صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
21. بَابُ صَبِّ الْخَمْرِ فِي الطَّرِيقِ:
باب: راستے میں شراب کا بہا دینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 2464
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، وَكَانَ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي، أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، قَالَ: فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: اخْرُجْ فَأَهْرِقْهَا، فَخَرَجْتُ فَهَرَقْتُهَا فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: قَدْ قُتِلَ قَوْمٌ وَهِيَ فِي بُطُونِهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا سورة المائدة آية 93 الْآيَةَ".
ہم سے ابویحییٰ محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے۔ (پھر جونہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا (یہ سنتے ہی) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی۔ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، تو بعض لوگوں نے کہا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا» ”وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو پہلے کھا چکے ہیں (آخر آیت تک)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2464 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2464
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب حدیث کے لفظ فجرت في سکك المدینة سے نکل رہا ہے۔
معلوم ہوا کہ راستے کی زمین سب لوگوں میں مشترک ہے مگر وہاں شراب وغیرہ بہا دینا درست ہے بشرطیکہ چلنے والوں کو اس سے تکلیف نہ ہو۔
علماءنے کہا ہے کہ راستے میں اتنا بہت پانی بہانا کہ چلنے والوں کو تکلیف ہو منع ہے تو نجاست وغیرہ ڈالنا بطریق اولیٰ منع ہوگا۔
ابوطلحہ ؓ نے شراب کو راستے میں بہا دینے کا حکم ا س لیے دیا ہوگا کہ عام لوگوں کو شراب کی حرمت معلوم ہو جائے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2464
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2464
حدیث حاشیہ:
(1)
شراب راستے میں اس لیے بہائی گئی تاکہ لوگوں میں اسے چھوڑنے کا اعلان ہو جائے۔
اس کا فائدہ اس کی تکلیف سے زیادہ تھا، اس لیے اسے اختیار کیا گیا۔
اگر زمین سخت ہو یا راستہ تنگ ہو تو شراب یا پانی وغیرہ بہانے سے روک دیا جائے تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور ان کے قدم نہ پھسلیں۔
مقصد یہ ہے کہ راستہ مشترک ہوتا ہے تو اس قسم کے تصرفات ظلم و زیادتی نہیں ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ گزرنے والوں کو اس سے نقصان نہ ہو اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب زمین اس قسم کے مشروبات اپنے اندر جذب کر لے اور اس سے بدبو نہ پھیلے۔
نفیس طبع لوگ نجاستوں اور بدبو پیدا کرنے والی اشیاء راستے یا گلی میں پھینکنے سے پرہیز کرتے ہیں، اس طرح کوڑا کرکٹ کے لیے کوئی ڈرم یا ٹوکری وغیرہ استعمال کرنی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2464
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5424
´فیصلہ کی بنیاد پر حاصل ہونے مال کی شرعی حقیقت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5424]
اردو حاشہ:
قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ احناف اس روایت کو اموال کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں گویا عقود‘ مثلا: بیع‘ نکاح‘ طلاق وغیرہ قاضی کے فیصلے سے مفقود ہو جائیں گے لیکن یہ بات بلا دلیل ہے۔ عقود کے لیے فریقین کی رضا مندی ضروری ہے نہ کہ قاضی کا فیصلہ (مزید دیکھیے حدیث:5403)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5424
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3673
´شراب کی حرمت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شراب کی حرمت کے وقت میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوگوں کو شراب پلا رہا تھا، ہماری شراب اس روز کھجور ہی سے تیار کی گئی تھی، اتنے میں ایک شخص ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا کہ شراب حرام کر دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے بھی آواز لگائی تو ہم نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3673]
فوائد ومسائل:
فائدہ: گویا جس شراب کےلئے حرمت کا حتمی حکم نازل ہوا وہ انگو ر کی بنی ہوئی نہ تھی۔
بلکہ کچی کھجور کی بنی ہوتی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3673
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1293
´شراب کی بیع اور اس کی ممانعت کا بیان۔`
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں نے ان یتیموں کے لیے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں۔ (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: ”شراب بہا دو اور مٹکے توڑ دو۔“ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1293]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس اعتبارسے یہ حدیث انس کی مسانیدمیں سے ہوگی نہ کہ ابوطلحہ کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1293
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1244
1244- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں اپنے ایک انصاری چچا کے ہاں کھڑا ہوا انہیں شراب پلا رہا تھا اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک شخص گھبرائے ہوئے انداز میں ہمارے پاس آیا ہم نے دریافت کیا: تمہارے پیچھے کیا ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا: شراب کو حرام قراردے دیا گیا ہے، تو ان حضرات نے مجھ سے فرمایا: اے انس! تم اسے بہادو۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے اسے بہادیا۔ نضر بن انس کہتے ہیں: ان دنوں ان لوگوں کی شراب یہی ہوتی تھی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1244]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دوسرے کی خدمت حاصل کر سکتے ہیں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مل جاتا تھا تو وہ اسی وقت اس پر عمل کرتے تھے، یہی لوگ ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾ [59-الحشر:7] کے مصداق تھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1242