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
تعجب ہے کہ ایسے فقہ اہلحدیث کے ماہر مجتہد مطلق امام کو بعض کو رباطن متعصّب مجتہد نہیں مانتے‘ جو خود ان کی کور باطنی کا ثبوت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3089
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5079
5079. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ایک غزوے سے نبی ﷺ کے ہمراہ واپس آئے تو میں نے اپنے سست رفتار اونٹ پر چلنے میں جلدی کی۔ اس دوران میں میرے پیچھے سے ایک سوار مجھے آ کر ملا اور اس نے میرے اونٹ کو اپنا چھوٹا سا نیزہ مارا۔ اس وجہ کی چال تم ن دیکھی ہوگی۔ میں نے دیکھا تو وہ نبی ﷺ تھے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ”تمہیں کس چیز کی جلدی ہے؟“ میں نے کہا: میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا: ”کنواری سے ہو یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: کسی کنواری سے شادی کیوں نہ کی تا کہ تو اس سے دل لگی کرتا اور تجھ سے خوش طبعی کرتی۔“ سیدنا جابر ؓ نے کہا: پھر جب ہم مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: ”تھوڑی دیر ٹھہرجاؤ، رات گھروں میں جاؤ، تا کہ پرگنداہ بالوں والی کنگھی کر لے اور جن کے شوہر موجود نہیں تھے وہ اپنے زیر ناف بال صاف کرلیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5079]
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں اس کی مخالفت ہے کہ رات کو آدمی سفر سے آ کر اپنے گھر میں جائے مگر وہ محمول ہے اس پر جب اس کے گھروالوں کو دن سے اس کے آنے کی خبر نہ ہو جائے اور یہاں لوگوں کے آنے کی خبر عورتوں کی دن سے ہوگئی ہوگی تو آپ نے فرمایا کہ ذرا دم لے کر جاؤ تا کہ عورتیں اپنا بناؤ سنگار کر لیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5079
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5080
5080. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ”تم نےکیسی عورت سے شادی کی ہے؟ْ“ میں نے کہا: ایک بیوہ سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کنواری لڑکیوں کے ساتھ اٹکھلیاں کرنے سے اجتناب کرتے ہو؟“ راؤی حدیث (شعبہ) نے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ نے فرمایا: ”کنواری لڑکی سے (شادی) کیوں نہ کی اس سے ہنسی مذاق كرتا وہ تجھ سے کھیل کود کرتی؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5080]
حدیث حاشیہ:
بیوہ سے بھی نکاح جائز ہے باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے گو کنواری سے شادی کرنا بہتر ہے۔
ہندوستان میں پہلے مسلمانوں کے یہاں بھی نکاح بیوگان کو معیوب سمجھا جاتا تھا مگر حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس رسم بد کے خلاف جہاد کیا اور اسے عملا ختم کرایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5080
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2097
2097. حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت انھوں نے فرمایاکہ میں کسی جنگ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا میرے اونٹ نے چلنے میں سستی کی اور تھک گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "جابر ہو؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "تیرا کیا حال ہے؟"میں نے عرض کیا: میرا اونٹ چلنے میں سستی کرتا ہے اور تھک بھی گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اترے اور اسے اپنی چھڑی سے مار کر فرمایا: " اب سوارہوجاؤ۔ "چنانچہ میں سوار ہو گیا، پھر تو اونٹ ایسا تیز ہوگیا کہ میں اسے رسول اللہ ﷺ (کے برابر ہونے)سے روکتا تھا۔ آپ نے پوچھا: "کیا تم نے شادی کرلی ہے۔؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "دوشیزہ سے یا شوہر دیدہ سے؟"میں نے عرض کیا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا "نو عمر سے شادی کیوں نہیں کی؟تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے خوش طبعی سے پیش آتی۔ "میں نے عرض کیا: میری بہت سی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2097]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے دومسئلے ثابت کیے ہیں:
٭چوپاؤں اور گدھوں وغیرہ کی خریدو فروخت میں کوئی حرج نہیں۔
آدمی خواہ کتنا ہی بڑا ہو اور اس کے خدمت کار بھی ہوں،اسے اپنی ضروریات خریدنے میں عار نہیں سمجھنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے اور آپ کی سنت پر عمل کرنا ہی باعث خیروبرکت ہے۔
٭ایجاب وقبول سے بیع پختہ ہوجاتی ہے۔
خریدار کا خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرنا ضروری نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے،اگرچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اونٹ فروخت کرتے وقت یہ شرط طے کرلی تھی کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سواری کروں گا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کرتے وقت کوئی شرط لگائی جاسکتی ہے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالک سے ازخود بیع کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے،نیز بزرگوں کو اپنے عقیدت مندوں کے حالات دریافت کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا بھی پتہ چلتا ہے۔
