Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
194. بَابُ : مَا ذُكِرَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ
باب: یوم عرفہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3006
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، وَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ يُونُسَ بْنَ يُوسُفَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ مَالِكٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل عرفہ کے دن جتنے غلام اور لونڈیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں کرتا، اس دن وہ اپنے بندوں سے قریب ہوتا ہے، اور ان کے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ہو سکتا ہے یہ یونس (جن کا اس روایت میں نام آیا ہے) یونس بن یوسف ہوں، جن سے مالک نے روایت کی ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 79 (1348)، سنن ابن ماجہ/الحج 56 (3014)، (تحفة الأشراف: 16131) (صحیح) (شیخ البانی نے لکھا ہے کہ سیوطی نے الجامع الکبیر میں مسلم، نسائی اور ابن ماجہ سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس میں (عبدا وأمة) کا ذکر کیا ہے، اور أو أمة کی زیادتی ان لوگوں کے یہاں اور دوسرے محدثین (دار قطنی، بیہقی اور ابن عساکر کے یہاں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اور میں نے صحیح الجامع میں اس کا ذکر کیا ہے، تو جس کے پاس یہ کتاب ہو وہ لکھ لے کہ أو أمة کا لفظ بے اصل ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 2551، وتراجع الالبانی 203) اور آپ یہاں دیکھ رہے ہیں کہ نسائی کے یہاں یہ زیادتی موجود ہے۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3006 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3006  
اردو حاشہ:
(1) غلام لونڈیاں مراد عام مرد و عورت ہیں کیونکہ سب انسان اللہ تعالیٰ کے لیے غلام لونڈیاں ہی ہیں۔
(2) آگ سے آزاد یعنی جن کے لیے گناہوں کی وجہ سے آگ مقدر تھی، اللہ تعالیٰ ان کے لیے معافی فرماتا ہے۔ نتیجتاً وہ قیامت کے دن آگ سے بچ جائیں گے۔ چونکہ معافی یوم عرفہ کو ہوتی ہے، اس لیے آزادی کی نسبت اس کی طرف کر دی ورنہ اصل آزادی تو قیامت کے دن ہوگی۔ ممکن ہے فوت شدگان کو بھی اللہ تعالیٰ اس دن عذاب قبر سے معافی اور آزادی عطا فرماتا ہو۔
(3) مزید قریب اللہ تعالیٰ اپنے افعال و صفات میں مختار ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے قریب آنے میں کوئی اشکال نہیں جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔ بعض حضرات نے چند مزعومہ اور بے بنیاد اصولوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو اتنا مجبور و بے بس (معاذ اللہ) بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی کرنے کی ممنوع سمجھتے ہیں۔ ہمارا اللہ گناہ گاروں کا رب اور بے بسوں کا رب، سب مخلوق کا رب اتنا بے بس اور مجبور نہیں ہو سکتا کہ نہ وہ کسی پر ترس کھا سکے، نہ کسی سے سرگوشی کر سکے، نہ کلام کر سکے، نہ خوش ہو سکے، نہ قریب آسکے اور نہ عرش پر فروخش ہو سکے، لہٰذا تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں، ہاں جب اللہ تعالیٰ قریب ہوگا تو رحمت الٰہی خواہ مخواہ قریب ہوگی۔ اس کا انکار نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3006   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3014  
´عرفات میں دعا کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جتنا عرفہ کے دن اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں، اللہ تعالیٰ قریب ہو جاتا ہے، اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور فرماتا ہے: میرے ان بندوں نے کیا چا ہا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3014]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عرفے کے دن اللہ کی رحمت کا دن ہے، اس لیے اس دن روزہ رکھنا مسنون ہے، تاہم حاجیوں کے لیے یہ روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ اللہ کے رسول اللہﷺ نے عرفات میں یہ روزہ نہیں رکھا تھا۔ (صحيح البخاري، الصوم، باب صوم يوم عرفة، حديث: 1988)

(2)
اللہ کا قریب ہونا اور کلام کرنا اس کی صفت ہے جس کی کیفیت بندوں کو معلوم نہیں۔
صفات الہی پر ایمان رکھنا چاہیے لیکن ان صفات کو بندوں کی صفات سے مشابہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

(3)
حج میں بندے اللہ کی رضا اور رحمت کے حصول کے لیے عرفات میں جمع ہوتے ہیں، اس لیے انھیں یہ رحمت و مغفرت حاصل ہوجاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3014   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3288  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا، اور وہ قریب ہوتا ہے، اور فرشتوں کے سامنے (وہاں موجود) لوگوں پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3288]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مصنف عبدالرزاق میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے۔
جس سے اس حدیث کا صحیح معنی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے،
اور فرشتوں کو فرماتا ہے میرے یہ بندے پراگندہ بال،
خاک آلود آئے ہیں میری رحمت کے اُمید وار ہیں میرے عذاب سے خوفزدہ ہیں حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہے اگر یہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا۔
اس فخرومباہات کے اظہار کے بعد ان سے پوچھتا ہے،
آخر ان لوگوں نے اپنا گھر بار،
اہل و عیال،
کاروبار کس مقصد کے لیے چھوڑا ہے اپنے مال،
وقت کوخرچ کرکے،
سفرکی صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہوئے کیوں آئے ہیں،
یعنی میری بخشش،
رضا مندی اورقرب ولقاء کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہو سکتا۔
صرف مجھے راضی کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے آئے ہیں،
تاکہ انہیں میرا تقرب حاصل ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3288