سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
141. بَابُ : طَوَافِ مَنْ أَفْرَدَ الْحَجَّ
باب: حج افراد کرنے والے کے طواف کا بیان۔
حدیث نمبر: 2932
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ وَهُوَ ابْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ , عَنْ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَيَانٌ، أَنَّ وَبَرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ أَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَقَدْ أَحْرَمْتُ بِالْحَجِّ؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُكَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يَنْهَى عَنْ ذَلِكَ وَأَنْتَ أَعْجَبُ إِلَيْنَا مِنْهُ، قَالَ:" رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ".
وبرہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اس حال میں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں نے حج کا احرام باندھ رکھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کروں؟ تمہیں کیا چیز روک رہی ہے؟ اس نے کہا: میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اس سے روکتے دیکھا ہے ۱؎، لیکن آپ ہمیں ان سے زیادہ پسند ہیں انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حج کا احرام باندھا پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 28 (1233)، (تحفة الأشراف: 8555)، مسند احمد (2/6، 56) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن عباس رضی الله عنہما کا کہنا تھا کہ طواف کرنے سے احرام کھولنا ضروری ہو جاتا ہے، لہٰذا جو اپنے احرام پر باقی رہنا چاہے وہ طواف نہ کرے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2932 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2932
اردو حاشہ:
(1) مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص نے میقات سے حج کا احرام باندھا ہو، وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف کر سکتا ہے یا نہیں؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ حاجی طواف قدوم نہیں کرے گا، اگر وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف اور سعی کر لے گا تو اس کا طواف اس کے حج کو عمرہ بنا دے گا، لہٰذا وہ طواف اور سعی کرنے کے بعد حلال ہو جائے اور حج کے دنوں میں حج کا نیا احرام باندھے اور حج کرے۔ اس طرح اس کا حج تمتع بن جائے گا اور اس کے لیے قربانی ذبح کرنی واجب ہوگی۔ ان کا یہ موقف صحیح نہیں تھا۔ ان کے برعکس جمہور کا موقف ہی راجح ہے کہ مفرد طواف قدوم کر سکتا ہے۔ بہرحال حج تمتع کے علاوہ، حج افراد اور حج قران بھی جائز ہیں۔ حج قران کی صورت میں حاجی مکہ جاتے ہی طواف وسعی کرنے کے باوجود حالت احرام ہی میں رہے گا تاآنکہ حج کے افعال سے فارغ ہو جائے۔ اس کے لیے قربانی لازم ہوگی۔ یہ طواف، طواف قدوم ہوگا۔ اس کا حج کا احرام قائم رہے گا۔ حج کے دنوں میں اسی احرام سے حج کرے اور یہ صرف حج ہوگا، قربانی واجب نہیں ہوگی۔ حج تمتع کرنے والا طواف وسعی کے بعد حلال ہو جائے گا اور پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھے گا۔ متمتع کے لیے بھی قربانی ضروری ہے۔
(2) ہر مسلمان پر اتباع کتاب وسنت واجب ہے۔ اگر کوئی مفتی یا عالم کوئی ایسا فتویٰ صادر کرے جو قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2932
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1805
´حج قران کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے «لبيك بعمرة» کہا پھر «لبيك بحجة» کہا) ۱؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: ”تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لیے (احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ جائے“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی، پھر (آپ کے لیے محرم ہونے کی وجہ سے) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج پورا کر لیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لیے حلال ہو گئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1805]
1805. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے قران (قاف کے کسرہ کے ساتھ) اور تمتع کی اصطلاحات شروع میں اس طرح مشہور و معروف نہ تھیں جس طرح کہ بعد میں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ احادیث میں قران کے لیے تمتع کا لفظ بھی آیا ہے جیسے کہ مندرجہ ذیل بالاحدیث میں وارد ہوا ہے۔یہاں یہ لغوی معنی میں ہے۔یعنی فائدہ حاصل کرنا۔ چونکہ انہوں نے اپنے سفر حج میں عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا تھا اس لیے یہاں اسے لغوی طور پر تمتع سے تعبیر کر دیا ہے۔ ورنہ موجود اصطلاح کےاعتبار سے یہ حج تمتع نہیں ہے حج قران ہے۔
➋ مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام بیت اللہ کا طواف ہوتا ہے۔ اس طواف کو طواف قدوم کہتے ہیں۔
➌ طواف کی ابتدائی حجر اسود سے اور اس کے استلام سے ہوتی ہے اور اسی پر انتہا بھی۔ استلام کےمعنی ہیں ہاتھ لگانا یا چومنا ایک مکمل طواف میں سات چکر پورے کیے جاتے ہیں اور اس پہلے طواف (طواف قدوم)کے پہلے تین چکروں میں آہستہ آہستہ دوڑنا مسنون ہے۔اسے «رمل» یا «خبب» کہتے ہیں۔مگر عورتیں اس سے مستثنی ہیں۔بعد والے کسی طواف میں رمل نہیں کیاجاتا۔
➍ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔مستحب یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں۔ان کے بعد دوبارہ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا بھی مسنون عمل ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ خیال رہے کہ حجراسود کو بوسہ دینے کے لیے دھکم پیل ایک قبیح اور ناجائز حرکت ہے اور خواتین کے اندر گھسیں۔چاہیے کہ باوقار انداز سے اپنی باری کا انتظار کیا جائے یا پھر صرف ہاتھ لگا کر اشارہ کر کے آگے گزر جائے۔