والله اعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2097
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2309
2309. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ کون ہے:“ میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: ” کیا ماجرا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا: ”تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ مجھے دو۔“ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔“ جب ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2309]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف طور پر نہیں بتایا تھا کہ اتنا زیادہ دے مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانے کے دستور کے مطابق ایک قیراط زائد سونا دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے درمیان متعارف چیز کی حیثیت منصوص علیہ کی سی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کسی کو صدقہ دینے کا حکم دے تو وہ اگر لوگوں کے تعارف اور دستور کے مطابق دے تو جائز ہے اگر دستور سے زیادہ دے گا تو وہ مالک کی رضامندی پر موقوف ہے۔
اگر وہ راضی ہوگیا تو درست ہے بصورت دیگر زائد مقدار واپس لینے کا مجاز ہوگا۔
(2)
حضرت جابر ؓ کے عمل سے ثابت ہوا کہ کوئی اپنے بزرگ کے عطیہ یا کسی حقیقی یاد گار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو جائز ہے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2309
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2470
2470. ابو المتوکل کہتے ہیں۔ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ مسجد میں تشریف فر تھے اس لیے میں بھی مسجد میں چلا گیا اور اپنے اونٹ کو (مسجد کے سامنے)بچھے ہوئے پتھروں کے کنارے باندھ دیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپ کا اونٹ آپ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے پاس گھومنے لگے پھر فرمایا: ”قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہوئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2470]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا، اسی کو بلاط کہتے تھے۔
ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ فرش ہو جو مسجد کے سامنے پتھروں یا پکی اینٹوں سے بنایا جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مسجد کے دروازے یا اس کے متصل بازار میں کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اونٹ یا کوئی جانور باندھا جا سکتا ہے۔
اگر وہ کسی کا نقصان کر دے تو مالک پر تاوان نہیں ہو گا، اگر کسی نے عادت بنا لی ہے تو وہ نقصان کا ذمہ دار ہو گا۔
(2)
اگرچہ اس حدیث میں دروازے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے دروازے کو اسی پر قیاس کیا ہے یا حافظ ابن حجر ؒ کے کہنے کے مطابق امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے مسجد کے دروازے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 145/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2470
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2604
2604. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کےہاتھ اونٹ فروخت کیا۔ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: ”مسجد میں آؤ اور دو رکعت نماز ادا کرو۔“ اس وقت آپ نے اس کی قیمت تول کردی۔ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس کی قیمت جھکاؤ کے ساتھ تول کردی۔ اس نقدی سے کچھ نہ کچھ ہمیشہ میرے پاس رہا یہاں تک کہ حرہ کی لڑائی میں اہل شام کے ہاتھ لگ گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2604]
حدیث حاشیہ:
(1)
دیگر روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ اسی اونٹ پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
فرماتے ہیں:
میں نے اونٹ مسجد کے دروازے کے پاس چھوڑا اور مسجد میں دو رکعتیں ادا کیں۔
بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کی قیمت ادا کی اور کچھ اضافہ بھی دیا، نیز وہ اونٹ جسے آپ نے ابھی اپنے قبضے میں نہیں لیا تھا وہ بھی مجھے ہبہ کر دیا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2097) (2)
امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مقبوضہ چیز کا ہبہ بھی جائز ہے، اگرچہ ان روایات میں اس کا ذکر نہیں لیکن عنوان بندی میں آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2604
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2718
