سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
227. بَابُ : عَدَدِ الْحَصَى الَّتِي يُرْمَى بِهَا الْجِمَارُ
باب: جمرہ عقبہ کی رمی کے لیے کنکریوں کی تعداد کا بیان۔
حدیث نمبر: 3080
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ , يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجِمَارِ؟ فَقَالَ:" مَا أَدْرِي رَمَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسِتٍّ أَوْ بِسَبْعٍ".
ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کنکریوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ کنکریاں ماریں یا سات۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 78 (1977)، (تحفة الأشراف: 6541)، مسند احمد (1/372) (صحیح) (حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن اگلی حدیث میں سات کنکریاں مارنے کا بیان ہے، اس لیے اس میں موجود شک چھ یا سات کنکری کی بات غریب اور خود ابن عباس اور دوسروں کی احادیث کے خلاف ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3080 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3080
اردو حاشہ:
کنکریاں تو سات ہی ماری جاتی ہیں جیسا کہ احادیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر غلطی یا بھول چوک سے چھ کنکریاں ہی ماری جائیں یا رش وغیرہ کی بنا پر ایک آدھ کنکری رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ شریعت نے بہت سے مسائل میں اکثر کو کل کا حکم دیا ہے، البتہ جان بوجھ کر کمی بیشی جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3080
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
ابن جلال دين حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 3059
´دین میں غلوّ کرنے سے بچنا`
«. . . وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ . . .»
”. . . تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ . . .“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج: 3059]
فوائد و مسائل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
«واياكم والغلو فى الدين، فانما أهلك من قبلكم الغلو فى الدين»
”تم دین میں غلوّ کرنے سے بچے رہنا، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلوّ ہی نے ہلاک کر دیا تھا۔“ [مسند الامام احمد: 215/1، سنن النسائي: 3059، سنن ابن ماجه: 3029، مسند ابي يعلي: 2427، المستدرك على الصحيحين للحاكم: 466/1، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کو امام ابن الجارود (م: 473 ھ)، امام ابن حبان (م: 3871 ھ)، امام ابن خزیمہ (م: 2867 ھ) نے ”صحیح“ اور امام حاکم نے اس کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت بھی کی ہے۔
↰ہر بدعت کا منشاء دین میں غلوّ ہوتا ہے۔ غلوّ سے مراد یہ ہے کہ عبادات میں شریعت كي بيان کردہ حدود و قیود اور طریقہ ہائےکار پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ ان کی ادائیگی میں خود ساختہ طریقوں کا اضافہ کر دیا جائے۔ چونکہ دین میں غلوّ ہلاکت و بربادی کا موجب ہے، لہٰذا عبادات کو بجا لانے کے سلسلے میں قرآن و سنت ہی پر اکتفا ضروری ہوتا ہے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 43، 44، 45، حدیث/صفحہ نمبر: 8
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1920
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف اسامہ رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے فرمایا: ”لوگو! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لیے کہ گھوڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔“ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انہیں (گھوڑوں اور اونٹوں کو) ہاتھ اٹھائے دوڑتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمع (مزدلفہ) آئے، (وہب کی روایت میں اتنا زیادہ ہے): پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو بٹھایا اور فرمایا: ”لوگو! گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانا نیکی نہیں ہے تم اطمینان اور سکینت کو لازم پکڑو۔“ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر میں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے (دوڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1920]
1920. اردو حاشیہ: نیکی اور خیر کے کاموں میں مسارعت ومسابقت بلاشبہ مطلوب ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے <قرآن>۔(وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ)(آل عمران۔133) اورفرمایا <قرآن> (فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ)(البقرۃ۔148) مگراس کے یہ معنی نہیں کہ کام کو جلدی جلدی انجام دیں۔بلکہ ایسی صورت سے انجام دیں جو اسلامی وقار اور اسلامی شرف کے منافی اوردوسروں کے لئے اذیت کاباعث نہ ہو۔نمازکے لئے آنے کا بھی یہی ادب بتایا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1920
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1977
´رمی جمرات کا بیان۔`
ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رمی جمرات کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ کنکریاں ماریں یا سات ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1977]
1977. اردو حاشیہ: دیگر اصحاب کرام جابر بن عبد اللہ ابن عمر اور عبداللہ بن مسعود کی صحیح احادیث میں بغیر شک کے سات کنکریاں کا ذکر ہے لہٰذا اسی پر عمل ہو گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1977
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3059
´کنکریاں چننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا: اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ ”میرے لیے کنکریاں چن دو۔“ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آ سکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا: ”ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کر دیا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3059]
اردو حاشہ:
(1) مکمل دنوں کی رمی کی کنکریوں کی تعداد ستر بنتی ہے۔ یہ کنکریاں کہیں سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں، البتہ یہ کہنا کہ جمرات کے پاس سے نہیں اٹھانی چاہئیں، بے دلیل موقف ہے، نیز مزدلفہ ہی سے کنکریاں اٹھانے کو مستحب قرار دینا بھی محل نظر ہے۔ (2) کنکریاں چھوٹی چھوٹی ہونی چاہئیں جو عموماً بچے نشانہ بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن سے کوئی جانور شکار نہیں کی جا سکتا، البتہ آنکھ وغیرہ کو زخمی کر سکتی ہیں کیونکہ آنکھ نازک عضو ہے۔ رمی کے لیے چھوتی کنکریاں اس لیے ضروری ہیں اگر کسی کو لگ جائیں تو نقصان نہ ہو۔ تقریباً چنے کے دانے کے برابر ہوں۔ (3) ”غلو“ یعنی مقررہ حد سے بڑھ جانا۔ مندرجہ بالا مسئلے میں غلو یہ ہے کہ بڑے بڑے ڈھیلے مارے جائیں جس سے کوئی زخمی ہو سکتا ہے۔ (4) ”ہلاک کیا“ یعنی گمراہ کیا جو عذاب کا سبب ہے اور یہ اصل ہلاکت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3059
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3033
´جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد وہاں نہ رکنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کر لی تو چلے گئے، رکے نہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3033]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دس ذوالحجہ کو صرف بڑے جمرے کو رمی کی جاتی ہے۔
اور یہ رمی صبح کے وقت سورج نکلنے کے بعد ہوتی ہے۔
(2)
گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات کو سور ج ڈھلنے کے بعد کی جاتی ہے۔
(3)
تینوں جمرات کو رمی کرتے وقت پہلے چھوٹے جمرے کو پھر درمیان والے کو اور پھر بڑے جمرے کو رمی کی جاتی ہے۔
(4)
چھوٹے اور درمیانی جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کر کے دعا کرنی چاہیے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جمرہ دنیا (چھوٹے جمرے)
کو سات کنکریا ں مارتے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے پھر آگے بڑھ کر (ہموار)
میدان میں چلے جاتے اور قبلے کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دیر تک کھڑے رہ دعا کرتے اور ہاتھ اٹھائے رکھتے۔
پھر درمیانی جمرے کو رمی کرتے پھر بائیں طرف ہو کر میدان میں چلے جاتے اور قبلہ رخ ہو کر دیر تک کھڑے ہوکر دعا کرتے اور ہاتھ اٹھا کر دیر تک کھڑے رہتے۔
پھر عقبہ والے جمرے کو وادی کے نشیبی حصے میں کھڑے ہوکر رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھرتے اور فرماتے تھے۔
میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتين يقوم مستقبل القبلة و يسهل، حديث: 1751)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3033
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 899
´جمرات کی رمی پیدل اور سوار ہو کر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ کی رمی سواری پر کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 899]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سابقہ جابر کی حدیث نمبر886 سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 899
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1671
1671. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عرفہ کے دن واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے پیچھے شور و غل اوراونٹوں کومارنے پیٹنے کی آوازسنی۔ آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ فرمایا اورحکم دیا: ”لوگو!سکون قائم رکھو۔ اونٹوں کودوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔“ أَوْضَعُوا کے معنی تیز دوڑنے کے ہیں خِلَالَكُمْ کے معنی ہیں: ”تمہارے درمیان“ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا کے معنی ہیں۔ ہم نے ان کے درمیان (نہر کو) جاری کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1671]
حدیث حاشیہ:
چونکہ حدیث میں ”ایضاع“ کا لفظ آیا ہے تو امام بخاری نے اپنی عادت کے موافق قرآن کی اس آیت کی تفسیر کردی جس میں ﴿وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ﴾ آیا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی خلالکم کے بھی معنی بیان کر دیئے پھر سورۃ کہف میں بھی خلالکم کا لفظ آیا تھا اس کی بھی تفسیر کردی (وحیدی)
حضرت امام بخاری ؒ چاہتے ہیں کہ احادیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آئیں ساتھ ہی آیات قرآنی سے ان کی وضاحت فرما دیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو حدیث اور قرآن پر پورا پورا عبور حاصل ہو سکے۔
جزا اللہ خیرا عن سائر المسلمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1671
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1671
1671. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عرفہ کے دن واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے پیچھے شور و غل اوراونٹوں کومارنے پیٹنے کی آوازسنی۔ آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ فرمایا اورحکم دیا: ”لوگو!سکون قائم رکھو۔ اونٹوں کودوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔“ أَوْضَعُوا کے معنی تیز دوڑنے کے ہیں خِلَالَكُمْ کے معنی ہیں: ”تمہارے درمیان“ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا کے معنی ہیں۔ ہم نے ان کے درمیان (نہر کو) جاری کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1671]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب ایک کام سے فراغت کے بعد دوسرا کام شروع کرنا ہوتا ہے تو پہلے کام سے فراغت کے بعد بھگڈر مچ جاتی ہے اور لوگ شوروغل کرتے ہوئے دوسرے کام کی طرف دوڑتے ہیں، چنانچہ غروب آفتاب کے بعد جب لوگ وقوف عرفات سے فارغ ہوئے تو مزدلفہ پہنچنے کے لیے اپنے اونٹوں کو تیز دوڑانا شروع کر دیا اور شوروغل کرنے لگے۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ عرفات سے نکلتے وقت بے تحاشانہ بھاگیں اور نہ اونٹوں کو دوڑائیں کیونکہ ایسے موقع پر انہیں دوڑانا کوئی اچھا کام نہیں بلکہ ایسا کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آتے ہیں، ان کی قرآنی آیات سے وضاحت کر دیتے ہیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو قرآن و حدیث پر بیک وقت عبور حاصل ہو، چنانچہ حدیث میں لفظ إيضاع آیا ہے۔
اس مناسبت سے آپ کا ذہن سورہ توبہ کی اس آیت کی طرف منتقل ہوا:
﴿وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ﴾ (التوبة: 47: 9)
”اور تمہارے درمیان فتنہ برپا کرنے کے لیے ضرور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔
“ چونکہ اس آیت میں (خِلَالَكُمْ)
کا لفظ آیا ہے اس مناسبت سے سورۃ الکہف کی آیت کو زیر بحث لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَفَجَّرْنَا خِلَالَھُمَا نَھرًا ﴿٣٣﴾ ) (الکھف33: 18)
”اور ہم نے ان کے درمیان ایک نہر جاری کر دی تھی۔
“ مقصد یہ ہے کہ خلال کے معنی درمیان کے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1671