➎ حج تمتع یا قران والے کے لیے قربانی واجب ہے۔اگر قربانی کی استطاعت نہ ہو تو دس روزے رکھے۔تین روزے ایام حج میں اور باقی سات اپنے اہل میں واپس آکر۔ایام حج سےمراد 9ذوالحجہ (یوم عرفات) سے پہلے یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (تفسیر فتح القدیر) ب
➏ حج تمتع والا یا عمرے والا بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد حجامت بنوا کر کامل طور پر حلال ہو جاتا ہے جبکہ حج افراد یا قران والا دسویں ذوالحج کو قربانی کرنے اور حجامت بنوانے کے بعد لباس تبدیل کر سکتا ہے اور خوشبو لگا سکتا ہے۔مگر بیوی سے قربت نہیں کر سکتا۔ہاں بیت اللہ کے طواف (طواف افاضہ یا طواف زیارت)کے بعد وہ کامل طورپر حلال ہو جاتا ہے۔
➐ شیخ البانی نے اس روایت کے الفاظ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ کہا پھر حج کا کو شاذ قرار دیا ہے۔گویا صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے حج کا تلبیہ کہا اور آگے جاکر حج کے ساتھ عمرے کو بھی ملالیا۔ایسا ابتدا میں نہیں ہو ا بلکہ آگے جاکر ہوا۔ اس طرح دوسری روایات کے ساتھ مطابقت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:زاد المعاد فتح الباری عون المعبود وغیرہ۔]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1805
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2733
´حج تمتع کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا ۱؎ یعنی پہلے عمرہ کیا پھر حج کیا اور ہدی بھیجی، بلکہ اپنے ساتھ ذوالحلیفہ سے ہدی لے گئے (وہاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کا تلبیہ پکارا پھر حج کا تلبیہ پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تمتع کیا، یعنی عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا۔ البتہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہدی بھیجی اور اپنے ساتھ بھی لیے گئے، اور کچھ لوگ ایسے تھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2733]
اردو حاشہ:
(1) حج تمتع کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع فرمایا یا قران؟ صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قران فرمایا تھا۔ اور تمتع، قران کو بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ لغوی طور پر تمتع کے معنیٰ فائدہ اٹھانا ہیں۔ تمتع اور قران دونوں میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، لہٰذا دونوں کو لغوی طور پر تمتع کہا جا سکتا ہے ورنہ اصل تمتع یہی ہے کہ عمرہ کر کے حلال ہو، پھر الگ احرام کے ساتھ حج کرے۔ اس حدیث میں بھی تمتع لغوی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
(2) ”پہلے عمرے کی لبیک پکاری“ یہ بات مشہور روایات کے خلاف ہے۔ سابقہ روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے بیان ہے کہ آپ نے حج کی لبیک پکاری۔ صحیح یہ ہے کہ آپ نے حج پر عمرہ داخل فرمایا۔
(3) ہر حرام چیز حلال ہونے سے مراد احرام کا ختم ہوناہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2733
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 821
´حج اور عمرہ کے ایک ساتھ کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 821]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔
انس رضی اللہ عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کر لیں تو آپ سے کہا گیا ((قُلْ عُمرَۃٌ فِی حَجَّۃِِ)) اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 821
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2998
وبرہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، میں نے حج کا احرام باندھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کروں؟ انہوں نے فرمایا: تیرے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ اس نے کہا، میں نے فلاں کے بیٹے کو دیکھا ہے، وہ اسے ناپسند کرتا ہے، اور آپ ہمیں اس سے زیادہ محبوب ہیں۔ کیونکہ انہیں ہم نے دنیا کی آزمائش میں پڑتے دیکھا ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ہم میں سے یا تم میں سے کون دنیا کے فتنہ میں مبتلا نہیں ہے؟ پھر فرمایا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2998]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حج افراد اور حج قران کرنے والے کے لیے طواف قدوم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب نہیں ہے،
اگر کوئی شخص ایسے تنگ وقت میں مکہ معظمہ پہنچتا ہے اگر وہ طواف قدوم کرنے لگے تو اس کا عرفات کا وقوف رہ جائے گا جو بالاجماع حج کارکن اعظم ہے جس کے بغیر حج کالعدم ہے تو وہ طواف قدوم کیے بغیر عرفات چلا جائے گا۔
اور اس پر دم لازم نہیں آئے گا۔
لیکن امام امالک رحمۃ اللہ علیہ،
ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شافعی آئمہ کے نزدیک طواف قدوم واجب ہے،
اگر یہ رہ جائے تو ایک جانور کی قربانی لازم آتی ہے،
قاضی شوکانی نے بھی طواف قدوم کو آپ کے فصل کی بنا پر لازم قرار دیا ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس ہدی نہیں ہے تو وہ وقوف عرفات سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کرے،
اگر وہ بیت اللہ کا طواف کرے گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے پاس قربانی نہیں تھی انہیں اس طواف کو عمرہ بنانے کا حکم دیا لہٰذا یہ متمتع ہو جائے گا مفرد یا قارن نہیں رہے گا،
لیکن اگر اس کے پاس قربانی ہو تو پھر طواف قدوم اور سعی کر سکتا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا وہ مفرد کے لیے طواف قدوم کے قائل نہیں تھے درست نہیں ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فتنہ دنیا میں مبتلا اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بصرہ کے گورنر بن گئے تھے جبکہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی عہدہ یا منصب قبول نہیں کیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2998