2718. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہے تھے جو تھک چکا تھا۔ نبی ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے اس اونٹ کو مارا اور اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ اتنا تیز چلنے لگا کہ اس جیسا کبھی نہیں چلا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”تم اسے ایک اوقیے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔“ میں نے عرض کیا: نہیں آپ نے دوبارہ فرمایا: ”ایک اوقیے کے عوض یہ اونٹ مجھے فروخت کر دو۔“ چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ اسے فروخت کر دیا لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس کی قیمت مجھے نقد ادا کردی لیکن جب میں واپس ہو نے لگا تو آپ نے میرے پیچھے آدمی بھیجا۔ (میرے پہنچنے پر)آپ نے فرمایا: ”میں تو تمھارا اونٹ لینا نہیں چاہتا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ یہ تمھارا ہی مال ہے۔“ شعبہ کی روایت کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2718]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب بیچنے والا کوئی چیز فروخت کرے اور کچھ دیر کے لیے اس پر سواری کی شرط کرے تو اس کے جائز ہونے میں اختلاف ہے۔
امام بخاری ؒ اسے جائز سمجھتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے جبکہ کچھ حضرات اس قسم کی بیع کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بیع میں کچھ مستثنیٰ کر لینے سے منع فرمایا ہے، نیز آپ نے بیع اور شرط سے بھی منع فرمایا ہے اور اس میں دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن حق بات یہ ہے کہ ایسی بیع جائز ہے جیسا کہ حدیث جابر ؓ میں صراحت ہے کہ انہوں نے اپنا اونٹ فروخت کرتے وقت مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کا استثنا کر لیا۔
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں:
میں نے ایک اوقیے کے بدلے اسے فروخت کر دیا اور میں نے اپنے گھر تک اس پر سواری کی شرط لگائی۔
(صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 2406)
مستثنیٰ کر لینے کی ممانعت کے متعلق حدیث درج ذیل ہے:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خریدوفروخت کے وقت کچھ مستثنیٰ کرنے سے منع کیا ہے الا یہ کہ اس کی مقدار مقرر کر لی جائے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3913(1536)
جابر ؓ کے واقعے میں بھی ایک معلوم چیز کا استثنا تھا، لہذا یہ منع نہیں ہے، البتہ مجہول شے کا استثنا منع ہے۔
اس سے بیع فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ جہالت کی وجہ سے یہ بیع دھوکے پر مشتمل ہوتی ہے۔
جس حدیث میں بیع اور شرط کی ممانعت ہے، اس کی سند میں مقال ہے، نیز وہ قابل تاویل ہے۔
(فتح الباري: 386/5) (2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طرق یاد تھے۔
(3)
ہمارے رجحان کے مطابق خریدوفروخت میں اگر معلوم چیز کی شرط لگائی جائے یا اس کا استثنا کر لیا جائے تو جائز ہے، اس سے بیع کے جواز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2718
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2967
2967. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: ”تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ”اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟“ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ” کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔“ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔“ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2967]
حدیث حاشیہ:
1۔
مذکورہ آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ کسی کو لشکر سے جانے کی اجازت نہیں جب تک وہ امیر سے اجازت طلب نہ کرے، خاص طور پر، اگر امیر نے کسی کی ڈیوٹی لگائی ہوپھر اسے کوئی ضرورت لاحق ہوتو اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
اس حدیث کے مطابق حضرت جابر ؓ نے ایک ”ہنگامی ضرورت“ کے پیش نظر رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کی۔
رسول اللہ ﷺسے اجازت ملنے پر وہ جلدی گھر آگئے۔
2۔
واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کا گھر مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلے پر عوالی مدینہ میں تھا۔
وہاں ان کے اہل وعیال رہتے تھے جن کاتعلق بنو سلمہ سے تھا۔
حضرت جابر ؓ آپ سے پہلے وہاں پہنچے، بعد ازاں دوسری صبح مسجد نبوی میں آئے اور اونٹ رسول اللہ ﷺ کے حوالے کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2967
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4052
4052. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ”اے جابر! تم نے شادی کی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟“ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: ”بہتر تھا کہ کنواری سے شادی کرتے تاکہ وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں، وہ میری نو بہنیں ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور اان جیسی ناتجربہ کار لڑکی اپنے گھر لے آؤں، لہذا میں نے شادی کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی اور ان کی نگہداشت کا فریضہ بھی ادا کرتی رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4052]
