سنن نسائي
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
14. بَابُ : مَا تَكَفَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِهِ
باب: اللہ اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے کس بات کی ضمانت لیتا ہے۔
حدیث نمبر: 3126
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ، وَتَوَكَّلَ اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِهِ، بِأَنْ يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ يُرْجِعَهُ سَالِمًا بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ، أَوْ غَنِيمَةٍ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال (اور اللہ کو معلوم ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے) دن بھر روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے ذمہ لیا ہے کہ اسے موت دے گا، تو اسے جنت میں داخل کرے گا یا (موت نہیں دے گا تو) صحیح و سالم حالت میں اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے حاصل ہوا ہے اسے واپس اس کے گھر بھیج دے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 2 (2787)، (تحفة الأشراف: 13153) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3126 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3126
اردو حاشہ:
”اللہ ہی جانتا ہے“ کیونکہ نیت مخفی چیز ہے۔ لوگ تو ظاہر دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دل کو بھی دیکھتا ہے۔ فضیلت اسی کو حاصل ہوگی جو خالصتاً لوجہ اللہ جہاد کو جاتا ہے۔ اگر کوئی اور آلائش اس میں داخل ہوگئی تو یہ جہاد بجائے جنت کے جہنم کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3126
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3129
´اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی مثال۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے (اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس کے راستے میں (واقعی) جہاد کرنے والا کون ہے)۔ اس کی مثال مسلسل روزے رکھنے والے، نمازیں پڑھنے والے، اللہ سے ڈرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے کی سی ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3129]
اردو حاشہ:
”مسلسل“ یعنی جب سے وہ جہاد کو نکلا ہے، اس کی واپسی تک کوئی شخص لگا تار روزے اور نماز کی حالت میں رہے۔ ایک لمحہ بھی سستی نہ کرے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے۔ گویا جہاد کے برابر کوئی اور عمل نہیں۔ یا اسی فرضی صورت کا جو ثواب فرض کیا جائے گا، وہ مجاہد کو ملے گا بشرطیکہ خالصتاً لوجہ اللہ جہاد کررہا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3129
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4869
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، کون سی چیز اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنے کے برابر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”وہ تمہارے بس میں نہیں ہے۔“ تو صحابہ کرام نے دوبارہ یا سہ بارہ آپ کے سامنے سوال کا اعادہ کیا، آپﷺ ہر دفعہ یہی فرماتے، ”وہ تمہارے بس میں نہیں ہے۔“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال، اس انسان کی طرح ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے، رات کو قیام کرتا ہے (زندگی میں) اللہ تعالیٰ کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4869]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان کے لیے یہ بہت مشکل کام ہے کہ وہ ہمیشہ دن بھر روزہ رکھے،
رات کو قیام کرے اور اپنی پوری زندگی ہر قسم کے گرم و سرد اچھے،
برے حالات فرمانبردارانہ گزارے اور اس میں کسی قسم کی سستی اور کاہلی نہ دکھائے،
لیکن اخلاص کے ساتھ جہاد میں رہنے سے،
اس کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے،
اگرچہ وہاں ہر وقت اور ہر حالت میں جنگ نہیں ہو رہی ہوتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4869
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2787
2787. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال۔۔۔ اور یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کون کرتا ہے۔۔۔ اس روزہ دار کی طرح ہے جو رات بھر قیام میں مصروف رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ اسے وفات دیتے ہیں جنت میں داخل کردےگا یااجروغنیمت سمیت اسے سلامتی سے واپس کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2787]
حدیث حاشیہ:
یعنی نیت کا حال خدا ہی کو خوب معلوم ہے کہ وہ مخلص ہے یا نہیں‘ اگر مخلص ہے تو وہ مجاہد ہوگا ورنہ کوئی دنیا کے مال و جاہ اور ناموری کے لئے لڑے وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے۔
مثال میں نماز پڑھنے سے نماز نفل اسی طرح روزہ رکھنے سے نفل روزہ مراد ہے کہ کوئی شخص دن بھر نفل روزے رکھتا ہو اور رات بھر نفل نماز پڑھتا ہو‘ مجاہد کا درجہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2787
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2787
2787. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال۔۔۔ اور یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کون کرتا ہے۔۔۔ اس روزہ دار کی طرح ہے جو رات بھر قیام میں مصروف رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ اسے وفات دیتے ہیں جنت میں داخل کردےگا یااجروغنیمت سمیت اسے سلامتی سے واپس کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2787]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ نے مجاہد کے لیے ضمانت دی ہے کہ اگروہ شہید ہوجائے تو اسے مرنے کے فوراً بعد جنت میں داخل کردے گا۔
اور اگر وہ اللہ کی راہ میں کام نہ آئے بلکہ وہ سلامتی کے ساتھ واپس آجائے تو اللہ تعالیٰ ثواب اور غنیمت عطا کرے گا،یہ نہیں ہوسکتا کہ سلامتی کی صورت میں اسے کچھ حاصل نہ ہو،بلکہ اسے غنیمت اور اجر دونوں ملیں گے یا کم از ایک توضرور ملےگا۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیت کاحال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے،اگر وہ مخلص ہے تو وہ مجاہد ہوگا اگرمخلص نہیں بلکہ دنیا کے مال ومتاع یا اپنی شہرت کے لیے میدان جنگ میں اترا ہے تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے اور نہ وہ اللہ کے ہاں کسی قسم کے اجر کا ہی حق دار ہے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مجاہد فی سبیل اللہ کا کوئی لمحہ بھی اجروثواب سے خالی نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٢٠﴾ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)
”مجاہدین اللہ کی راہ میں پیاس،تکان اور بھوک کی جو بھی مصیبت برداشت کرتے ہیں یا کوئی ایسا مقام طے کرتے ہیں جو کافروں کو ناگوار ہویا دشمن پر ہو کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا،نیز یہ مجاہدین جو بھی تھوڑا یا زیادہ خرچ کرتے ہیں یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو یہ چیزیں ان کے حق میں لکھ دی جاتی تاکہ اللہ انھیں ان کے اعمال کا بہترصلہ دے جو وہ کرتے ہیں۔
“ (التوبة: 9/: 120۔
121)
یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح،اس کے اعمال نامے میں لکھ دیاجاتا ہے،خواہ اس کا یہ فعل اختیاری ہو یا غیر اختیاری،ان تمام کاموں کا اللہ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2787