سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
220. بَابُ : الرُّكُوبِ إِلَى الْجِمَارِ وَاسْتِظْلاَلِ الْمُحْرِمِ
باب: سوار ہو کر کنکریاں مارنے اور محرم کے سایہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3062
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ حُصَيْنٍ، قَالَتْ:" حَجَجْتُ فِي حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ بِلَالًا يَقُودُ بِخِطَامِ رَاحِلَتِهِ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَافِعٌ عَلَيْهِ ثَوْبَهُ يُظِلُّهُ مِنَ الْحَرِّ، وَهُوَ مُحْرِمٌ حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَرَ قَوْلًا كَثِيرًا".
ام حصین رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ آپ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے، اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر اپنے کپڑے کا سایہ کیے ہوئے تھے۔ اور آپ حالت احرام میں تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر لوگوں کو خطبہ دیا، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور بہت سی باتیں ذکر کیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 51 (1298)، (ببعضہ) سنن ابی داود/الحج 35 (1834)، (تحفة الأشراف: 18310)، مسند احمد (6/402) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3062 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3062
اردو حاشہ:
(1) پیچھے بارہا ذکر ہو چکا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مکمل حجۃ الوداع سواری پر ادا فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر حج کے مسائل سیکھ سکیں، نیز لوگ جی بھر کر آپ کا دیدار کر سکیں۔ لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ویسے بھی جمروں کی طرف سوار ہو کر جانے میں کوئی قباحت نہیں، پھر آپ تو مزدلفہ سے تشریف لا رہے تھے۔
(2) ”جمرۂ عقبہ“ یہ جمرہ آخری ہے اگر منیٰ سے مکہ کو جائیں۔ یہ جمرہ حقیقتاً منیٰ سے خارج ہے مگر متصل ہے۔ اور یہی وہ جمرہ ہے جہاں اہل مدینہ نے رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ پہلی بھی، دوسری بھی۔ یوم نحر، یعنی 10 ذوالحجہ کو صرف اسی جمرے کی رمی کی جاتی ہے۔ اسے بڑا جمرہ بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ عرف عام میں جمرات کو شیطان بھی کہہ لیتے ہیں لیکن اس کی بجائے اگر یہ کہہ لیا جائے کہ یہ جمرات شیطان ہیں نہ یہاں شیطان رہتا ہے بلکہ انھیں ان مقامات کے تعین یا نشانی کے طور پر قائم کیا گیا جہاں اسے کنکریاں پڑی تھیں کیونکہ جب شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے عزم مصمم سے روکنے کی کوشش کی تھی تو آپ نے اسے کنکریاں مار کر رد کر دیا تھا۔ رمی اسی کی یادگار ہے۔ صحیح حدیث سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: جب ابراہیم خلیل اللہ عبادات حج کی ادائیگی کے لیے آئے تو جمرہ عقبہ کے پاس شیطان ان کے سامنے آیا۔ انھوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس رونما ہوا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں، حتیٰ کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر وہ تیسرے جمرے کے پاس ان کے سامنے آگیا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں مار دیں یہاں تک کہ وہ دھنس گیا۔ راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اب تم گویا) شیطان کو پتھر مارتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کرتے ہو۔ دیکھیے: (مسند احمد: 1/ 297، 298، وصحیح الترغیب والترهیب للألباني، رقم الحدیث: 1156)
(3) محرم خیمے یا چھتری وغیرہ کا سایہ حاصل کر سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3062