حدیث حاشیہ:
1۔
عنوان سابق ایک اضافی فائدے کے لیے تھا۔
بنیادی عنوان وہی ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔
اس میں غزوہ احد کے واقعات بیان کرنا مقصود ہے۔
2۔
مذکورہ حدیث میں بھی حضرت جابر ؓ کے والد گرامی حضرت جابر عبد اللہ ؓ کی شہادت کا بیان ہے غزوہ احد میں ہوئی۔
جب وہ شہید ہوئے تو اس وقت حضرت جابر ؓ ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔
سب کاروبار ان کےسپرد ہوا۔
جب نو بہنوں کا بارگراں ناتواں کندھوں پر پڑا تو بہت پریشان رہتے تھے۔
والد کے ذمے قرض بھی بہت تھا جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر ہے۔
ایسے حالات میں آپ نے ایک بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی بہنوں کو سنبھالے اورامور خانہ داری کی نگہداشت کرے۔
واقعی ایسے حالات میں بیوہ اور تجربہ کار عورت ایک کنواری لڑکی سے بہتر ہوتی ہے، پھر خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی تصویب فرمائی جیسا کہ حدیث کے آخر میں ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4052
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5080
5080. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ”تم نےکیسی عورت سے شادی کی ہے؟ْ“ میں نے کہا: ایک بیوہ سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کنواری لڑکیوں کے ساتھ اٹکھلیاں کرنے سے اجتناب کرتے ہو؟“ راؤی حدیث (شعبہ) نے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ نے فرمایا: ”کنواری لڑکی سے (شادی) کیوں نہ کی اس سے ہنسی مذاق كرتا وہ تجھ سے کھیل کود کرتی؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5080]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ نے شوہر دیدہ سے نکاح کا جواز ثابت کیا ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کنواری سے نکاح کرنا پسند کرتے ہیں جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی دینی مصلحت ہو تو بیوہ سے نکاح کرنا راجح ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے دوسرے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! میری چھ سات بہنیں ہیں، اگر ان جیسی کسی کنواری لڑکی سے شادی کرتا تو ان کی تربیت کیسے ہوتی؟ میں نے اس لیے شوہر دیدہ کا انتخاب کیا ہے تاکہ انھیں امور خانہ داری سے آگاہ کرے اور یہ کام کوئی تجربہ کار عورت ہی سر انجام دے سکتی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس وضاحت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فعل کی تحسین فرمائی۔
(2)
واضح رہے کہ برصغیر میں پہلے پہلے مسلمانوں کے ہاں بیوگان سے نکاح کرنے کو معیوب خیال جاتا تھا، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس رسم بد کے خلاف جہاد کیا اور عملاً اسے ختم کیا۔
والله المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5080
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5245
5245. سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا۔ جب ہم وآپس آئے تو میں اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس دوران میں میرے پیچھے سے ایک سوار میرے قریب آیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اس قدر جلدی کیوں کررہے ہو؟“ میں نے عرض کی: میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کنواری عورت سے شادی کی ہے یا شوہر دیدہ کو بیاہ لائے ہو؟“ میں نے کہا: بیوہ سے نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہ شادی کی تاکہ تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے اور وہ تیرے ساتھ کھیلتی؟ سیدنا جابر ؓ نے کہا: پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے اور اپنے گھروں میں جانا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ذرا ٹھہر جاؤ، رات ہونے کے بعد گھر جانا تاکہ پراگندہ بالوں والی کنگھی کرلیں اور جن کے خاوند ٖغائب تھے وہ زیر ناف بال صاف کرلیں“ راوی کہتا ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5245]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رات کے وقت داخل ہونے سے مراد عشاء کا وقت ہے تاکہ اس حدیث کا پہلی احادیث سے تعارض نہ ہو جن میں رات کے وقت گھر آنے سے منع کیا گیا ہے، البتہ اگر بیوی کو اطلاع ہوجائے تو رات کے کسی حصے میں گھر آنا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5245
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5247
