سنن نسائي
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
26. بَابُ : ثَوَابِ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 3148
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ، عَنْ ابْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الْأَسْوَدِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ، صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صُنْعِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنَبِّلَهُ".
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعہ تین طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (پہلا) تیر کا بنانے والا جس نے اچھی نیت سے تیر تیار کیا ہو، (دوسرا) تیر کا چلانے والا (تیسرا) تیر اٹھا اٹھا کر پکڑانے اور چلانے کے لیے دینے والا (تینوں ہی جنت میں جائیں گے)“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 24 (2513) مطولا، (تحفة الأشراف: 9922) (ضعیف) (اس کے راوی ”خالد بن زید یا یزید‘‘ لین الحدیث ہیں) ویأتي عند المؤلف في الخیل 8 برقم 3608حدیث کے بعض دوسرے الفاظ وطرق کے لیے دیکھئے: سنن ابی داود 2513)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3148 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3148
اردو حاشہ:
”تیر پکڑنے والا“ عربی میں لفظ مُنَبِّلْ استعمال کیا گیا ہے۔اس کے معنی تیر مہیا کرنے والا بھی ہو سکتے ہیں‘ یعنی اپنے مال سے خرید کر دینے والا یادورگرنے والا تیرلے کر آنے والا۔ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کا نیکی میں ذرہ بھی حصہ ہے‘ اسے اجروثواب ضرور ملے گا۔ اپنے اپنے حصے کے مطابق۔ کوئی شخص اجر سے محروم نہیں رہے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3148
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3608
´گھوڑے کو سدھانے و سکھانے کا بیان۔`
خالد بن یزید جہنی کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہمارے قریب سے گزرا کرتے تھے، کہتے تھے: اے خالد! ہمارے ساتھ آؤ، چل کر تیر اندازی کرتے ہیں، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں سستی سے ان کے ساتھ نکلنے میں دیر کر دی تو انہوں نے آواز لگائی: خالد! میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی ایک بات بتاتا ہوں، چنانچہ میں ان کے پاس گیا۔ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعے تی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3608]
اردو حاشہ:
(1) ”پسندیدہ ہے“ کیونکہ تیر چلانا نہ آتا ہو تو گھوڑ سواری بے فائدہ ہے‘ جبکہ تیر اندازی اکیلی بھی مفید ہے۔
(2) ”مستحب کھیل“ یعنی ان میں ثواب حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے‘ جبکہ دوسرے کھیل صرف جسمانی تفریح کا فائدہ دیتے ہیں اور اس جسمانی تفریح کا کیا فائدہ جو کسی کام نہ آئے؟ اگر جسمانی تفریح اور ورزش جہاد وغیرہ میں مفید ہوں تو ثواب کا موجب ہیں۔
(3) ”ناشکری کی“ البتہ اگر اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر چھوڑا تو کوئی حرج نہیں۔
(4) محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو حسن قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے خالد بن یزید کی جہالت کی بنا پر اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے‘ تاہم ”تین کھیل مستحب ہیں“ والا حصہ دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے‘ (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: 30/13 وضعیف سنن النسائي‘ رقم: 3580)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3608
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2513
´تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے: ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے، دوسرے اس کے چلانے والے کو، اور تیسرے اٹھا کر دینے والے کو، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو، اور تمہارا تیر اندازی کرنا، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے: ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2513]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی کے نذدیک یہ روایت ضعیف ہے۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
جس کی وجہ سے حدیث میں مذکورہ اعمال کی اباحت اور فضیلت ثابت ہے۔
لہذا اگر کسی تفریح کا پروگرام ہو و انہی مذکورہ بالا تفریحات میں سے کسی کو ترجیح دی جائے تاکہ جسمانی قوت اور تفریح کے ساتھ ساتھ عند اللہ اجر وثواب کا بھی مستحق ٹھہرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2513
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2811
´اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو“، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل: 1۔
مسلمان کو تفریح کے طور پر ایسے کام کرنے چاہییں جن سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔
تفریح برائے تفریح کا نظریہ غلط ہے۔ 2۔
تیر اندازی کی مشق سے ذاتی دفاع کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے اور دین کے لیے جنگ کرنے کا بھی اس لیے یہ جائز تفریح ہے۔
(3)
جدید دور میں جو اسلحہ کفار کے خلاف جنگ میں استعمال ہوسکتا ہےاس کی تربیت حاصل کرنا ”تیر اندازی کی مشق“ کے حکم میں ہے۔
(4)
گھوڑے کو تربیت دینے کا مقصد جنگ میں اس سے کام لینا ہے اس لیے مختلف گاڑیوں، ٹینکوں اور طیاروں وغیرہ کے چلانےاور اڑانے کی تربیت اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کرنا اور سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔
(5)
بیوی سے دل لگی کرنا خود کو اوراس کو گناہ سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
اور پاک دامنی اسلامی معاشرے کی مطلوب اشیاء میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اخلاق وکردار کی حفاظت بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح ملکی سرحدوں کا دفاع۔
اس کے علاوہ بیوی سے نیک اولاد کا حصول اسلامی سلطنت کے دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کافر ممالک مسلمانوں کو آبادی کم کرنے کا سبق دیتے ہیں اور خود اپنی آبادیاں بڑھانے میں کوشاں ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2811
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2811
´اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو“، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل: 1۔
مسلمان کو تفریح کے طور پر ایسے کام کرنے چاہییں جن سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔
تفریح برائے تفریح کا نظریہ غلط ہے۔ 2۔
تیر اندازی کی مشق سے ذاتی دفاع کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے اور دین کے لیے جنگ کرنے کا بھی اس لیے یہ جائز تفریح ہے۔
(3)
جدید دور میں جو اسلحہ کفار کے خلاف جنگ میں استعمال ہوسکتا ہےاس کی تربیت حاصل کرنا ”تیر اندازی کی مشق“ کے حکم میں ہے۔
(4)
گھوڑے کو تربیت دینے کا مقصد جنگ میں اس سے کام لینا ہے اس لیے مختلف گاڑیوں، ٹینکوں اور طیاروں وغیرہ کے چلانےاور اڑانے کی تربیت اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کرنا اور سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔
(5)
بیوی سے دل لگی کرنا خود کو اوراس کو گناہ سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
اور پاک دامنی اسلامی معاشرے کی مطلوب اشیاء میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اخلاق وکردار کی حفاظت بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح ملکی سرحدوں کا دفاع۔
اس کے علاوہ بیوی سے نیک اولاد کا حصول اسلامی سلطنت کے دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کافر ممالک مسلمانوں کو آبادی کم کرنے کا سبق دیتے ہیں اور خود اپنی آبادیاں بڑھانے میں کوشاں ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2811
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1637
´اللہ کی راہ (جہاد) میں تیر پھینکنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو“، آپ نے فرمایا: ”تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1637]
اردو حاشہ:
نوٹ:
1- (پہلی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں،
لیکن ”كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ“ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1637