سنن نسائي
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
32. بَابُ : مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَلَيْهِ دَيْنٌ
باب: مقروض شخص کا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3160
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ ضَرَبْتُ بِسَيْفِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا، مُحْتَسِبًا، مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ، حَتَّى أُقْتَلَ، أَيُكَفِّرُ اللَّهُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاهُ، فَقَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ يَقُولُ: إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلَيْكَ دَيْنٌ".
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ منبر پر (کھڑے خطاب فرما رہے) تھے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر میں اپنی تلوار اللہ کے راستے میں چلاؤں، ثابت قدمی کے ساتھ، بہ نیت ثواب، سینہ سپر رہوں پیچھے نہ ہٹوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سبھی گناہوں کو مٹا دے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، پھر جب وہ جانے کے لیے مڑا، آپ نے اسے بلایا اور کہا: ”یہ جبرائیل ہیں، کہتے ہیں: مگر یہ کہ تم پر قرض ہو“ (تو قرض معاف نہیں ہو گا)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 32 (1885)، (تحفة الأشراف: 12104) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3160 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3160
اردو حاشہ:
”واجب الادا حقوق“ عربی عبارت میں دَیْنَ استعمال فرمایا گیا ہے جس کے معنی عموماً قرض کے کرلیے جاتے ہیں مگر یہ اس کے حقیقی معنی نہیں بلکہ اس کی ایک صورت ہے۔ دَیْنَ سے مراد وہ حق ہے جو کسی کے ذمے دوسرے کے لیے واجب الادا ہو‘ خواہ وہ قرض ہو یا کسی پر زیادتی کی ہو‘ جب کہ قرض تو یہ ہے کہ کسی سے کوئی چیز عاریتاً لی ہو اور اسے مدت مقرر پر واپس کرنا ہو۔ ضرورت کے موقع پر قرض لینا جائز ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے لیا ہے‘ البتہ وقت مقرر پر‘ باوجود وسعت کے‘ ادا نہ کرنا یا لینا یا لیتے وقت ہی عدم ادائیگی کی نیت رکھنا جرم ہے۔ ادائیگی کی نیت ہو عدم وسعت کی بنا پر ادا نہ کرسکے تو یہ جرم نہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 3157)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3160
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1712
´اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے پر قرض ہو تو کیا حکم ہے؟`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کر ان سے بیان کیا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے“ ۱؎، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں، تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اگر تم اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو“، پھر آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1712]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایاگیا ہے،
اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں،
ان احادیث میں ”أفضل الأعمال“ سے پہلے ”من“ پوشیدہ مانا جائے،
مفہوم یہ ہوگا کہ یہ اعمال افضل ہیں،
یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے،
یہ بھی کہا جاتاہے کہ مخاطب کی روسے مختلف اعمال کی افضلیت کو بیان کیاگیا ہے۔
2؎:
یعنی وہ قرض جس کی ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1712
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4880
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ان کے درمیان وعظ کے لیے کھڑے ہوئے اور بیان فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ پر ایمان سب سے بہتر عمل ہے۔“ تو ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا، یا رسول اللہﷺ! مجھے بتائیے، اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں، تو کیا مجھے میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ہاں، اگر تو اللہ کی راہ میں، صابر اور ثواب کی نیت کرتے ہوئے، سامنے منہ کر کے، پشت دکھا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4880]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایمان باللہ دین کی بنیاد اور اساس ہے،
اس کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور ارکان خمسہ میں سے یہ اساس ہے اور جہاد اگرچہ ارکان خمسہ میں داخل نہیں ہے،
لیکن یہ ان کا محافظ ہے اور دین کی اقامت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے،
لیکن حقوق العباد کا مارنا اتنا سنگین جرم ہے،
کہ جہاد جیسی عظیم چیز بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتی،
لیکن آج لوگوں کا پیسہ کھانا اور ان کے حقوق پامال کرنا حقیر عمل سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کے مال و جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں،
کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے،
نیز اگر مال کا ہڑپ کرنا معاف نہیں ہو سکتا،
تو قتل اور خون بہانا کیسے معاف ہو سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4880