5247. سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک غزوے میں تھے۔ واپسی کے وقت جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو میں اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے لگا تو میرے پیچھے سے ایک سوار آیا اور میرے قریب پہنچ کر اپنی چھڑی سے میرے اونٹ کو ٹھونکا۔ اس سے میرا اونٹ بڑی اچھی چال چلنے لگا جیسا کہ تم نے اچھی چال چلنے والے اونٹ کو دیکھا ہوگا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے آپ نے فرمایا: ”تم نے بھی شادی کرلی ہے؟“ عرض کیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے نکاح کیا ہے؟“ میں نے کہا شوہر دیدہ سے نکاح کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے شادی کیوں نہ کی؟ تم اس کے ساتھ کھلیتے وہ تیرے ساتھ کھیلتی؟ پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو اپنے گھروں میں جانے لگے۔ آپ نے فرمایا: ”ٹھہر جاؤ عشاء کے وقت گھروں کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5247]
حدیث حاشیہ:
(1)
لَيلاً کی تفسیر عشاء سے کر کے امام بخاری رحمہ اللہ نے بظاہر دو متضاد روایات کو جمع کیا ہے، یعنی رات کو گھر جانے سے مراد اس کا پہلا حصہ ہے اور جہاں ممانعت ہے اس سے مراد رات کا درمیانی یا آخری حصہ ہے۔
(2)
بہرحال جس عورت کا خاوند دیر تک باہر رہا ہو، جب اسے اپنے شوہر کی آمد کا پتا چلے تو زیب و زینت میں کوئی کمی نہ کرے۔
اپنے زیر ناف بال صاف کرلے تاکہ خاوند کو کسی بھی پہلو سے ناگواری نہ ہو۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5247
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5367
5367. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہوئے تو انہوںنے سات یا نو بیٹیاں چھوڑیں۔ میں نے ایک شوہر دیدہ عورت سے نکاح کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے جابر! کیاتم نے شادی کرلی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے اپنا دل بہلاتی تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی؟ میں نے عرض کی: (میرے والد گرامی) سیدنا عبداللہ ؓ شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے کچھ بیٹیاں چھوڑ گئے۔ میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ ان کے پاس ان جیسی (کوئی با تجربہ کار) لے آؤں اس لیے میں نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو انکی نگہداشت اور اصلاح کرتی رہے یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت دے یا تمہیں بھلائی نصیب کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5367]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ چھوٹی بہنیں اولاد کی طرح ہوتی ہیں، اس لیے عنوان سے مطابقت ظاہر ہے۔
(2)
اگرچہ شوہر کی بچیوں کو سنبھالنا بیوی کے فرائض میں نہیں ہے لیکن اخلاقاً عورت کو ایسا کرنا چاہیے۔
ابن بطال نے کہا ہے کہ اولاد کے معاملے میں شوہر کی مدد کرنا بیوی پر واجب نہیں ہے، تاہم یہ ایک اخلاقی امر اور نیک عورتوں کی عادت ضرور ہے۔
(فتح البار`: 636/9) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کے لیے عورت کے انتخاب میں بہت سوچ بچار کرنی چاہیے، محض ظاہری حسن دیکھ کر کسی عورت پر فریفتہ ہو جانا کوئی عقلمندی نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5367
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6387
6387. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا بیٹیاں چھوڑی تھیں۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو نبی ﷺ نے پوچھا: ”اے جابر! کیا تو نے شادی کرلی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟“ میں نے کہا: شوہر دیدہ عورت سے۔ آپ نے فرمایا: کسی کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا تو اس سے دل لگی کرتا اور وہ تجھ سے دل لگی کرتی؟ یا تو اسے ہنساتا اور وہ تجھے ہنساتی؟ میں نے کہا: میرے والد جب شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ ان کے ہاں ان جیسی کوئی ناتجربہ کار لے آؤں چنانچہ میں نے ایسی عورت سے نکاح کیا ہے جو ان کی دیکھ بھال کا اہتمام کرے۔ آپ نے دعا کی: اللہ تمہیں بھرپور برکت عطا فرمائے۔ ابن عینیہ اور محمد بن مسلم نے عمرو سے یہ روایت بیان کی تو اس میں باركَ اللہ علیكَ کے الفاظ نہیں کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6387]
حدیث حاشیہ:
شادی کے موقع پر برکت کی دعا میں اشارہ ہے کہ شادی دونوں کے لیے باعث برکت ہو۔
روزی، آل و اولاد اور گھر بار سب میں برکت شامل حال ہو۔
شادی میں جذبات سے زیادہ دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی بہنوں کی تربیت کی وجہ سے اپنے جذبات کی قربانی دی۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھرپور برکت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا:
''بارك الله عليك'' جبکہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو جو دعا دی ہے وہ صرف بیوی کے اعتبار سے برکت پر مشتمل ہے:
''بارك الله لك'' (فتح الباري: 228/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6387